کارل مارکس – انقلابی ورثہ سلسلہ

1117

کارل مارکس

علی عباس جلالپوری

دی بلوچستان پوسٹ : انقلابی ورثہ سلسلہ

کارل مارکس 5مئی1818ء کو جرمنی کے ایک شہر ٹریر میں ایک قانون دان یہودی ہائزخ مارکس کے گھر پیدا ہوا۔ اس کے آباؤ اجداد کئی پُشتوں سے ربائی چلے آرہے تھے لیکن ہائزخ نے مصلحتاً عیسائیت قبول کرلی تاکہ وہ فرقہ وارانہ تعدی سے محفوظ رہ سکے کارل مارکس بچپن ہی سے نہایت ذہین تھا۔ اس نے 1835ء میں میٹرک کا امتحان دیا‘ جس میں اس نے ’’پیشے کے انتخاب کے بارے میں ایک نوجوان کے خیالات‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا اس میں کہا:

’’پیشے کے انتخاب میں ہمارے لئے فیصلہ کن محرک یہ ہونا چاہیے کہ اپنی ذات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ہم بنی نوع انسان کی بہبود کا کام بھی کریں۔۔۔۔۔۔انسانی فطرت ایسی واقعہ ہوئی ہے کہ آدمی دوسروں کی بہتری کے لئے کام کرکے ہی اپنی ذات کی تکمیل کرسکتا ہے‘‘۔

1836ء کو کارل مارکس کی منگنی اس کی بچپن کی ہم جولی جینی سے ہوگئی جو اس کی بڑی بہن صوفیہ کی سہیلی تھی اور امراء کے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ جینی کا باپ جوہان لڈوگ فان وسٹ فالن پروشیا کا پریوی کونسلر تھا اور سکاٹ لینڈ کے روساء کے مشہور خوادے ارگل کیمبل کا ایک فرد تھا، کارل مارکس کا باپ اس منگنی کے بارے میں متردد تھا اور محسوس کرتا تھا کہ جینی جیسی رئیس زادی نے جو اپنے حسن وجمال اور تہذیب و شائستگی کے اعتبار سے شہر بھر کی لڑکیوں میں ممتاز تھی۔ کارل مارکس سے منگنی کرکے اپنا سب کچھ قربان کردیا ہے۔ وہ جینی کے مضبوط کردار سے بڑا متاثر ہوا اور اسے ایثار اور بے نفسی کا پیکرسمجھنے لگا۔ اس کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی چٹان جیسی محکم شخصیت سے بھی بے خبر نہیں تھا وہ کہا کرتا تھا کہ میرے بیٹے کے سینے میں ایک ’’دیو‘‘ چُھپا بیٹھا ہے کیا معلوم یہ کیا رنگ لائے گا۔

کارل مارکس برلن یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران شعر کہا کرتا تھا ۔ اس نے عشقیہ نظموں سے بھری ہوئی تین بیاضیں جینی کو پیش کیں بعد میں ان نظموں کا ذکر کرتے ہوئے کارل مارکس کہا کرتا تھا کہ ان میں جذبے کی حرارت تو موجود تھی لیکن تھیں وہ بے تکی ہی۔ ہائزخ کو اپنے بیٹے کی شعر گوئی کا علم ہوا تو اسے یہ بات ناگوار گُزری۔ اس نے کارل کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ذہنی و جذباتی اضطراب پر قابو پانے کی کوشش کرے۔کارل کی دو رومانوی نظمیں ایک ادبی جریدے ایتھینام میں شائع ہوئی تھیں۔

یونیورسٹی میں کارل نے فلسفہ، تاریخ اور قانون کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ اس زمانے میں وہ ہیگل کے مداحوں میں شامل تھا۔ اس کے دو ہم خیال ساتھیوں ایڈگربائز اور کارل کوپن نے خاصی شہرت پائی۔

کارل مطالعے میں غرق رہتا تھا اور کتابوں سے اقتباسات لیا کرتا تھا۔ یہ عادت عمر بھر باقی رہی۔ اس نے ڈاکٹر یٹ کے لیے اپیکورس پر مقالہ لکھا‘ جس سے وہ مادیت کی جانب مائل ہوگیا اور ہیگل کی مثالیت سے بدظن ہوگیا، جب اسے ڈاکٹریٹ کی سند لی تو معروف ناول نگار برتھولڈ آئرباخ نے اپنے 23سالہ دوست کے بارے میں موزس ہوس کو خط میں لکھا:
اس دور کا عظیم ترین اور واحد حقیقی فلسفی ڈاکٹر مارکس ابھی جوان ہے، اس کے ہاتھوں سے ازمنہ وسطی کے مذہب اور فرسودہ سیاسیات کا خاتمہ ہوگا۔ مارکس بے حد ذہین ہے اور فلسفیانہ متانت سے بھی بہرہ ور ہے، اس کی ذات میں روسو‘ والٹیر‘ ہولباخ‘ لسنگ ہالنے اور اکھٹے ہوگئے ہیں۔

مارکس کے حلقہ احباب میں لڈوگ فوئرباخ بھی شامل تھا جس نے بعد میں ہیگل کی مثالیت پر نقد لکھ کر اسے تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا اور اپنی مادیت سے کارل مارکس کو بھی متاثر کیا تھا چنانچہ آ ج جدلیاتی مادیت کے ارتقاء کا ذکر کرتے ہوئے فوئرباخ کو ہیگل اور کارل مارکس کے درمیاں ایک ضروری واسطہ سمجھا جاتا ہے، کارل مارکس پروفیسر بننے کا آرزو مند تھا لیکن وہ اس انقلابی تحریک کی لپیٹ میں آگیا جو شاہفریڈرک ولیم سوم کی موت کے بعد جرمنی میں شرورع ہوئی اور شدہ شدہ سارے یورپ میں پھیل گئی، کارل مارکس جاگیرداری نظام کا مخالف تھا ، جس کے باعث کسان صدیوں سے اپنے ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم ہوچکے تھے، اپنے انقلابی افکار کی اشاعت کے لئے اس نے ایک جریدے رینش زائی شنگ میں پُر مغز اور زوردار مقالات لکھے‘ جن سے اس کی جودتِ فکر اور علمیت کی ہر کہیں دھاک بیٹھ گئی، 1843ء میں حکومت نے یہ پرچہ بند کردیا، انہی ایام میں کارل مارکس کو اپنے والد سے ایک معقول رقم ملی، جس سے اس نے اپنا چھاپہ خانہ نصب کرلیا اور ایک نیا پرچہ نیوریشن زائی شنگ کے نام سے جاری کیا لیکن حکومت نے اس کی اشاعت پر بھی پابندی لگادی اور مارکس کو نہایت پریشانی عالم میں ہجرت کرنی پڑی، جس سے اس کا سارا اثاثہ دریابُرد ہوگیا۔ اس پُرآشوب دور میں اسے جرمنی‘ پیرس اوربیلجیم سے بار بار جلاوطن کیا گیا۔ اس دربدری میں اس کی باوفا بیوی جینی نے اس کی رفاقت کا حق ادا کیا۔ برسلز میں پولیس نے کارل مارکس کو گرفتار کرلیا۔ جینی اس کی خبر لینے پولیس اسٹیشن گئی تو اسے بھی حوالات میں بند کردیا گیا اور قیدی کسبیوں کی کوٹھڑی میں رکھا گیا بعد میں وہ رہا ہوکر اپنے شوہر سے جاملی۔ کارل مارکس کی اینجلز سے پہلی ملاقات پیرس میں ہوئی جو عمر بھر کی گہری دوستی کا عنوان بن گئی۔ اس کے دونوں دوست مل کر کام کرنے لگے اور عزم و ہمت سے انقلابی تنظیم کے کام میں محو ہوگئے۔ فریڈرک انجلز28نومبر 1830کو جرمنی کے ایک شہر بارمن پیدا ہوا اس کا باپ ایک خوشحال صنعت کار تھا، تعلیم کے دوران اینجلز بھی مارکس کی طرح شعر کہا کرتا تھا۔ فارغ التحصیل ہوکر اینجلز کاروبار میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے لگا لیکن جلد ہی انقلابی سرگرمیوں کیچکرمیں آگیا۔ جس سے اس کے باپ کو سخت مایوسی ہوئی۔انقلابیوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی لیکن بیڑن کی لڑائی میں شاہی فوج نے انہیں شکست دی۔ انجلز نے بھی جوفنِ حرب کا تربیت یافتہ تھا اس لڑائی میں حصہ لیا۔ شکست کے بعد وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور انگلستان چلا گیا۔ جہاں مانچسٹر میں اس کے باپ کا ایک کارخانہ تھا۔ مانچسٹر میں دورانِ قیام انجلز نے انگریزی کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی زباں حالی کا جائزہ لیا اور اپنی کتاب ’’انگلستان کے مزدور طبقے کے احوال‘‘ میں اس کی تفصیل بیاں کی جس سے پہلی بار لوگ مزدور طبقے کے مسائل سے آگاہ ہوئے۔ انجلز مارکس کی طرح پکا مادیت پسند اور پُرخوش انقلابی تھا۔ وہ نہایت فراخ دلی سے تاریخی مادیت کے نظریئے کی اولیت اور معاشرہ انسانی کی جدلیاتی ارتقاء کے تصور کو کارل مارکس سے منسوب کرتا تھالیکن اس کی اپنی فکری ع علمی دین بھی گرانقدر ہے، ریاست کی ابتداء کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ریاست اس وقت عالمِ وجود میں آئی جب معاشرہ انسانی طبقات میں بٹ گیا۔ غالب طبقے نے مغلوب طبقے پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے ریاست قائم کی تھی وہ لکھتا ہے:

قدیم زمانے کی ریاست کسانوں اور مزارعوں کی ریاست تھی ‘ جس کا مقصد غلاموں کو محکوم رکھنا تھا، جاگیرداروں کی ریاست کسانوں اور مزارعوں کو دبائے رکھنے کے لئے آلہ کار ثابت ہوئی۔ جدید نمائندہ یا پارلیمانی ریاست سرمایہ داروں کا ایک وسیلہ بن گیا جس سے وہ محنت کشوں کو لوٹ رہے ہیں‘‘۔

انجلز کا عقیدہ تھا کہ محض زبانی کلامی وعدوں سے محنت کشوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا اور سرمایہ داروں کے جبر واستحصال سے نجات پانے کے لئے محنت کشوں کو مسلح جدوجہد کرنی ہوگی۔

جب یورپ میں کارل مارکس کو کہیں پناہ نہ ملی تو وہ لندن چلا گیا۔ 1848ء میں کارل مارکس اور انجلز نے اپنا مشہور انقلابی منشور شائع کیا‘ جس میں دنیا بھرکے محنت کشوں کو متحد ہوکر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کرنے کی دعوت دی۔ انہوں ننے کمیونسٹ لیگ کا پُرانا نعرہ ’’ سب انسان بھائی بھائی ہیں‘‘ بدل کر نیا نعرہ جو بین الاقوامی پرولتاریہ کا نعرہ بن گیا۔

’’دُنیا کے محنت کشوایک ہوجاؤ‘‘۔

لوئی انٹرمیئر انقلابی منشور کے بارے میں لکھتا ہے:

انقلابی منشور کا لبِ لباب یہ ہے کہ تاریخی مادیت میں ذرائع پیدوار کی ملکیت اہم ہے، طبقات معاشرہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کون سا طبقہ ذرائع پیداوار کا مالک ہے اور کون سا نہیں۔ ظاہراً جو طبقہ ذرائع پیداوار کا مالک ہے وہی دوسرے طبقے کا استحصال کرتا ہے ۔ لہٰذا محروم طبقہ جدوجہد کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، تاریخ عالم قدیم اشتمالیت سے لیکر سرمایہ داری نظام تک اسی طبقاتی آویزش سے عبارت ہے۔ ذرائع پیداوار کے مالک طبقے کے خلاف مخالفت اور منافرت بڑھ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ان تضادات کے باعث جو اس کے ضمیر میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مارکس جب سوشلزم کے ناگزیر ہونے کا ذکر کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ سرمایہ داروں کا ظلم محنت کشوں کو ان کا قلع قمع کرنے پر مجبور کردیتا ہے‘‘۔

اٹو پیائی سچے انسان دوست تھے اور شحضی املاک کو تمام معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کی جڑ سمجھتے تھے لیکن طبقاتی آویزش میں وہ پرولتاریہ کے تاریخی کردار سے بے خبر رہے۔ اس لئے انقلابی تحریکوں کی عملاً آبیادی نہ کرسکے ۔ کارل مارکس اور انجلز نے منصفانہ معاشرہ تعمیر کرنے کے لئے عملی تجاویز پیش کیں جو معاشرے کے معروضی احوال پر مبنی تھیں اس لئے وہ اشتمالی انقلاب کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ فرانس کے خردمند قامو سیوں کی طرح کارل مارکس کا بھی یہی خیال تھا کہ عقل و خرد معاشرے کی ارتقاء میں اسی صورت میں موثر ہوسکتی ہے جب وہ نیچر اور معاشرے کے معروضی قوانین سے مطابقت رکھتی ہو۔

لندن میں کارل مارکس کو بے پناہ مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تفصیل اس کے اور جینی کے خطوط سے ملتی ہے۔ یہ داستان اندوہناک بھی ہے اور ولولہ انگیز بھی۔ وجہ معاش کے لئے کارل مارکس نے ایک امریکی جریدے کے لئے لکھنا شروع کیا۔ جس کا معاوضہ اسے ایک پونڈ فی مقالہ ملتا تھا ۔ اخبار والے اس کے مضامین سے جملے اُڑا کراپنے افتتاحیہ میں شامل کرلیتے تھے اور بچا کُھچا مواد مارکس کے نام سے چھاپ دیتے تھے۔

جاڑے میں کوئلے اور خوراک کی فراہمی میں مشکل پیش آتی تھی۔کئی دفعہ مارکس کو نان شبینہ کے لئے اپنے کپڑے گروی رکھنا پڑے اور وہ کئی روز گھر میں گھسا بیٹھا رہا۔وہ اپنی بیٹیوں کو سکول میں داخلہ نہ دلاسکا ۔ وہ گھر کی چاردیواری میں مقید ہوگئیں کیونکہ ان کے جوتے گروی رکھ دیئے جاتے تھے۔ ان حالات میں جینی اپنے قیمتی ملبوسات‘ زیور اور برتن گروی رکھ کر یا بیچ کر ان غریب الوطن انقلابیوں کے لئے نان و نفقہ کا انتظام کرتی رہی‘ جو یورپ کی انقلابی تحریکوں کی ناکامی کے بعد بھاگ بھاگ کر لندن میں پناہ لے رہے تھے۔ جینی کو جہیز میں جو بھاری چاندی کے برتن ملے تھے ان پر آرگل خانوادے کا نشان کندہ کیا گیا تھا۔ ایک دن کارل مارکس یہ برتن گروی رکھنے کے لئے بازار گیا۔جب یورپ میں کارل مارکس کو کہیں پناہ نہ ملی تو وہ لندن چلا گیا۔ 1848ء میں کارل مارکس اور انجلز نے اپنا مشہور انقلابی منشور شائع کیا‘ جس میں دنیا بھرکے محنت کشوں کو متحد ہوکر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کرنے کی دعوت دی۔ انہوں ننے کمیونسٹ لیگ کا پُرانا نعرہ ’’ سب انسان بھائی بھائی ہیں‘‘ بدل کر نیا نعرہ جو بین الاقوامی پرولتاریہ کا نعرہ بن گیا۔

دُکاندار نے آرگل خانوادے کا نشان دیکھ اور پھر کارل مارکس کی ہئیت کذائی پر نظر کی تو اسے شبہ ہوا کہ یہ چوری کا مال ہے، کارل مارکس نے بڑی مشکل سے اس کی تشفی کی اور اپنی جان چُھڑائی۔ مارکس کی شب و روز مکان کا کرایہ بچوں کی فیس اور قرضوں پر سود ادا کرنے کی پریشانیاں لاحق رہتی تھیں ۔ ایک دفعہ قرض خواہوں کے تقاضوں سے گھبرا کر مارکس نے سوچا کہ وہ اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردے اور بڑی بیٹیوں کو کسی گھرانے میں گورنس کی ملازمت دلادے لیکن انجلز نے اس ارادے سے باز رکھا اور مالی امداد دے کر قرض خواہوں سے اس کا پیچھا چُھڑادیا۔ کارل مارکس نے اپنی ماں سے التجا کی کہ وہ اپنے آبائی ورثے کا حصہ اسے دے لیکن اس نیک بخت کا جی نہ پسیجا اور کہا تو یہ کہاکہ ’’سرمائے کی مخالفت کرنے کی بجائے تمہیں سرمایہ کمانے کی کوشش کرنی چاہیئے تھی‘‘۔

ایک فرانسیسی انقلابی نے جو میڈیکل کا طالب علم تھا، مارکس کی بیٹی لارا سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو مارکس نے اس بات کا ذکر انجلز سے کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طالب علم کی مالی حات کا اطمینان کئے بغیر لارا کواس سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسے بات کا احساس تھا کہ ناز پروردہ جینی نے اس سے شادی کرکے بہت دُکھ جھیلے تھے ایک خط میں لکھتا ہے:

’’تم جانتے ہو میں نے اپنا سب کچھ انقلابی جدوجہد پر قربان کردیا ہے، مجھے اس بات کا افسوس نہیں ہے۔ اگر مجھے دوبارہ زندگی شروع کرنے کا موقع ملے تو بھی میں یہی کچھ کروں گا۔ اتنا ضرور ہے اس صورت میں شادی نہیں کروں گا۔ جہاں تک میرے بس میں ہے، اپنی بیٹی کی اس کھڈے میں گرنے سے بچاؤں گا جس میں گر کر اس کی ماں پاش پاش ہوچُکی ہے‘‘۔
یہ زمانہ ہے، جب کارل مارکس کے قرض خواہ اسے عدالت میں کھسیٹنے کا جتن کررہے تھے۔ مارکس نے اپنا اوورکوٹ اور دوسرے بھاری کپڑے گروی رکھ کر اپنی بیٹی کی منگنی کی رسم ادا کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہونے والے شوہر پر اس کی تنگ دستی اور زبوں حالی کا راز کُھل جائے۔ انہی ایام میں اس کی بڑی بیٹی نے سکاٹ لینڈ کے ایک خاندان کی بچیوں کو پڑھانا شروع کیا تاکہ وہ اپنے کنبے کی تھوڑی بہت کفالت کرسکے۔ جب قصاب نے انہیں گوشت اُدھار دینے سے انکار کردیا تو مارکس اور اس کی بیوی بچے روکھی سوکھی کھاکر گذر بسر کرنے لگے۔ اس کسمپرسی اور افلاس کے عالم میں اسے اور اس کے بیوی بچوں کو امراض نے گھیر لیا۔ علاج کے لیے گھر میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ اسی حالت میں اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی داغِ فعارقت دے گئے۔ اس کے آٹھ سالہ بیٹے ایڈگرکی حالت بگڑ گئی تو مارکس رات بھر اس کے ساتھ لیٹ کر اس کی تیمارداری کرتا رہا ایڈگرکی موت نے گویا اس تاریک غمکدے کی شمع گُل کردی اور میاں بیوی اس صدمے سے نڈھال ہوگئے۔ مارکس ایک خط میں لسال کو لکھتا ہے:

’’بیکن کہتا ہے کہ ممتاز لوگوں کے دُنیا سے اتنے رشتے ناطے ہوتے ہیں اور اتنی دلچسپیاں ہوتی ہیں کہ وہ کسی بھی تفصان کو آسانی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ میں اس امرے سے نہیں ہوں۔اپنے پیارے بیٹے کی موت نے مجھے ذہنی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے‘‘۔

جینی بیمار پڑگئی تو انجلز کو خط لکھا:

’’میری بیوی ذہنی پریشانیوں کے باعث ایک ہفتے سے بیمار ہے، میرادل خون ہوچکا ہے اور کھوپڑی میں آگ بھڑک رہی ہے لیکن مجھے دکھاوے کے لئے پُرسکون رہنا پڑتا ہے‘‘۔

جینی بھی اپنے شوہر کے بارے میں پریشان رہتی تھی۔ جوزف ویڈمیئر کو ایک خط میں لکھتی ہے:
’’میرے شوہر کو بورژوا زندگی کی چھوٹی موٹی پریشانیوں نے نیم جان کردیا ہے اور اسے ایسے وقت آن گھیرا ہے جب اُسے اپنی تمام توانائی‘سکون اور اعتمادِ نفیس کی ضرورت تھی‘‘۔

جوزف ویڈمیئر ہی کو ایک اور خط میں لکھتی ہے:

’’یہ مت خیال کرنا کہ میں ان پریشانیوں کے آگے جُھک جاؤں گی۔ میں جانتی ہوں کہ ہماری کشمکش کچھ ہمارے ساتھ خاص نہیں ہے‘ مجھے اس بات سے دلی خوشی ہے کہ میرا پیارا شوہر میری زندگی کا سہارا میرے ساتھ ہے۔ اس بات سے البتہ دُکھ ہوتا ہے کہ اسے معمول کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا اور اس کی امدام کا کچھ سامان بھی نہ ہوسکا۔ وہ جو دوسروں کی مدد کرنے میں دلی خوشی محسوس کرتا ہے، اب خود محتاج ہوگیا ہے‘‘۔

لسال کو لکھا:

’’مارکس کو اس بات کی فکر کھائے جارہی ہے کہ وہ اپنے کام جلدی سے سرانجام نہیں دے سکا۔ اس کے ساتھ اسے ذہنی سکون بھی میسر نہیں ہے۔ جس سے اس کی صحت گر گئی ہے اور نان شبینہ کے حصول کی تگ و دونے اسے نڈھال کردیا ہے جس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی‘‘۔

یہی فکر کارل مارکس کو لاحق تھی‘ اس نے انجلز کو لکھا :

’’گذشتہ آٹھ ہفتوں سے پریشانیوں کی جس دلدل میں دھنس گیا ہوں‘ میں نہیں چاہتا کہ میرے بدترین دشمن بھی اس آشوب سے گذریں۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا قلق ہے کہ میرے ذہنی قویٰ متاثر ہورہے ہیں اور میرے کام کرنے کی صلاحیت برباد ہورہی ہے‘‘۔

اسی زمانے میں کارل مارکس کو خبرہوئی کہ اس کا دیرینہ انقلابی رفیق کارل شاپر بسترِ مرگ پر پڑا اُسے یاد کررہا ہے‘ کارل مارکس اسے ملنے گیا تو کارل شاپر نے کہا:

’’ہمارے ساتھیوں کو معلوم ہے کہ میں اپنے اصولوں پر کاربند رہاہوں۔ اگرچہ رجعت پسندی کے اس دور میں مجھے اپنے کُنبے کی کفالت کے لئے کٹھن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے ایک محنت کش کی زندگی گذاری اور ایک محنت کش ہی کی موت مررہا ہوں‘‘۔

کارل مارکس کو قدرتاً اپنے دوت کی موت پر رنج ہُوا لیکن اس خیال سے اسے تقویت قلب بھی ہوئی کہ انقلابی بھی ہوئی کہ انقلابی جدوجہد میں دوسرے بھی اس کے ساتھ قربانیاں دینے میں شریک ہیں اس دوران کارل مارکس کو کرائے کے مکان سے بے دخل کرکے اس کا سامان وقف کرلیا گیا۔ جینی ایک خط میں لکھتی ہے کہ:

’’1850کے موسم بہار میں ہمیں چیلسی والامکان چھوڑنا پڑا۔ میرا بچہ فاکس بیچارہ بیمار تھا، روزمرہ پریشانیوں کے باعث میری صحت بگڑ گئی۔ ہم چاروں طرف سے مصائب میں گھرے ہوئے تھے۔ قرض خواہ ہمارا پیچھا کررہے تھے۔ ایک ہفتے تک ہم ایک جرمن ہوٹلمیں ٹھہرے رہے یہاں کا قیام بھی مختصر ثابت ہوا۔ ایک صبح ہوٹل والے نے ہمیں ناشتہ دینے سے انکار کردیا اور ہمیں نئے ٹھکانے کی تلاش ہوئی‘ میری ماں جو تھوڑی بہت امداد کرتی تھی اس نے ہمیں فاقوں سے نچائے رکھا۔ آخر ہمیں ایک یہودی فیستہ فروش کے مکان میں دوکمرے مل گئے جہاں ہم نے گرما کا موسم بڑی تکلیف میں گُذارا‘‘۔
اس افراتفری کے دوران میں ان کا ننھا بیٹا گائیڈو مختصر علالت کے بعد دم توڑ گیا اور ننھی فرانزسکا کا بھی یہی حشر ہوا۔ جینی اس کی موت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہے:

’’1852کے ایسٹر ر ہماری ننھی فرانزسکا شدید نزلے میں مبتلا ہوگئی۔ تین دن رات وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں سسکتی رہی۔ اس کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی جب اس نے آنکھیں موند لیں تو ہم نے اس کی ننھی سی نعش کو عقبی کمرے میں رکھا اور سامنے کے کمرے میں فرش پر ہم سب نے بستر بچھائے تینوں بچے ہمارے ساتھ لیٹ گئے ہم سب اس ننھے فرشتے کے لئے رو رہے تھے جس کا بے جان جسم پچھلے کمرے میں پڑا تھا۔ بیماری ننھی کی موت ایسی حالت میں ہوئی جب ہم فاقے کاٹ رہے تھے۔ ہمارے جرمن دوست بھی ہماری کچھ مدد نہ کرسکے۔ ارنسٹ جونز نے جو ہمارے یہاں آیا کرتا تھا امداد کا وعدہ کیا لیکن کچھ بھی فراہم نہ کرسکا۔ میں اپنے دل میں درد کی دنیا لیے ایک فرانسیسی پناہ گزین کے ہاں گئی جوہمارے پڑوس میں رہتا تھا اور ہمارے یہ یہاں آیا جایا کرتا تھا۔ میں نے اسے اپنی بپتا کہہ سنائی اور مدد مانگی۔ اس جوانمرد نے نہایت دلسوزی سے مجھے دوپونڈ دیئے ۔ اس رقم سے ہم نے اس تابوت کا سامان کیا‘ جس میں ہماری بچی ابدی نیند سورہی ہے۔جب وہ پیدا ہوئی تو اس کے لئے گہوارہ نہ مل سکا اور اب اس کے تابوت کے لیے کیا کچھ نہ کرنا پڑا۔ لوگ اس کی نعش اُٹھائے قبرستان کو چلے تو ہمارے دلوں پر کیا کیا عالم گذر گئے‘‘۔

ان کٹھن حالات میں مارکس اور جینی بھی مزمن امراض میں مبتلا ہوگئے۔ سرطان جینی کے لئے جان لیوا ثابت ہوا اور کارل مارکس کے پھیپھڑے ماؤف ہوگئے۔ کارل مارکس گٹھے ہوئے جسم کا تنومند آدمی تھا لیکن مسلسل پریشانیوں، فاقہ زدگی اور ذہنی کاوش نے اس کی صحت تباہ کردی۔ اس کے باوجود اس نے ثابت قدمی سے اپنا کام جاری رکھا۔ جب وہ مطالعے اور تصنیف و تالیف سے فارغ ہوتا تو انقلابی سرگرمیوں میں جت جاتا۔ اسے اپنے نصب العین اور محنت کشوں کے روشن مستقبل پر پورا اعتماد تھا۔ اس کی بڑی بیٹی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو مارکس نے اسےمبارک باد کا خط لکھتے ہوئے کہا کہ آ ج کل کے پیدا ہونے والے بچوں کے سامنے ایسا انقلابی عہد ہے جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی :

’’بوڑھا ہونا اچھا نہیں ہے کیونکہ بڑھاپے میں آدمی صرف پیش گوئی ہی کرسکتا ہے اس عظیم انقلاب کو دیکھنے کے لیے زندہ رہنے کی تمنانہیں کرسکتا‘‘

مصیبت اور آزمائش کے اس زمانے میں جوانمرد انجلز نے کارل مارکس کی فراخدلی سے مالی امداد کرکے دوستی کا حق ادا کردیا اور قدم قدم پر اسے سہارا دیا۔ اس کی وفا شعوری اور بے نفسی آڑے نہ آتی تو کارل مارکس پے درپے صدمات کی تاب نہ لاسکتا اور اپنے کام کو سرانجام دینے سے قاصر رہتا ان کی دوستی کو ذہنی و قلبی موافقت، مشترکہ نصب العین اور جہد و عمل نے مضبوط بنادیا تھا۔ کارل مارکس کے فکری اور عملیکارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے میکس ملین روہل اور مارگرٹ منالے نے لکھا ہے:

’’مارکس نے اپنی ساری زندگی ایک ہی مقصد کے لئے وقف کردی تھی۔ پرولتاریہ کی جدوجہد کے حوالے سے بنی نوع انسان کی آزدی کا حصول اس کے خیال میں پرولتاریہ جسمانی اور ذہنی پہلوؤں سے معاشرے کے بہترین افراد ہیں۔ اس مقصد کے لئے مارکس نے اپنی صحت، کنبہ، دوست اور احباب سب کچھ ہی قربان کردیا۔ اس نے پرولتاریہ کو ایک انقلابی نظریہ فراہم کیا اور بذات خود ان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس نے سرمایہ داری نظام کی زوال پذیری اور محنت کش عوام کے روشن مستقبل کی جانب توجہ دلائی ۔ اس نے اپنی زندگی کے بہترین سال جلاوطنی میں بسر کیے اور علالت افلاس، احتجاج اور گھریلو مشکلات اس کی زندگی کی مسرتوں کو مسموم کرتی رہیں۔ اس کے باوجود اس نے مختلف ملکوں کی مالی پیش کو حقارت سے ٹھکرادیا اور ان حکومتوں کے گماشتوں کو اس نوع کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ اس نے شہرت اور دولت دونوں پر لات ماردی اور روح فرسا مصائب میں بھی اپنا کام جاری رکھا‘‘۔

جینی کی موت کے وقت مارکس خود صاحبِ فراش تھا اور ڈاکٹر نے اسے نقل و حرکت کی سخت ممالغت کی رکھی تھی۔ مارکس کو اس بات کا سخت افسوس تھا کہ وہ آخری دنوں میں اپنی بیوی کی تیمارداری نہ کرسکا ۔ کئی ہفتے دونوں میاں بیوی ملحقہ کمروں میں بیماری کی حالت میں بے بس پڑے رہے۔مارکس جینی کی تدفین میں بھی شریک نہ ہوسکتا۔

کارل مارکس کی عظمت پر اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ ان نا مساعد حالات میں بھی اس نے اپنا فکری ع عملی کام پورے عزم و حوصلے کے ساتھ جاری رکھا۔

اس نے آدم سمتھ‘ رکارڈو اور مالتھس کی کتابوں کا خسوصی مطالعہ کیا اور برٹش میوزیم میں کئی برس کے مسلسل مطالعے اور انگلستان کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے احوال کے مشاہدے کے بعد اپنی عہد آفرین کتاب ’’سرمایہ‘‘ تصنیف کی‘ جو 1876میں شائع ہوئی جسے بجاطور پر محنت کشوں کی انجیل کہا جاتا ہے، اس میں مارکس نے قدرِ زائد کا انکشاف کرکے سرمایہ داروں کے بے رحمانہ جبر و استحصال کو بے نقاب کیا اور دنیا بھر کے محنت کشوں کی رہنمائی کے لئے انہیں نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ مارکس سے پہلے ریکارڈو نے اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی تھی کہ سرمایہ کا وجود محنت کے استحصال پر قائم ہے لیکن اس کا ذہن معاشی استحصال کے اصل اسباب تک منتقل نہ ہوسکا۔ ان اسباب کا تجزیہ کارل مارکس نے یہ کہہ کر کیا کہ محنت ایک جنس ہے، جسے کارخانہ دار دوسری اجناس کی طرح ارزاں خریدتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نفع کماسکے، جو پیدوار محنت کش پیدا کرتا ہے اور جو اجرت اسے ملتی ہے اس کا فرق زائد قدر ہے جو سرمایہ دار کا منافع بن جاتی ہے۔

’’سرمایہ‘‘ کا پہلا ترجمہ روسی زبان میں شائع ہوا۔ روس کے احتساب کا محکمہ نہایت سختی سے ترقی پسندانہ خیالات کا انسداد کررہا تھا ، لیکن جناب محتسب نے محض اس لیے ’’سرمایہ‘‘ کے ترجمے کی اجازت دے دی کیونکہ اسے پڑھ کر ان کے پلے کچھ نہیں پڑا تھا۔ سرمایہ کی اشاعت کے بعد بورژوا دانشوروں نے اسے ’’خاموشی کی سازش‘‘ سے فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی‘ جس کا کارل مارکس کو احساس تھا۔ اس کو گل مان کو ایک خط لکھا کہ ’’ صحافیوں کا غول‘‘ یہ نہیں چاہتا ہے کہ اس کتاب پر کوئی محققانہ یا ثمر آور مباحثہ ہوسکے۔ یہ قدرتی بات تھی۔ اہل علم مواصرانہ چشمک کے تحت کسی ایسے شخص کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتے جو تحقیق اور علمیت میں ان پر برتری رکھتا ہو اور چپ سادھ کراسیختم کردینا چاہتے ہیں۔ خاموشی کی یہ سازش بالآخر ناکام ہوجاتی ہے اور وقت نئے منصف کو وہ مقام بخشتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے، کال مارکس کے علمی کارناموں میں زندگی کی حرارت تھی، شگفتگی تھی۔ انسان دوستی کی روشنی تھی‘ مستقبل کی نوید تھی، اس لیے بورژوا دانشور اسے دفنانے میں ناکام رہے اور خود تاریخ کے ملبے میں دفن ہوگئے۔ دوسری طرف کارل مارکس کے اٹھائے ہوئے نکات کا تحقیقی جواب دینے کی بجائے جو ان کے بس کی بات نہیں ، نہایت ڈھٹائی سے اس پر ذاتی حملے کیے گئے اور ہر طبقے سے اسے رسوا کرنے کے منصوبے باندھے گئے۔ دیورنگ اور باکونن نے ’’سرمایہ‘‘ کے مطالب پر کڑی نکتہ چینی کی جس کا انجلز نے سکت جواب دیا‘ آخر اہلِ دانش و بنیش نے مارکس کی عظمت تسلیم کرلیا۔ بلفورٹ باکس نے مارکس کو جدید دور کا عظیم اشتراکی مفکر کہا۔ اپنے شوہر کی عظمت اور مقام کی اس پہچان سے جینی کو دلی خوشی ہوئی ۔ جس سے اس زندگی کے آخری شب و روز خوشگوار ہوگئے۔ ’’سرمایہ‘‘ کی اشاعت سے کارل مارکس کو کچھ بھی مالی فائدہ نہیں ہوا۔ اس نے مزاحاً کہا کہ اس کتاب سے اتنی یافت بھی نہیں ہوئی ‘ جتنی قیمت کے سگار اس نے اسے لکھتے وقت پھونک دیئے تھے۔

روس کی ایک انقلابی خاتون ویرازسویج نے جو رجعت پسندوں پر قاتلانہ حملے کرنے میں ہمیشہ مستعد رہتی تھی، کارل مارکس کو خط میں لکھا کہ غالباً آپ کو روس کے زرعی مسائل اور کسانوں کی کمیون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مارکس نے اس کی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے کسانوں کی تحریک سے پوری ہمدردی ہے اور مجھے اُمید ہے کہ انقلاب کی شروعات روس ہی سے ہوگی۔ فی الحقیقت یورپ 1848ء کے انقلاب کی ناکامی اور پیرس کمیون کی شکست کے بعد جب مزدوروں نے ہپنوں تک رجعت پسندوں کے خلاف مردانہ وار جنگ لڑی تھی۔ مارکس نے سوچنا شروع کردیا تھا کہ انقلاب کی کامیابی کے لئے مزدوروں کا کسانوں سے اتحاد ضروری ہوتا ہے۔ 1869ء میں مارکس نے روسی زبان سیکھ لی اور ہرزن‘ ڈوبرولیوبوف اور چرنی سیوفسکی جیسے روشن خیال ترقی پسندوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ موخر الذکرکرتے ہوئے اس نے کہا کہ چرنی شیوفسکی نے بورژوا نظام کو بڑی خوبی سے بے نقاب کیا ہے۔ اس نے روس کے کسانوں کی جدوجہد کو انقلاب کے لئے ایک نیک فالی قرار دیا تھا۔ اس کی ہمدردیاں دُنیا بھرکے کُچلے ہوئے عوام کے ساتھ تھیں۔ اس 1857ء کی جنگ آزادی اور انگریزوں کے خلاف چینیوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت کی تھی۔

نظریاتی محاذ پر کارل مارکس نے پردووں‘ لسال‘ باکونن اور فوئرباخ کے افکار کا عالمانہ تجزیہ کرکے ان کی کوتاہیوں کی نشان دی کی۔ اسے باکونن کی نراجی فکر سے سخت اختلاف تھا اور باکونن کے برعکس اشتراکی معاشرے میں وہ ریاست کی بحالی کو ضروری سمجھتا تھا۔ باکونن ریاست کو یک قلم اور یکسر ختم کر دینے پر بضد تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ مارکس ہی کا نظریہ قرین صحت تھا۔ مارکس نے لسال کے ’’ شخصیت کے مسلک‘‘ پر بھی کڑی گرفت کی اور کہاکہ انقلابی کشمکش میں فیصلہ کن کردار عوام ہی ادا کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی شخصیت خواہ وہ کوئی بھی ہو‘ تن تنہا انقلاب برپا کرنے یا انقلابی تحریک کو کامیابی سے چلا نے پر قادر نہیں ہوسکتی۔ للینن کی وفات کے بعد سٹالن نے اپنی شخصیت کا مسلک قائم کیا تھا ۔ جس کے ضرر رساں اثرات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ کارل مارکس فوئرباخ کے مادی نظریے کا حامی تھا۔ وہ اس بات کا معرف تھا کہ فوئزباخ نے ہیگل کی مثالیت کا طلسم توڑ کر ایک قابل قدر فکری کارنامہ انجام دیا تھا۔ لیکن اس پر گرفت بھی کی اور کہا کہ فوئزباخ نے ہیگل کے *کو منہدم کرکے اخلاقیات میں ازلی و ابدی قدروں کا ذکر کیا ہے۔ جو مثالیت ہی کی ایک صورت ہے، مارکس نے پرودوں پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ ارتقائی عمل سے انقلاب لانا ممکن نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے محنت کشوں کو مسلح جدوجہد کرنا پڑے گی۔ مارکس نے منطقی استدلال اور حقائق و شواہد سے موقع پرستوں مزاجیوں اور ترمیم پسندوں کی فکری خامیوں کی وضاحت کرکے پرولتاریہ کو راست نہج فکر عطا کی۔

مارکس نے 1864ء میں پہلی بین الاقوامی مجلس لندن میں بلائی ۔ جس کے بعد دنیا بھرکے انقلابی ہدایات لینے اس کے گھر آنے لگے۔ مسلسل آلام و امراض کے باعث اس کی صحت مخدوش ہوگئی۔ وہ بیوی کی موت کے صدمے سے سھبلنے نہیں پایا تھا کہ اس کی بڑی بیٹی جینی بھی راہی ملک عدم ہوئی‘ جو اسے بہت پیاری تھی۔ اب وہ اکثر صاحب فراش رہنے لگا اس حالت میں اس کے حصول علم کی پیاس نہ بُجھی۔ جب اس پر غم کا غلبہ ہوتا تو وہ ریاضیات اعلیٰ کے عقدے حل کرکے جی بہلایا کرتا تھا۔ اسے یونانی‘ لاطینی‘ فرانسیسی‘ ہسپانوی‘ انگریزی اور رومانوی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ اپنے محبوب مصنفین اسکیلیس‘ سروانٹیز اور بالزک کی کتابیں اصل زبانوں میں پڑھتا تھا اور اپنے بچوں کو ان کے مطالب سمجھایاکرتا تھا۔ اسے الف لیلہ اور مقامات حریری بھی بہت پسند تھیں اور اواخر عمر میں اس نے عربی زباں سیکھنے کا بھی ارادہ کیا لیکن موت نے مہلت نہ دی۔ وہ ایک جید مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ مزاح سے بھی بہرہ ور تھا‘ ایک دفعہ کسی نے پوچھا بھیجا کہ آپ کی معاشیات پر کتاب کس مرحلے میں ہے؟ مارکس نے جواب دیا کہ کتاب تو مکمل ہوگئی ہے بس اس کی ضخامت بڑھا رہا ہوں کیونکہ کتاب جتنی ضخیم ہوجرمن اسے اتنا ہی پسند کرتے ہیں۔

کارل مارکس کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو وہ ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق روزانہ سنکھیا کی قلیل مقدار بطور دوا استعمال کرنے لگا۔ ایک دن انجلز اس کی مزاج پرسی کو آیا تو مارکس کی خادمہ ہیلسن نے اسے بتایا کہ وہ مطالعے کی کرسی پر دراز آرام کررہے ہیں۔ انجلز نے قریب جاکر دیکھا تو اس کا دوست ہمیشہ کی نیند سوچکا تھا۔

انجلز نے مارکس کی قبر پر آخری خطبہ دیتے ہوئے کہا:

’’اس کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہیں گے‘‘۔

اس کی موت کی خبر سن کر دُنیا بھرکے محنت کشوں کی آنکھیں اپنے محس اور رہنما کے غم میں اشکبار ہوگئیں۔ آج بھی جب اس کے بے پناہ مصائب و آلام کے ساتھ اس کے ایثار نفس‘ انسان دوستی اور عزیمت و استقامت کا ذکر آتا ہے تو بے اختیار سینوں میں جذبات جہد و عمل جوش مارنے لگتے ہیں اور آنکھیں روشن مستقبل کے تصر سے دمک اُٹھتی ہیں۔ کارل مارکس کی موت کے بعد انقلابی تحریکوں کی باگ ڈور انجلز کے ہاتھ میں آگئی۔

اس نے بڑی تند ہی سے مارکس کا تحقیقی اور انقلابی کام جاری رکھا اور اس کے افکار کے ابلاغ کے لئے متعدد کتابیں لکھیں۔ وہ ایک امیر باپ کا بیٹا تھا لیکن انقلابی جذبے سے سرشار ہوکر اس نے اپنا سب کچھ لٹادیا۔ اس کا گھر سارے یورپ کے لئے ہر وقت کھلا رہتا۔ اس نے مارکس کی کتاب ’’سرمایہ ‘‘ کی باقی جلدیں نہایت عرق ریزی سے مرتب کرکے شائع کیں۔ آخر 75برس کی عمر میں اپنے انقلابی فرائض انجام دے کر انجلز اس جہاں فانی سے گذر گیا۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش جلادی گئی اور راکھ ایست بورن کے مقام پر جہاں وہسیر کے لئے جاتا تھا‘ سمندر میں بہادی گئی۔

حوالہ: (تاریخ کا نیا موڑ۔صفحہ 56-70)
( مصنف: علی عباس جلالپوری)