غم کے دریا میں غوطہ زن بانک حمیدہ – عبدالواجد بلوچ

504

غم کے دریا میں غوطہ زن بانک حمیدہ

عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

قلم سے تحریر کیئے ہوئے الفاظ ابدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، جبکہ تقریر اور بیان میں کیئے جانے والے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تحریری اعتبار سے آپ کسی کی تعریف یا تنقید کریں، تو انتہائی محتاط انداز میں الفاظ کا انتخاب کیجئے کیونکہ آپ کی تحریر محققین اور آئیندہ آنے والے افراد کے لیئے ایک حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ قلم اور کتاب کی اہمیت کی وجہ سے دنیا آسمانوں میں کمندیں ڈال رہا ہے، کتاب اور قلم کا انسان سے رشتہ اتنا ہی قدیم ہے، جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگاہی کی تاریخ۔ کتاب و قلم ہی ہے، جس نے ستاروں پر کمندیں ڈالنے،سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق انسان کے رگ و پے میں خون کی طرح شامل کیا ہے۔

لیکن کیا کریں ہم جس دیس میں رہتے ہیں، وہاں کے معمورانِ دیس کو کتابوں اور قلم کی اہمیت کا نا تو اندازہ ہے اور نا ہی ان کا کتابوں سے واسطہ پڑا ہے، ان کا تو رشتہ ہمیشہ کشت و خون بندوق کی گھن گھرج سے تھا، اسی لیئے ان کو ہر چیز کی اہمیت انہی چیزوں میں دکھائی دیتی ہے۔ دنیا میں کتابوں سے محبت کرنے والوں نے ترقی کے منازل طے کیئے ہیں اور آسمان پر زندگی کے راز تلاش رہے ہیں لیکن ہمارے سماج کے ان ہستیوں کو جیل کی کال کوٹڑیوں اور عقوبت خانوں میں اذیتیں دے کر ریاستی معمورانِ سکون حاصل کرتے ہیں۔

یہ پہلا واقعہ تو نہیں کہ میں کہوں کہ جی ہمارے سرمایہ ہستیوں کو گمشدہ کرکے انہیں زندانوں کے سپرد کردیا جارہا ہے، لیکن درد و کرب کے عالم میں متاثرہ اہلِخانہ اسیر ہمیشہ نفسیاتی ہیجان میں مبتلا رہ کر انتظار کی دہلیز پر اپنا وقت گذارتے ہیں. بیس نومبر دو ہزار سترہ کو کراچی یونیورسٹی سے اغواء ہونے والے صغیر احمد کی گمشدگی کو طویل عرصہ گذر چکا ہے، سوشل میڈیا میں مَیں نے ہمیشہ اس امید کے ساتھ کہ کل میرا بھائی بازیاب ہوکر ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ اور سکون کا بہار لے آئے گا اسی امید کو لیکر بانک حمیدہ سرگرداں انصاف کا طلب گار دکھائی دیتی ہے. کل جب میں نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھا کہ ایک بے بس بہن اپنے ہاتھوں اُس بھائی کی تصویر کو انتہائی کرب کے کیفیت میں مبتلا چوم رہی ہے، اگر کسی کے اندر احساس کا ذرہ برابر قطرہ موجود ہے تو حمیدہ کے اس کرب کو اپنے وجود کے اندر تلاش کرے۔

کیوں آخر ان چراغوں کے اوپر آسیب کے سایے ہمیشہ رہتے ہیں، جو علم کی تلاش میں اپنا دیار چھوڑ دیتے ہیں….. بانک حمیدہ اور ان کے اہل و ایال نے صغیر بلوچ کو اس لیئے کراچی بھیجا کہ اسے لاپتہ کیا جائے؟ انہوں نے تو اس پیاس کو بجھانے کے لیئے صغیر بلوچ کو بھیجا، جس پیاس سے سارا بلوچستان تڑپ رہا ہے، شاید اس تڑپ کو مٹانے کی غرض سے صغیر بلوچ اس ادارے کا حصہ تھا، جہاں انسان بنائے جاتے ہیں. یقیناً انہیں گمشدہ کرنے والی قوتیں اس عظیم مقصد کی اہمیت سے نا واقف ہوں، پر وہ عناصر اچھی طرح واقف ہیں، جو انصاف کے ترازو کے زیر تلے احکامات صادر کرتے ہیں. بانک حمیدہ بھی ان اداروں سے کئی امیدیں لگائے بیٹھی ہے کہ جو آئین کی مقدس ہونے کی دلیلیں دیتے پھرتے ہیں۔ وہ لوگ اُن کے شانہ بشانہ ہوکر اس درد کو محسوس کرینگے۔

میری نظر میں جلیلہ حیدر اور بانک حمیدہ میں کوئی فرق نہیں کیونکہ جلیلہ حیدر بھی چند دن پہلے تین ہزار بیواؤں کا درد لیکر احتجاج پر تھی اور بانک حمیدہ لاپتہ بھائی کی تلاش میں اسی درد کو لیکر محوِ سفر ہیں. فرق اتنا ہے کہ وہ “بلوچ” ہے اور جلیلہ ہزارہ…… باقی جس آئین کے مطابق جلیلہ حیدر سراپا احتجاج تھی، اسی آئین کے تناظر میں بانک حمیدہ انصاف کا طلب گار دکھائی دیتی ہے، یقیناً اسی احساس کے ساتھ بانک حمیدہ نے رختِ سفر باندھ لیا ہے کہ یہ کارواں رکے گا نہیں۔

آئین کو مقدس کہنے والے (گو کہ میں از خود نہیں مانتا) اس جانب اپنی نگاہیں دوڑائیں کہ آئین کیا کہتا ہے؟ چوبیس گھنٹے کسی بھی فرد کو حراست میں نہیں رکھا جاتا، آئین کے تناظر میں یہ ان اداروں پر لازمی ہے کہ اس فرد کو عدالت میں پیش کریں لیکن شاید “بلوچ” کے لیئے آئین کا یہ شق لاگو نہیں ہے۔ بانک حمیدہ بھی تو وہی کہہ رہی ہے کہ جس کا پرچار انصاف کے لیئے سراپا احتجاج منظور پشتین کررہا ہے کہ “لاپتہ افراد اگر کسی جرم میں مبتلا ہیں، تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے” جس طرح بانک حمیدہ سمیت وہ تمام بلوچ اہل خانہ جن کے پیارے گمشدہ ہیں، یہی پکار لے کر آئے روز سراپا احتجاج ہیں….

بانک حمیدہ معذرت خواہ ہوں، ایک بلوچ کی حیثیت سے میں بذات خود آپ کے لئے کچھ نہیں کرسکتا، ہاں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک انگھوٹا چھاپ چوکیدار کو کیا معلوم کہ کتاب کی کیا اہمیت ہے۔ آپ کا بھائی علم کا پیاسا تھا، کبھی غم نہ کرنا کیونکہ صغیر بلوچ نے کتابوں سے محبت کی ہے، ان کی اہمیت کو سمجھا ہے، ان کتابوں کا پیار، اس میں رنگی ہوئی ہیں۔ وہ نقوش ہی صغیر بلوچ کے ساتھ صحیح سلامت واپس آجائیں گے، اتنی جلدی کہ گھر میں رونقیں بحال ہونگی اور کتابوں پر لگی ان دھول کا خاتمہ ہوگا، جو صغیر بلوچ کی راہ تک رہی ہیں۔ جس طرح آپ کہہ رہے تھے کہ اگر آج صغیر یہاں ہوتا تو وہ یونیورسٹی میں امتحان دے رہا ہوتا اور ہاں اگر ان لوگوں میں تھوڑا بھی ضمیر باقی ہے جن کے ساتھ صغیر احمد نے چار لفظ سیکھے تھے اور وہ لوگ بھی جن کے لیئے بلوچ ہمہ وقت ہم قدم ہیں، وہ آکر سچ بولیں گے تمہارا ہاتھ تھامیں گے تمہارے ہم قدم ہونگے جس طرح ہم نے جلیلہ حیدر کو حوصلہ دیا، منظور پشتین کے کمپئین کے ساتھ رہے، وہ بھی آپ کے ہم آواز بنیں گے۔