شہدائے مئی جھاؤ – ظفر بلوچ

488

شہدائے مئی جھاؤ

ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

انسان جب بالغ ہوتے ہیں، تو اس دنیا میں زندہ رہنے کیلئے کچھ نا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن چند ایسے عظیم انسان بھی ہیں، جو بلوغت سے قبل ہی ایسی تمنا رکھتے ہیں اور تا حیات اسی تمنا کے پیچھے تگ ودو کرتے ہوئے تھکنے کا نام نہیں جانتےاور ہمیشہ اپنے ہی پختہ ارادوں اور تمنا کے ساتھ مگن رہتے ہیں۔ دنیا میں کچھ بھی ہورہا ہو لیکن وہ اپنے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مشغول ہوتے ہیں، حالانکہ بعض ایسی تمنائیں ہیں جو کہ صرف فردی نہیں بلکہ قومی تمنا اور مضبوط ارادوں میں شمار ہونگے۔

یہ ایک ایسے انسان کا پرعزم ارادہ اور تمنا ہے، جو صرف اور صرف بلوچ قومی آزادی کا تمنا رکھتے ہوئے کہتا تھا کہ ہمیں اپنے قوم کو ہرحال میں ظالم کے چنگل سے نکالنا چاہیئے، کیوں ہمارے قوم کوبزور طاقت مظلوم و محکوم بنایا جائے اور ہماری قوم کب تک ظلم کے نشانہ پر رہے، شایدہم دنیا کی تاریخ سے نابلد ہیں، ظالم نے کھبی مظلوم کو خوشی سے نہیں چھوڑا۔ ہماری قوم ایک ایسے جابر اور قابض ریاست کا غلام ہے، جو لفظ حق وانصاف سے نا واقف ہے، اگر اس ملک میں انصاف نامی کوئی شے موجود ہوتا تو شاید پاکستان کا پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قاتل سر عام نہیں پھیرتے، اس نام نہاد جمہوری ملک میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کا راج ہے۔

آج میں مقبوضہ بلوچستان کے پسماندہ علاقے جھاو کے ان ظلم وزیادتیوں کی داستان بیان کرنے کی جدو جہد کروں گا جو کہ 1973 ء یعنی جنرل ٹکا خان کی دور سے لیکر آج تک برپا کیئے گئے۔ سنہ 1973 میں بلوچ شورش کو کاونٹر کرنے کیلئے جھاؤ جیسے پسماندہ علاقے کو اپنا قیام گاہ بنایا گیا، دوسال تک پاکستانی آرمی نے بگاڑی، زیلگ اور کوّرک میں اپنا کیمپ قائم کیا اور اسی دوران جھاؤ، دومگ اور سورگرشش بھنٹی کے مقام پر اسلم گچکی اور منیرمینگل اور میر مہراللہ مینگل عطاءسمالانی محبت اور شہید نیٹو دیگر آزادی پسند جہد کاروں کے خلاف یہ آپریشن چلتا رہا۔ اسی دوران فورسز نے اپنی فرعونیت میں آتے ہوے جھاؤ کوّرک کے رہائشی آبو بلوچ کو گرفتار کرتے ہوئے کافی تشدد کے بعد رہا کردیا، آبو بلوچ فورسز کے تشدد کی وجہ سے چند دن بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ھوتے ہوگیا اور کوّرک کے قدیمی قبر ستان میں اپنے دیگر عزیز رشتہ داروں کے ساتھ آسودہ خاک ہیں۔ اس وقت میڈیا کی عدم رسائی کی وجہ سے ظلم کے داستان کبھی باہر نکل نا پائے، لیکن یہ آپریشن چلتے رہے، آخر کار فورسز نے مئی 1973ء عید الاضحٰی کے اعلی الصبح دومگ کے برزوبلند پہاڑ پر آپریشن کا آغا کرتے ہوئے بمبارمنٹ کی شروعات کردی، اسی دوران عطاء سمالانی سنت ابراھیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے قربانی کیلئے ایک دنبہ ذبح کررہے تھے کہ دشمن حملہ آوارہوا اور شہید عطاء اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے، جام شہادت نوش کرگئے، اسی آپریشن کے دوران بی بی سومری اور بی بی پیراڑی نے بھی شہادتیں قبول کئیں، جھاؤ کی ایک پرانی تاریخ ہے، قومی تحریک اورقومی آزادی کے حوالے سےجھاؤ وہ علاقہ ہے، جہاں شہید علی جان، شہید ناکو خیربخش بلوچی نامور شاعر آدم حقانی، میر غوث بخش بزنجو نے آنکھیں کھولیں۔

آج میں جس شہید کے نام چند الفاظ لکھنا چاہتا ہوں، اس کانام حکیم جان ہے، حکیم جان نے 1992ء جھاؤ بگاڑی زیلگ میں محمد ابراہیم کے گھر میں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے قریبی مڈل اسکول سے پاس کیا، جبکہ مزید تعلیم حاصل نہ کر سکے، جب حالیہ بلوچ تحریک نے بلوچستان بھر کی طرح جھاؤ میں قدم رکھا اور بی این ایم و بی ایس او آزاد کی قیادت وکیڈر نے جھاؤ جیسے پسماندہ علاقے میں جہد آزادی کا جدوجہد زور شور سے شروع کیا، تو شہید حکیم بلوچ دیگر بلوچ سیاسی ورکروں کے ساتھ کندھا بکندھا ہوکر بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کرگئے اور 2014 ء میں شہید لالہ منیر یونٹ بگاڑی زیلگ کے سیکریٹری منتخب ہوئے اور دن رات پارٹی کاموں میں مشغول ہوگئے۔

وہ ایک فرض شناس ورکر تھے،2015 ء میں باقاعدہ بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شمولیت کرتے ہوئے کئی محازوں پر دشمن کے خلاف جنگیں لڑیں، جب 8 اکتوبر 2015 کو نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بلوچستان بھر کیطرح جھاؤ میں ایک خونی آپریشن کا آغاز ہوا، تو اسی آپریشن کے بعد تا وقت شہادت گھر کا رخ نہیں کیا، آپ کے اس جرات نے دشمن کا جینا دو بھر کردیا، کسی کو یہ گمان تک نہ رہا کہ حکیم بلوچ اس عمر میں سنگلاخ پہاڑوں کو اپنا مسکن بنائے گا لیکن شہید نے دشمن کے ہر حیلے و مکر کا مقابلہ جوانمردی کے ساتھ کیا۔

20 مئی 2017 ءکے علی الصبح فوج نے 17 گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ایک خونی آپریشن کا آغاز کر دیا، یہ آپریشن تین دن تک جاری رہا، اس آپریشن کے دوران گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بمبارمنٹ سے کافی مال مویشی ہلاک ہوئے، دوران آپریشن سورگرکے رہائشی گزی ولد مندو اور نوربخش ولد وشدل کو سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کرتے ہوئے بذریعہ ہیلی کاپٹر آواران کے آرمی ہیڈ کوارٹر منتقل کر دیا جو ہنوز لاپتہ ہیں۔

اسی آپریشن میں شہید حکیم جان نے اپنے دیگر شہید ساتھیوں کے ساتھ، جن میں شہید سلیم جان، شہید داد جان اور شہید وسیم جان شامل ہیں کے ساتھ ملکر فورسز کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، یاد رہے! فورسز نے شہداء کے لاشوں کو بذریعہ ہیلی کاپٹروں کے آواران منتقل کردیا، جہاں شہداء کے عزیزوں کو اپنے پیاروں کی لاشوں کی حوالگی کیلئے کافی تگ ودو کرنا پڑا لیکن فورسز شہداء کے لاشوں کی حوالگی سے انکاری رہے، آخر ایک ہفتے بعد فورسز نے لاشوں کو آرمی کیمپ کے عقب میں بغیرغسل وکفن دفنایا دیا، آج شہید حکیم جان اپنے دیگر شہداء کے ساتھ اپنے سر زمین کے کوکھ میں محو خواب ہےـ.