سیاسی رویے اور بلوچ سیاسی ماحول – حکیم واڈیلہ

665

سیاسی رویے اور بلوچ سیاسی ماحول

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ: اردو کالم

انسانی زندگی میں کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کوئی بھی انسان بغیر کردار کے کسی بھی طرح سے سماجی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا۔ انسان کا کردار ہی اس کی پہچان ہوتا ہے، کردار ہی انسان کو ایک معمولی فرد سے غیر معمولی اور تاریخ ساز شخصیت بناتا ہے۔

دنیا میں شاید ہی کسی کو ایسا فرد یاد ہو، جس کا کردار زیرو ہو اور وہ رہتی دنیا تک مثال بنا ہو۔ لیکن باکردار لوگوں کی ہزاروں سال پرانی تاریخ بھی ہر باشعور انسان جانتا ہے اور اس کردار کی مثالیں اپنی باتوں یا تحریروں میں ضرور استعمال کرکے اپنی باتیں وزن دار اور بہتر بنانے کی نہ صرف کوشش کرتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ میں اس عظیم کردار کا ثانی بھی خود کو تصور کرنے لگتا ہے۔ جس کی مثال اس عظیم انسان کی باتوں اور مقصد کو اپنے طریقوں سے آگے بڑھانے اور ان باتوں میں جدیدیت لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ آج کی تاریخ میں شاہد ہی دنیا میں ایسی کوئی بات، ایسا کوئی عمل ایسی کوئی شئے وجود رکھتی ہو، جو آج سے پہلے کسی اور انسان نہ کی ہو نہ کہی ہو۔

انسان کے کردار کو سنوارنے اور بِگاڑنے میں سب سے اہم عنصر رویوں کا ہوتا ہے، کہ انسان دوسرے انسانوں سے کس طرح سے ملتا ہے، بات چیت کرتا ہے اور انہیں اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ اور یہی رویے ہی انسان کو عیسیٰ بھی بناتے ہیں اور یہی رویے ہی ہوتے ہیں جو انسان کو فرعون بنادیتی ہیں۔ رویے ہی وہ عنصر ہوتے ہیں، جو کسی کو امیرالمؤمنین تو کسی کو یزید بنادیتے ہیں۔

اب اگر بلوچ قومی سیاست میں رویوں کا ذکر کیا جائے، تو ہمیں کافی دلچسپ پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں، جو کہ کسی بھی نومولود سیاسی سماج کا حصہ ہوتی ہیں مگر چونکہ بلوچ قومی مزاج اپنی ایک الگ تاریخ اور حیثیت رکھتی ہے، جس کا مرکز عزت، احترام، برابری اور بلوچ قومی غیرت (یہاں غیرت سے مراد وہ نہیں جو صرف اپنے سے کمزور پر چڑھائی کیلئے استعمال کی جائے ) پر منحصر ہے۔ ہمارے سیاسی سماج میں جو دوری بداعتمادی یا ابھی تک سیاسی حوالے سے ایک متفقہ مرکز کے نا ہونے کا شکار ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یا کم از کم میری ادنیٰ سوچ کے مطابق سیاسی رویے ہیں۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو باریک بینی اور ایمانداری اور بغیر کسی مصلحت کے پرکھنے کی جستجو کریں، تو ہمیں ایسا کوئی مرکزی اختلاف نظر نہیں آتا، جس کی وجہ سے آج بھی ایماندار بلوچ سیاسی کارکن اور لیڈران کہیں نہ کہیں بے چینی اور بے باوری جیسے مرض میں مبتلا ہیں، ما سوائے ہمارے سیاسی رویوں کے۔

آپ ایک سیاسی کارکن کو پرکھنے کا پیمانہ کیا رکھتے اور اس کارکن کو کس زاویے سے دیکھتے اور اس کے عمل کو کس ترازو میں تول کر اس کارکن کے باتوں کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا ایک کارکن کو آپ ایک مِل مزدور کی حیثیت سے دیکھتے ہیں؟ جسے ہرصورت اپنے ڈیوٹی کے وقت کام پر پہنچ کر حاضری لگانی ہے اور خاموشی سے اپنے طے شدہ ٹارگٹ کو مکمل کرکے، واپس اپنے گھر کی طرف لوٹ کر اپنے ہفتہ وار یا ماہ وار تنخواہ کی خاطر نوکری کرنی ہوتی ہے۔ یا آپ اپنے سیاسی کارکن میں اپنا مستقبل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کل آپ نا رہیں، تو آپکی جگہ وہ سیاسی کارکن اپنی صلاحیتوں اور آپکی دی گئی تربیت کے بدولت ایمان دارانہ طور پر جدوجہد کو آگے بڑھا سکے اور آپکی خواہش آپکی منزل کو حاصل کرنے کا بہترین زریعہ بن سکے۔

اگر ہم اپنے سیاسی ماحول میں ایماندارانہ تنقید جوکہ واقعتاً ہماری اصلاح اور قومی مفاد میں ہو، کو صرف اس بنیاد پر نظر انداز کردیں کہ فلانہ جونیئر میں سینئر یا جس بات پر تنقید کی گئی، وہ حرف آخر ہے، تو ہم بجائے مزید ایماندار سیاسی کارکنان کو جنم دینے اور انہیں ابھر نے کا موقعہ دینے کے اپنی موجودہ حیثیت اور ساکھ کو بھی نقصان دے رہے ہیں۔

ایک سینئر سیاسی رہنماء کو چاہیئے، وہ ہر ایک معاملے کے تمام پہلووں کو پرکھے اور بعدازاں سنجیدگی سے ان معاملات کی تہہ تک پہنچنے اور سیاسی کارکنان سے ان کی رائے جاننے کے بعد ہی ایک فیصلہ کرنے اور ان معاملات کو بغیر کسی پسند نا پسند کے حل کرنے کوشش کریں۔ بلوچ قومی سیاست سے منسلک تقریباً تمامتر سیاسی کارکنان کی خواہش اور امید انہی لوگوں سے وابستہ ہے، جو اپنے آپ میں منفرد رویوں کے مالک اور بالغ النظر سیاسی اپروچ رکھتے ہیں اور کارکنان کی باتوں کو سن کر ان پر ان کی رائے جان کر اور اگر وہ رائے صحیح ہو یا غلط اس رائے پر ایمان دارانہ اور شائستہ طریقے سے اپنے کارکنان کی راہنمائی کرکے، اگر وہ غلط ہیں انہیں صحیح راستہ دکھاتے ہیں اور ان کی رائے درست ہو تو اس رائے پر نہ صرف اس کارکن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ اس بہترین رائے کو بروئے کار لاکر بہتر مستقبل کی خاطر مشترکہ طور پر جدوجہد کرتے ہوئے کارکنان کا حوصلہ بلند کرکے، انہیں کندن بناکر کسی بھی سخت، کٹھن اور خاردار راستے پر بغیر ہچکچاہٹ کے چلنے والا کردار بناتے ہیں جوکہ ایک بہترین سیاسی رویے کی بدولت ہی ممکن ہوسکتا ہے۔