ستائیس مارچ اور غیر سنجیدہ گروہی سیاست – قاضی بلوچ سابقہ ممبر بی آر پی کراچی

254

ستائیس مارچ اور غیر سنجیدہ گروہی سیاست

تحریر:قاضی بلوچ سابقہ ممبر بی آر پی کراچی

(دی بلوچستان پوسٹ کالم)

‏‎گذشتہ دنوں بی آر پی کراچی زون کے نام سے منسوب ایک بیان سوشل میڈیا میں شائع ہوا، جس میں پارٹی صدر نواب براھمدغ بگٹی کے ستائیس مارچ حوالے متنازعہ بیان پر ( جس پر پارٹی کے ساتھیوں نے پارٹی صدر سے اس بیان بابت وضاحت طلب کی تھی اور ایک ڈرافٹ کی شکل میں اپنے تحفظات پارٹی صدر اور مرکزی ترجمان اور پارٹی کے آفیشل ایمیل ایڈریس پر سینڈ کیئے تھے، جس پر ڈسپلن اور آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگاکر حکیم بلوچ کی بنیادی رکنیت ختم کردی گئی تھی) تحفظات کا اظہار کرنے والے پارٹی کے کراچی، بلوچستان، خلیج اور یورپی ممالک کے درجنوں ساتھیوں نے اس سنگین قومی مسئلے پر سیاسی طریقے سے سوال کرنے کی کوشش کی لیکن پارٹی کے مرکز اور صدر کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی جواب نہ ملنے کے بعد مجبوراً پارٹی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا گیا، ان کارکنان اور بلوچستان کی آزادی کی کاروان سے وابسطہ ساتھیوں پر بی آر پی کراچی کا نام استعمال کرکے ریاستی ایجنٹ کا الزام لگاکر اپنی تاریخی غلطی کو چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔

ہم تمام تنظیمی دوست جب سے بلوچ آزادی کی تحریک سے وابسطہ ہوئے، تب سے ستائیس مارچ کو یوم سیاہ، یوم قبضہ بلوچستان کے طور پر مناتے آرہے تھے اور جب اچانک سے پارٹی صدر کی ۲۷ مارچ کے حوالے سے یہ متضاد بیان سامنے آیا تو دوست حیرت میں مبتلا ہوگئے کہ جب حالات سازگار تھے، تو ہر سال ۲۷ مارچ کو پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، جلسے اور سیمینارز کیئے جاتے تھے، اس دن کے مناسبت سے بلوچستان سمیت کراچی کے مختلف بلوچ علاقوں میں وال چاکنگ کی جاتی تھی، پمفلٹ اور پوسٹر شائع کیئے جاتے تھے اور بی این ایف کے پلیٹ فارم سے کافی بڑا مظاہرہ بھی کراچی پریس کلب کے سامنے ہوا کرتا تھا، جس میں بی آر پی کے ساتھی بھی شرکت کیا کرتے تھے۔

جس دن کراچی زون کے نام سے منسوب یہ بیان جاری ہوا تھا کہ جو بھی نواب براھمدغ خان بگٹی پر تنقید کرے یا ان سے کوئی سوال کرے یا کسی بھی بات کی وضاحت طلب کرے تو وہ ریاستی ایجنٹ، ریاستی مہرہ ، غدار اور تحریک دشمن ہے۔ راقم نے اسی دن بی آر پی کراچی کے سینئر اور مخلص دوستوں سے رابطہ کرکے طنزیہ کہا کہ بھائی جان آپ لوگوں نے اپنی میٹنگ میں ہمارے دوستوں کو ریاستی آلہ کار اور غدار قرار دیا ہے، تو اس دوست نے کہا کہ کونسا میٹنگ اور کیسا میٹنگ ہمارے زون کا تو کوئی میٹنگ نہیں ہوا اور اگر کسی نے اپنے طورپر کرلیا ہے، تو ہمارے علم میں نہیں۔ اس دوست نے مزید کہا کہ آپ تو جانتے ہو، حالات کیسے ہیں اکثر دوست ایک دوسرے کے رابطے میں نہیں ہیں۔ کبھی کبھار کچھ دوست ملتے ہیں، تو کچھ حال احوال ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہورہا ۔ ان باتوں کو سن کر احساس ہوا کہ یہ بیان کراچی نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ یا لندن سے شائع کیا گیا ہے تاکہ براھمدغ صاحب کو خوش کیا جاسکے۔

اب آتے ہیں ۲۷ مارچ کے حوالے سے دیئے گئے نواب براھمدغ کے بیان پر جس پر بی آر پی میں موجود نواب صاحب کے قبیلے اور چند مفاد پرستوں کے حمایت کے پارٹی اور پارٹی سے باہر تمام بلوچ سیاسی کارکنان لیڈران تنظیموں اور دانشوروں کو تحفظات تھے اور اس بیان کے ردعمل میں میر محمد علی ٹالپر صاحب، صورت خان مری، واجہ استاد واحد قمبر، چیئرمین سنگت خلیل بلوچ، سنگت رحیم ایڈوکیٹ، واجہ میجر مجید سمیت کافی رہنماوں ، کالم نگاروں دانشوروں نے حقائق کی بنیاد پر اس مسئلے پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ نواب براھمدغ بگٹی کو ۲۷ مارچ کی اہمیت اور تاریخی حیثیت سے روشناس کرانے کی کوشش بھی کی کہ تاریخی حقائق اس طرح سے نہیں ہیں، جس طرح آپ انہیں بیان کررہے ہو۔ لیکن براھمدغ بگٹی صاحب چونکہ نواب ہیں تو وہ کہاں کسی کی بات کو سننے اور ماننے کو تیار ہوتے۔

بحیثیت بی آر پی کے کارکن ہم پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں کو مطمئین کرسکیں، تو ہم دوستوں نے اس بنا پر ریپبلکن کمیٹی کے نام سے ایک عبوری کمیٹی تشکیل دی تاکہ ہم تنظیم کے اندر رہ کر جائز طریقے سے اس آئینی اور قومی بحران بابت پارٹی قائد کو آگاہ کرسکیں اور ان سے اس سنگین بحران سے پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب طلب کرسکیں جوکہ سیاسی کارکنان کا جائز اور بنیادی حق ہوتا ہے۔ ہم پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے ممبر تو نہیں جہاں آنکھ بند کرکے پارٹی صدر کے غلط فیصلے پر خاموش رہیں کیونکہ سچ بولنے اور سوال کر نے پر ہمیں پارٹی سے فارغ کردیا جائےگا۔ ہم بلوچ قومی تحریک کے کارکنان ہیں، جس طرح نواب براھمدغ بگٹی کی قربانیاں ہیں، اسی طرح باقی دوستوں کی قربانیاں اس تحریک میں شامل ہیں۔ ہم گذشتہ چودہ سالوں سے ایک ادنیٰ تحریکی کارکن کی حیثیت سے بلوچ آزادی کی جدوجہد کے کاروان کا حصہ ہیں جب ہم شھید غلام کے ساتھ تھے، تو دیکھا کہ بہت سے دوست شہید پر تنقید کرتے، انکی کچھ پالیسیوں پر سوال اٹھاتے تھے حالانکہ ان میں دیگر تنظیموں کے ساتھی بھی ہوتے تھے لیکن واجہ ہمیشہ بردباری اور تحمل سے ان سوالوں کا جواب دیتے اور کسی بھی ساتھی پر ناراض نہیں ہوتے اور نا ہی کسی ممبر کو پارٹی سے نکالتے۔ چیئرمین خلیل اور شہید ڈاکٹر منان پر تنقید ہوتا تو کچھ دوست تو جذباتی ہوکر نازیبہ طریقے سے تنقید کرتے تھے لیکن وہ مسکراتے ہوئے حوصلے سے اپنے کارکنان کا جواب دیتے اور ان پر غصہ یا ناراضگی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔

مگر افسوس بی آر پی جو ایک انقلابی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یہاں جائز طریقے سے سوال کرنے پر بہت سے درباری ناراض ہیں۔ یہ سوال صرف ایک شخص سنگت حکیم بلوچ کے نہیں تھے، جو پارٹی صدر سے کیئے گئے تھے، اس پر کچھ درباریوں نے اپنی چھریاں حکیم بلوچ پر تیز کرنا شروع کردیئے، یہ سوال ان تمام ایماندار سیاسی ساتھیوں کے تھے، جن کی سیاسی تربیت بی آر پی کے پلیٹ فارم سے جام شہادت نوش کرنے والے شہید سنگت ثناء، شہید شیر محمد، شہید جلیل ریکی، شہید احمد داد، شہید استاد عبدالرحمان عارف جیسے سیاسی رہنماوں کے زیر سایہ ہوئی ہے۔ نواب براھمدغ بگٹی صاحب آپ تو سیاسی سوالوں کا سیاسی حوالے سے جواب نہ دے سکے لیکن تاریخ خود فیصلہ کریگی کے ان تمام تر معاملات میں کون حق کی آواز بلند کررہا تھا اور کون طاقت کے نشے میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا تھا۔