جہد و ہمت کا نام قادر مری عرف لاغری – کامریڈ سنگت بولانی

301

جہد و ہمت کا نام قادر مری عرف لاغری

تحریر: کامریڈ سنگت بولانی

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

بلوچ جہدءآجوئی کا حصہ بن کر اس قبضہ گیر ریاست کے خلاف جہدِ مسلسل میں بہت سے جہد کاروں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان جہد کاروں میں سے اپنی دھرتی پر قربان ہونے والوں کے بارے میں لکھتے وقت ہمیشہ میرا قلم ڈگمانے لگتا ہے کہ ان کے عظیم کردار کو بیان کرنے میں کہیں کوئی کمی نہ ہو، میں بارہا یہی کوشش کرتا ہوں کہ روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر ان حقائق کو قلمبند کرسکوں جو اس عظیم جہد کار کی جدوجہد کی منظر کشی کرسکیں۔

قادر مری عرف لاغری سے میری ملاقات اپریل 2017 میں ہوئی، جب قادر کسی ضروری کام کے سلسلے میں اپنے کچھ ساتھیوں سمیت کاہان سے بولان آئے۔ میں نے قادر میں ایک ایسا شخص پایا جس کے اندر وطن کی محبت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی، وہ ایک سادہ انسان تھا، درویش صفت اور اپنے کام میں ایک مخلص و ایماندار انسان لیکن اپنے دشمن کے بارے میں معلومات اور اسے کمزور کرنے کے لیئے مکمل دسترس رکھتا تھا۔

پہلے پانچ روز ہماری بات چیت نہیں ہو سکی، اسکی وجہ پہلی بار کا آمنا سامنا تھا۔ شہید محترم نے متعدد بار سنگت قادر مری کی تعریف کی انہوں نے کہا کہ کاہان میں اس کی مستقل مزاجی اور مخلصی ہم نے اپنے آنکھوں سے دیکھا، ہر کام میں ہم نے اسے آگے پایا۔

ایک دن میں کپڑے دھونے اور نہانے چلا گیا، تو سنگت قادر بھی وہیں پہنچا
کامریڈ جرشودگے و تڑکننگے تیاری کنہ گے؟
(کامریڈ کپڑے دھونے و نہانے کی تیاری کر رہے ہو؟)
سنگت قادر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
جی آو سنگت دو ہفتے بیتہ تڑ نہ کوتوں لیغارے وجہ آ چے باخڑ بیگے۔
(جی ہاں سنگت دو ہفتے ہوگئے نہیں نہایا میل کی وجہ سے جسم میں خارش ہو رہی ہے)
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
گوڑا تاوتڑ کاں ماتئی جرے شودہ۔
(پھر آپ نہائیں، میں آپ کے کپڑے دھوتا ہوں)
سنگت نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نہ سنگت ما وتی جراں وت شودہ، تاو بیا نند بٹ و مجلسے کاں چیے وتی بارہا ڈس وتی علاقہ ء باراہا پیرہ دیے۔ چونے مخلوق چے گوشہ گنت بلوچ تحریکے بارہا۔
(نہیں سنگت میں اپنے کپڑے خود دھونگا، آپ بیٹھو مجلس کرو اپنے بارے میں بتاؤ اپنے علاقے کے بارے میں بتاو، آپ کے علاقائی مخلوق بلوچ تحریک کے بارے میں کیا کہتے ہیں کیا سوچتے ہیں۔)
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
ادا یو بے اے والی مسلہ چے بعد علاقہ ء مخلوق تحریک آ چے دیر بیگنت او دومی ٹونک ایش انت کہ سنگت سنبھالگ نہ بیگنت ہر چیز مئے دیما ساہرا ء کہ چے راستے چے دروگے باقی ما وتی پندے جنگاوں۔
(ادا یو بی اے والے مسئلے کے بعد علاقائی مخلوق تحریک سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ سنگتوں کو سنھبالا نہیں جارہا تمام حقائق ہمارے سامنے ہیں کہ کیا سچ ہے کیا جھوٹ، باقی میں اپنا فرض نبھا رہا ہوں۔
سنگت نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
سنگت تہ وتارا مضبوط کاں او وتی ہمے قومی سوچاں گوں اوار نوکیں سنگت ٹاہین وتی پندا مخلصی آ گوں جاں باقی وخت آ بلے ہر شئے جوانی آ گوں وت برابر بی۔
(سنگت آپ اپنے آپ کو مضبوط کرو اور اپنے اسی قومی سوچ کے ساتھ نئے دوست بناو انہیں شعور دو اپنے جدوجہد کو اسی طرح مخلصی کے ساتھ آگے لے جاو ۔ باقی حالات کو آنے والے وقت پہ چھوڑ دو سب کچھ برابر ہوگا۔)
میں نے نہانے کے لئیے پانی نکالتے ہوئے جواب دیا۔

ایک ہفتے بعد گوریلہ حکمت عملی کے تحت ہم نے اپنی جگہ تبدیل کرکے ایک نئے جگہ کی طرف نکل پڑے، سنگت قادر بھی ہمارے ساتھ تھا۔ اب ہم ایک ندی میں پہنچے اور وہی پر کچھ دنوں کے لیئے پڑاو ڈالا، شام کے وقت پانی کے قریب ہم کبڈی کھیلا کرتے تھے۔ قادو کو ہم کبڈی کا پہلوان کہہ کر پکارتے کیونکہ وہ جسامت کے اعتبار سے تندرست و توانا تھا۔

جب بھی ساتھ بیٹھنے کا موقع ملتا، وہ مجھے کاہان آنے کی دعوت دیتا اور کہتا کہ ایک چکر لازمی آنا، میں ہنس کر اسے ہاں کہتا۔ کچھ دنوں کے بعد قادو اپنے ساتھیوں سمیت واپس کاہان کی طرف لوٹ گیا، یہ وعدہ کرکے کہ میں ایک بار واپس بولان آونگا۔

کچھ دنوں پہلے فون پہ آنا ہوا، تو سنگت کی تصویر کو دیکھا اور ساتھ میں خبر گردش کررہا تھا کہ کاہان و گردو نواح کے خونی آپریشن میں سنگت قادر مری عرف لاغری شہید ہوچکے ہیں۔ ایک دم سے وہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے سے گذرے جو سنگت نے ہمارے ساتھ گذارے تھے، ایک عظیم سنگت کی جسمانی جدائی کی تکلیف نے بہت درد دیا آدھے گھنٹے کا سکتہ جیسے طاری ہوگیا، لیکن یہ قومی جنگ ہے. ہماری قومی بقا کی جنگ ہے. اس آگ کو زندہ رکھنے کے لیئے قادر و محترم جیسے نوجوانوں کے خون سے ایندھن فراہم کرنا ہوگا۔ اس جنگ کو ہر ممکن زندہ رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی، تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک روشن مستقبل دے سکیں ایک آزاد سماج دے سکیں۔

کسی بھی فن کے ماہر کو موت آ سکتی ہے اور جنگ جیسے خطرناک فن کا ماہر اپنی زندگی کندھوں پر اٹھائے چل پڑتا ہے. انسان کی حیثیت ثانوی ہے اصل حیثیت اُس کے مقصد کی ہوتی جس کی رو سے انسان کو شکست بھی ہو لیکن اسکا مقصد زندہ رہتا ہے. اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے یہ نوجوان سر بکفن اپنے وطن کی چاہ میں نکلے ہیں. اپنے پیاروں سے دور اپنے بچپن کے دوستوں سے دور اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔

کون ہیں یہ لوگ جو اپنے پیارے دوستوں کو، جو اپنے عزیزوں دوستوں گھر والوں سے بھی زیادہ ان کے قریب تھے زندگی اور موت کے کشمکش میں ان کے ساتھ تھے، پھر اسی زندہ رہنے کی کشمکش میں مارے جاتے ہیں، یہی انہیں سپرد گلزمین کرکے پھر سے زندگی کی شروعات کرتے ہیں۔ کیسے یہ لوگ ہیں، جو اپنے بوجھ کے ساتھ ساتھ شھید ہونے والے دوست کی زمہ داریوں کو بھی اپنے کندھے پر لیتے ہیں۔

یہ شعوری طور پر وطن پر مر مٹنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں، انہیں بخوبی علم ہے کہ آزادی سے بڑی کوئی نعمت نہیں اور غلامی سے بڑی لعنت نہیں. یہ وطن زادے ہیں یہ اسی کی محبت کو جانتے ہیں. اسی محبت و چاہ میں ہم سے جدا ہوتے ہیں ان کی تعلیمات ان کی یادیں ان کی مہر و وفا انہیں ہمارے دلوں میں زندہ رکھتا ہے، وہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں. وہ ہماری ہر محفل کچاری میں قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں. وہ دشمن پر برسنے والی ہر گولی پر پاس کھڑے ہمیں داد دیتے ہیں. ان کی یہی ادا ہمیں حوصلہ عطاء کرتی ہے.

وہ سورما کہیں نہیں گئے بلکہ اپنے وطن کی آغوش میں آسودہ خاک ہو گئے. اسی خاک میں گھل مل گئے. اسی وطن کی فضا میں تحلیل ہو کر ہر سو خوشبو بکھیر رہے ہیں.