جھاؤ پر ایک طائرانہ نظر – ظفر بلوچ

399

جھاؤ پر ایک طائرانہ نظر

تحریر: ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

جھاؤ ضلعِ آواران کا تیسرا بڑا تحصیل ہے، جو کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے پچاس کلومیٹرکے فاصلے پر مشرق کی جانب واقع ہے، تحصیل جھاؤ کے مشرق میں ڈسٹرکٹ لسبیلہ اور جنوب میں ہنگول نانی مندر جب کے شمال میں تحصیل نال و گریشہ ہیں ـ جھاؤ کو کئی اعزازات حاصل ہیں، جھاؤ دو بڑے اور خوبصورت بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں بڑے بڑے گاؤں و سر سبز و شاداب کھیتوں کے ساتھ شمال میں کوہِ دومگ اور جنوب میں کوہِ درون و رودینی کچہ ہیں، یہ وہ تفریح گاہ ہیں، جہاں ہر سال متحدہ عرب عمارات سے عرب شیوخ ہرن اور تلور کے شکار کیلئے آتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں ـ

انہی خوبصورت و بلند و بالا پہاڑوں کے چند کلو میٹر کے فاصلے پر دو حقیقی عاشقاں کی مزار جھاؤ لکھ پر واقع ہیں، لوگ ان دونوں عاشقاں کو شیریں و فرہاد کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔ لوگ ملک بھر سے یہاں کے پہاڑی دامن میں واقع شیریں فرہاد کے مزار پر حاضری دیکر اپنے تمنائوں کیلئے خالق حقیقی کے درد واران کی روحِ روشنی میں نیک تمناؤں کے پورا ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں ـ یہ پُر نور مزارات جھاؤ ٹو آواران کے مین روڈ پر قائم ہیں، ہر وقت دور دور کے عقیدت مندوں کی بڑی قطاریں کھڑی یہاں کھڑی رہتی ہیں، یہ وہ گذرگاہ ہے بقول انور ساجدی کے کہ انگریز الیگزنڈر نے اسی رستے سے سفر کرتے ہوئے اپنے منزل تک پہنچےـ

میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں، انگریز کے تعمیر کردہ چند کوارٹرز اور ایک بڑی چار دیواری ہنوز تحصیل منتظم کے زیر استعمال ہیں لیکن اس دورِ جدید کے تمام انسانی سہولتوں سے جھاؤ کے عوام یکسرِ محروم ہیں، ان محرومیوں کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ یعنی قیامِ پاکستان کے پندرہ سال کے بعد اسی جھاؤ کے باشندوں نے پاکستان کے دیگر سیاست دانوں کے ساتھ سیاست کا آغاز کردیا، سنہ 1978 سے لیکر آج تک بلوچستان اسمبلی کے مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے قائد ایوان تک جا پہنچے حالانکہ بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ عبدلقدوس بزنجو کا تعلق اسی پسماندہ علاقہ جھاؤ سے ہے، موصوف کی جاہِ پیدائش جھاؤ ہےـ لیکن اسکے باوجود جھاؤ کے لوگوں کی تقدیر نہیں بدلی ہےـ

جھاؤ کی آبادی گو کہ منتشر ہے، لیکن لاکھوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگوں کی زریعہ معاش زمینداری پر منحصر ہے، لوگ اپنی مدد آپ، اپنے زرخیز زمینوں کو آباد کررہے ہیں۔ اکثر زمیداری بارانی بارش کے ساتھ بندھا ہوا ہے لیکن کئی سالوں سے خشک سالی کے باعث اکثر زمیندار نانِ شبینہ کے متحاج ہیں ـ

یہاں کے باسی تعلیم، صحت، بجلی و دیگر بنیادی سہولتوں سے ہمہ وقت محروم ہیں، حالانکہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم جام غلام قادر عالیانی سے لیکر موجودہ وزیر اعلیٰ تک کسی نے آج تک جھاؤ کے درج بالا محرومیوں کا ازالہ تو کجا مزید پسماندگی میں دھکیل دیاـ

1 تعلیم: قوموں کی ترقی کا بنیادی راز ہے جس چیز میں پوشیدہ ہے، اسکا نام تعلیم ہے، یہ تعلیم کا برکت ہے کہ لوگ چاند تک سفر کررہے ہیں، جھاؤ میں اس اقت چھ ہائی سکول، سات مڈل اسکولز برائے نام کے قائم ہیں، لیکن درجہِ بالا ادروں کی بلڈنگز کھنڈرات ہیں، وزیر اعلیٰ بلوچستان کا آبائی علاقہ شندی میں ایک امتحانی سنٹر حال گذشتہ دس سال سے زیرِ تعمیر ہے لیکن پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے، ان درجہِ بالا اکثر اسکولوں میں فورسسز نے اپنا قیام گاہ بناکر انہیں بڑے بڑے کیمپوں اور فوجی بیرکوں میں تبدیل کردیا ہےـ

اسکولوں میں کتاب و قلم کے نمائش کے بجائے، جدید دور کے نئے نئے ہتھیار رونق کے ساتھ سجے ہوئے ہیں، اسکولوں میں اساتذہ کی جگہ فوجی جوان خاکی وردیوں کے ساتھ زیب تن، ہمہ وقت کھڑے ہیں ـ یہاں کے طلبہ اپنی علم کی پیاس بجھانے کیلئے سرگرداں ہیں اور مقبوضہ بلوچستان کے مختلف شہروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں، بہت سے تعلیمی اداروں میں فورسسز جبری طورپر بچوں کو فوجی تربیت دے رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی مذہبی جنونیت کی جانب مائل کررہے ہیں۔

2 صحت: تحصیل جھاؤ میں برائے نام کا ایک رورل ہیلتھ سنٹر قائم ہے لیکن عملہ روزِ اؤل سے غائب ہے، اتنا بڑا ادارہ ایک ڈرائیور اور ایک چپڑاسی کی ایماء پر چل رہا ہے، ادارے کی واضح مثال گذشتہ دنوں جھاؤ کے پہاڑی دامن میں واقع ٹڑانچ کے حالیہ گیسٹرو وبا کی ہے، جہاں آٹھ افراد چل بسے، جن کے نام درج ذیل ہیں۔

بی بی ھوری زوجہِ گل داد، مریم زوجہِ احمد َ بی بی سومری زوجہِ عبدلرحمانَ گنج بخش ولد اسماعیل، جاڑو ولد بدل، شہربانو بنتِ قاسم اور دیگرمیں ایک بھوڑی خاتون گیسٹرو وبا کی وجہ سے گذشتہ روز چل بسے۔ 60 افراد جام غلام قادر ہسپتال حب چوکی میں زیرِ علاج ہیں، جن کی طبعیت دگر گوں ہے لیکن اس ادارے کا عملہ صرف دو ویکسینیٹر اور ایک ڈسپنسر نے ریسکیو میں برائے نام شرکت کی جن کے نام درج ذیل ہیں۔

محمد عارف ولد اللہ بخش وکسینیٹر، محمد انور ویکسینیٹر، محمد نہیم ولد ملا کریم جان ڈسپینسر ہے حالانکہ رورل ہیلتھ سینٹر کے چار میڈیکل آفیسر ہیں، کل عملے کی تعداد 60 ہیں لیکن ایک میڈیکل آفیسر بھی اپنے فرائضِ منصبی پر موجود نہیں تھا حالانکہ ڈاکٹر قوم کے خادم ہیں لیکن اس وقت عیش و عشرت کی زندگیاں لاہور و کراچی میں گذار رہے ہیں، لوگ علاج نہ ہونے کی وجہ سے مررہے ہیں، چار بی ایچ یو قائم ہیں، جو کہ گذشتہ کئی سالوں سے میڈیکل پوسٹ ویکینٹ ہیں، جو ماہانہ میڈیسن کوٹہ پندرہ سے بیس ہزار ہیں۔

درجہ بالا بیسک ہیلتھ یونٹ میں سے ایک کی وضاحت کرتا ہوں، جس کی کل پاپولیشن 35 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جس کی ماہانہ میڈیسن کوٹہ پندرہ ہزار ہے، یہ بیسک ہیلتھ یونٹ بگاڑی زیلگ ہے اور چار سیول ڈسپنسری ہیں جو کہ عملے سے محروم ہیں۔

3 پانی: یہاں کے اکثر علاقوں کے لوگ بارشوں پر زندہ ہیں، جوہڑوں اور تالابوں کا پانی پیتے ہوئے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، جوہڑوں اور تالابوں کا پانی پینے کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہیں۔ اس دورِ جدید میں جھاؤ کی حالتِ زار دگرگوں ہے، کون ہے خدا ترس جو اس ظلم و زیادیاتی کا نوٹس لےـ