بی آر ایس او کے متعدد ممبران و عہدیداروں نے تنظیم سے استعفی دے دیا

346

بی آر ایس او کی مرکزی کابینہ اور کمیٹی سے منسلک چند ممبران نے ساتھیوں سمیت بی آر ایس او سے لاتعلقی کا اعلان کردیا.
انہوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ 27 مارچ یومِ قبضہ بلوچستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن ہے جو آزاد بلوچستان کے بعد بھی یومِ سیاہ کے طور پر یاد کیا جائے گا.
بی آر پی کے مرکزی صدر براہمدگ بگٹی کا 27 مارچ حوالے ٹویٹ جس میں 27 مارچ یومِ قبضہ کو رد کیا گیا اور جس کی حمایت بی آر ایس او کے چیئرمین نے بی آر ایس او کے مرکزی دوستوں کے صلاح و مشورے کے بغیر کیا جو کہ بلوچستان کے تاریخ کو رد کرنے کے مترادف ہے، 27 مارچ یومِ قبضہ جو کہ حقائق پر مبنی ہے جسے بلوچ دانشور، لیڈرز و شہداء واضح کر چکے ہیں جس سے دوسرے آزادی پسند پارٹیز و قوم اچھی طرح واقف ہے، 27 مارچ کو رد کرنا زاتی یا کہ گروہی فیصلہ تھا جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں.
27 مارچ کے فیصلے کو اس طرح لیا گیا جیسے پارٹی کا کوئی اندرونی معاملہ ہو نہ کہ بلوچستان کے تاریخ سے جڑا کوئی معاملہ بجائے دلیل و ثبوت پیش کرنے کے مکمل خاموشی اختیار کی گئی.
بی آر پی کے اپنے مرکزی کارکنان اس فیصلے سے واقف نہیں تھے جس کی مثال ٹویٹ سے پہلے بی آر پی کے مرکزی دوستوں کا 27 مارچ کے خلاف احتجاج ریکارڈ میں موجود ہے، اس حوالے سے بی آر پی کے رہنماؤں نے جن کی اکثریت بی آر پی کے بنیادی و سینئر کارکنان کی ہے اپنے صدر سے بیان واپس لینے کی التجا کی گئی جس پر آئین کو ڈھال بنا کر کارکنان کی بنیادی رکنیت ہی ختم کردی گئی اور کراچی زون کے نام سے بیان جاری کر کے کارکنان کو ریاستی مہرہ قرار دیا گیا جو کہ غیر سیاسی عمل ہے.
بی آر ایس او کے مرکزی کابینہ کے عہدیداروں، روزین بلوچ (سیکریٹری جنرل) کبیر بلوچ (ڈپٹی سیکریٹری جنرل) شے مرید (سی سی ممبر) نے ساتھیوں سمیت بی آر ایس او کے چیئرمین سے بذریعہ ڈرافٹ (جس کی کاپی بی آر پی کے صدر کو بھی ارسال کی گئی جس کا جواب آج تک نہیں دیا گیا) یہ درخواست کی کہ بی آر پی کے صدر کے زاتی فیصلے سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے جو کہ ایک ماہ کا وقت گزرنے کے باوجود نہیں کیا گیا.
ہم نے اپنے ساتھیوں سے صلاح و مشورے کے بعد اپنے استعفے بی آر ایس او کے چیئرمین کو بھیج دئیے ہیں لہذا آج کے بعد ہم بی آر ایس او کا حصہ نہیں ہیں.