بلوچستان پر ایٹمی تجربہ اور پیدا شدہ مسائل – عبدالواجد بلوچ

670

بلوچستان پر ایٹمی تجربہ اور پیدا شدہ مسائل

تحریر : عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

بلاشبہ ایٹم بم دورحاضر کی تباہ کن ایجاد ہے، دنیا اس عملی تباہ کاریوں کا مشاہدہ دوسری جنگ عظیم میں کرچکی ہے، جب امریکہ نے6اگست 1945کو جاپان کے شہر ہیرو شیما اور 9 اگست کوناگاساکی پر ایٹم بم برسائے تھے۔ تباہی اور بربادی کی اس المناک داستان کو آج 80سال ہو چلے ہیں۔ گویا ہیرو شیما اور ناگاساکی پر برسائے جانے والے بم 80سال پرانے تھے فی زمانہ تیار ہونے والے ایٹم بم تباہی اور ہلاکت خیزی میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے بموں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہیں۔

کتنا فرق ہے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر خطوں کے مابین، پاکستان کے دیگر صوبوں میں اٹھائیس مئی 1998 کو یوم تشکر یا یوم تکبیر کے طور پر منایا جاتاہے لیکن بلوچستان میں گذشتہ بیس سالوں سے بلوچ قوم کے لئے یہ دن یوم سیاہ اور یوم مذمت کے طور یاد رکھا جاتا ہے. پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد سے بلوچوں کے خلاف زور آزمائی شروع کررکھی ہے. بلوچستان کو ایٹمی دھماکوں کے لئے چننا یقیناً دو امور کی جانب اشارہ کرتا ہے، ایک اس خطے کو متاثر کرنا، جہاں ایٹمی دھماکے ٹیسٹ کئے گئے، دوسرا ہمسایہ حریف ممالک افغانستان اور ہندوستان پر اپنا رعب جمائے رکھنا.

پاکستان نے بلوچ سر زمین پر ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف اس کے سر سبز پہاڑ کوجلادیا بلکہ علاقے میں انسانوں اور جانوروں پر تابکاری کے اثرات کا مہر ثبت کردیا۔ جوہری تجربات کے بعد سے چاغی میں خشک سالی کے ساتھ ساتھ پانی بھی ناپید ہوگیا ہے اور وہاں کے باشندے ہنوز مختلف بیماریوں کے شکار ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔

یاد رہے دھماکوں کے فوری بعد اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے نوشکی کو گیس دینے اور چاغی کو بجلی کی فراہمی کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اتنے سال گذرنے کے باوجود نوشکی اور چاغی کے لوگ گیس، تعلیم اور صحت کے سہولتوں سے محروم ہیں. روز مرہ زندگی کی سہولیات اپنی جگہ لیکن افسوس و کرب کی بات یہ ہے کہ وہاں کے باشندوں کو ان تابکاریوں سے پیدا شدہ بیماریوں کا مناسب علاج معالجے کی سہولیات تک مہیا نہیں ہیں. ایٹمی حملوں کے بعد شدید ترین خطرہ جو انسانوں کو لاحق ہوتا ہے وہ تابکاری کا ہے۔ جب ایٹمی دھماکہ ہوتا ہے تو اس میں جو گردو غبار شامل ہوتاہے، وہ شدید طور پر تابکار ہوجاتا ہے۔ یہ تابکار گردو غبارپھیپڑوں میں پہنچ جائے، تو انسان کے اعضاء ٹوٹ پھوٹ جاتے، مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے اور اس مہلک بیماری کے اثرات نسل در نسل چلتے ہیں.

آج بلوچستان کے علاقے چاغی میں واقعتاً یہ سلسلہ نسل در نسل پھیلتا جارہا ہے اور اس کے سدباب کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر جب امریکہ نے بم برسائے تو اس کے ساتھ ہی ایٹمی حملے کی تباہ کاریوں سے بچاؤ پر کام شروع ہوگیاتھا.اس موضوع پر سائنسدانوں نے اب تک جو کام کیا اس سے یہ نتائج نکلے ہیں کہ اگر ایٹمی حملے سے بچاؤ کے لیئے مناسب حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں تو تقریباً دو تہائی حد تک نقصان سے بچاجاسکتا ہے اور جاپان پر گرائی گئی خطرناک ایٹمی بموں کے بعد وہاں بڑی حد تک اب تابکاریوں کے اثرات ختم ہوچکی ہیں۔

پاکستانی ریاست کی پالیسیاں اور بلوچ قوم کا استحصال گذشتہ ستر سالوں سے اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے، لیکن 28 مئی کا دن پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیئے تو ایک اہم دن ہے لیکن بلوچستان میں یہ دن عوام کے دلوں میں حکومت کی استحصالی پالیسیوں‘ کی یاد تازہ کرتا ہے.جب دنیا جدیدیت کی جانب سفر کرتا ہے، تو لوگ آسودگی و آرام کی طرف بڑھنا شروع کرتے ہیں لیکن بلوچستان کو لیکر پاکستان کے اعمال عجیب نقشہ پیش کرتے ہیں۔ اٹھائیس مئی 1998ء کے روز پاکستان نے بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کا ساتویں جوہری طاقت تو بن گیا لیکن بلوچ قوم کو خطرناک دلدل میں دھکیل کر اسے نا ختم ہونے والے نقصان کی جانب پھینک دیا۔

بلوچ قوم نے 28مئی کو دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے، یہ دن بلوچ تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے بلوچ قوم اسے یوم آسروخ کے طور پر مناکر قبضہ گیر کی جانب سے بلوچ سرزمیں کو بطور ایٹمی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے اور ایٹمی دھماکوں اور تابکاری اثرات کے خلاف بھر پور اندازمیں نفرت کا اظہار کرتے ہوئے بلوچ نسل کش اور انسانیت دشمن مجرمانہ پالیسیوں کی مذمت اور مخالفت کرتا ہے. 28مئی 1998کو بلوچستان کے علاقہ چاغی میں راسکوہ کے مقام پر بیک وقت سات ایٹمی بم پھوڑ کرپاکستانی ریاست نے اپنے سامراجی عزائم کے ساتھ راسکوہ اور ملحقہ علاقوں میں انسانی زندگی کو نہ صرف ناممکن بنا یا بلکہ پورے بلوچستان کے فضاء کو تابکار اور زہر آلود کردیا۔ 28مئی1998سے لے کر اب تک بیس سال گذرنے کے باوجود تابکاری سے پھیلنے والے مہلک اور جان لیوا بیماریوں نے انسانی بقاء اور زندگی کو مشکلات سے دوچار کیا ہے، جبکہ چاغی اور ملحقہ علاقوں کے درجہ حرارت میں ماضی کی نسبت زیادہ شدت نظر آتی ہے، جبکہ ان علاقوں کو کیمیائی خطرناک بادلوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

بلوچستان کی سرزمین پر ایٹمی دھماکوں کے بعد مال مویشیوں کی ہلاکت خشک سالی اور بڑے پیمانے پر انسانی اموات کے واقعات رونماء ہوئے ہیں، جو ہنوز جاری ہیں جبکہ ان کی تابکاری کے اثرات آج بھی اسی پیمانے پر موجود ہیں۔ مہذب دنیا برطانیہ، یورپی یونین سمیت تمام انسان دوست تنظیموں اور اداروں نے پاکستانی ریاست کو ایٹمی تجربات سے سختی سے منع کیا لیکن پاکستان اپنی روایتی اور موروثی اور تاریخی انسانیت دشمن سوچ پر کار بند رہ کر عالمی برادری کی انسان دوست نظریات کو روندتے ہوئے عالمی قوانین کی برملا خلاف ورزی کرتے ہوئے، اپنی جنونی شوق کو پورا کرنے کے لیئے بلوچ سرزمین کا ٹیسٹ زون کے طور پر انتخاب کیا۔ بلوچستان کے فضاء میں بارود چھوڑ دیا، جبکہ قبضہ گیر ریاست آج بھی عالمی ضمیر کے سامنے اپنے مجرمانہ عمل پر خفت اٹھانے کے بجائے فخر اور تکبر کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش و رونمائی کو یوم تکبیر کے نام پر مناکر اپنی سفاکیت اور وحشیانہ عمل پر جشن اور شادیانے بجانے کا اہتمام کررہا ہے.

پاکستان کو بلوچ قوم سے ہمدردی نہیں بلکہ بلوچ سرزمین اور اس کے وسائل سے لگاؤ ہے، بلوچ سرزمین کو ہتھیانے کے بعد وہ بلوچ وسائل پر گھات لگائے بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ پنجاب اور اس کی آنے والی نسلوں کی معاشی زندگی بلوچ وسائل سے وابسطہ ہیں.آج پاکستان اور اس کے مقامی بلوچ گماشتوں کی جانب سے بلوچ قوم سے جھوٹی خیر خواہی ترقی و تعلیم کی بات مکاری اور فریب ہے، جو ہر قابض کی پالیسی ہوتی ہے، جو مقبوضہ قوم کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے. بلوچ سیاسی حلقوں کو چاہیئے کہ وہ 28 مئی کو لیکر یک جہت ہوکر دنیا کو یہ پیغام پہنچائیں کہ بلوچ قوم پر امن سیکیولر اور رواداری کی بنیاد پر دنیا میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے لہٰذا مہذب دنیا کو چاہیئے کہ وہ اس معاملے پر پاکستان سے جواب طلبی کریں جس سے بلوچ قوم کی تباہی اور اس کے زمین پر نا ختم ہونے والے زخم لگائے گئے۔