باہمت عورت کا کردار، موقف اور رویہ _ عبدالواجد بلوچ

734

باہمت عورت کا کردار، موقف اور رویہ

تحریر:عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

عورت اورمعاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دارومدار جتنا مردوں پر ہے، اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے، جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں، خلقت کی بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیتِ اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔

بلوچ سماج میں خواہ وہ کسی بھی طریقے کا مسئلہ ہو، قومی ہو، سیاسی ہو یا معاشی ہو، عورت کو ہر وقت ایک بہتر مقام دیا گیا ہے اور کہیں ایسا بھی دیکھنے کو ملا تھا کہ عورت کو یہ بھی اختیار حاصل تھا کہ قبائلی رنجشوں کا تصفیہ اور پرانی دشمنیوں کا حل نکالنے میں بااختیار رکھا گیا۔ بلوچ تاریخ نے بانڑی، حاتونان، یاسمین، ازگل اور بھی بہادر عورتیں پیدا کی تھیں، جن کا مثال رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ قدیم زمانے سے لیکر تا ہنوز عورتوں کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لیئے مفکرین نے ہر سطح پر اسی طرح مختلف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار کے پیش نظر اس پر توجہ دی۔

موجودہ دور کے بلوچ سیاست میں ہمیں کئی ایسی خواتین ملیں گی، جو اپنے موقف اور کمٹمنٹ کے ساتھ بلوچ تحریک سے جڑی ہیں۔ قومی مفادات کی بالادستی اور قومی بقاء کی حاکمیت کے لیئے سوچنا ہی اصل نظریہ اور فکری سیاست کہلاتی ہے۔ بلوچ سماج میں موجودہ دور کی اس کشمکش اور پیچیدہ طرز سیاست میں بہت سے ایسے زالبول دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے اپنے، موقف اور کمٹمنٹ کا لاج رکھ کر ہمیشہ قومی بقاء کی بالادستی کے لیئے کام کیا، آج بھی اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سماجی یا سیاسی حوالے سے عورت کے معاملے میں چیزوں کا مشاہدہ اور ان پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ سخت رویے اور قدامت پرستی، وہ امراض ہیں، جنہیں جلد بازی کے پیرہن میں اگر تولہ جائے تو سماجی بربادی کا موجب بن سکتی ہیں اور اس کے علاوہ معاشرے میں پھیلائی گئی یا کہی گئی باتوں، خواہ وہ کسی بھی فرد یا تنظیم سے ہو، کو اس کے سیاق و سباق کو سمجھے بغیر رائے دینا یقیناً عقل مندی کے زمرے میں نہیں آسکتے، کیونکہ کوئی بھی سماجی یا سیاسی کام اس وقت تک صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے، جب غور و فکر،عقل و خرد، تشخیص وتوجہ، مصلحت اندیشی و بار آوری اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوارہو۔

عورتوں کے حقوق کے حصول کے لیئے انجام دیئے جانے والے ہر عمل میں، اس چیز کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے یعنی ہر حرکت دانشمندانہ سوچ پر مبنی ہو، عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان ورغبت سے آگاہی،عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے وافقیت مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے۔ غیروں سے مرعوب ہوکر اندھے فیصلے اور اندھی تقلید کی بنیاد پر آنکھیں بند کرکے انجام دی گئی، تو یقیناً ضرر رساں ثابت ہوگی۔ قومی ترقی میں عورتوں کے کردار سے انکار ناممکن ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں عورت کی شراکت سرگرمیاں ان کی تعلیم ان کے پیشے ان کی سماجی،سیاسی،اقتصادی اور علمی فعالیت کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

بلوچ معاشرے میں عورت کا کردار سنہرے حروف میں نمایاں ملتا ہے، جنگوں کی بات ہو، مہمان نوازی یا میار جلی ہو کسی بھی شعبے میں بلوچ عورتوں نے مردوں کی غیر موجودگی میں مثبت کردار ادا کیا، لیکن موجودہ دور میں چند معاملات کے فہم کو سمجھے بغیر ان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ان پر بحث کرکے اسے منفی رنگ دینا عام ہوچکا ہے، گو کہ ہمارا سماج،تہذیب تشخص مادر پدر آزادی کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن اس بات سے ہم قطعی انکار نہیں کرسکتے کہ عورت کو پاؤں تلے روند کر اسے گھر کا باندی بنایا نہیں جاسکتا۔ آزاد و خود مختاری کا قطعا یہ مقصد بھی نہیں کے اخلاقی بے راہ روی کے شکار ہوں اور مکمل گھل ملنے کا یہ بھی مطلب نہیں کہ عورت یا زالبول اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے اور اس سے منسلک مرد حوس کا پیاسا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق بھائی بہن کا ہو، استاد و شاگرد کا ہو، خاوند اور بیوی کا ہو، عاشق و معشوق کا ہو، اس کے بنیادی مفہوم کو سمجھے بغیر قبل از وقت رائے دینا سماج میں افراتفری اور مایوسیت پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔

سیاسی طالب علم کی حیثیت سے میں نے اپنے سماج میں ہمیشہ اس امر کو انتہائی شدت کے ساتھ دیکھا، بالخصوص عورت کا جب ذکر آجاتا ہے تو نام نہاد غیرت کا ڈھول بجا کر غیرت کے ٹھکیدار سراپا احتجاج بنتے ہیں اور اس بنیادی مقصد کو سمجھنے سے یکساں قاصر رہتے ہیں کہ کس بنیاد پر چاروں سمت شور و غوغا مچایا ہوا ہے۔ بلوچ سماج میں گو کہ تعلیم کا گراف اتہائی تنزلی کا شکار ہے لیکن عقل و فہم و حالات کی ستم ظریفی دشمن کے رویوں، اپنوں کے دردِ جدائی نے بلوچ عورتوں کو عظیم مقام تک پہنچایا ہوا ہے، بلوچ سماج نے دوہزار کلومیٹر کی طویل لانگ مارچ طے کرنے والی فرزانہ مجید، سمی دین محمد کو بھی دیکھا ہے، سیاست کے افق پر بانک کریمہ کو دیکھا ہے، حوران بلوچ کو بھی اپنے سخت موقف کے ساتھ دیکھا ہے اور آج حانی واحد، مہرنگ و حمیدہ کی شکل میں دیکھ رہا ہے کہ ان کے کردار اور کنٹریبوشن اپنے بھائیوں اور دوسرے مردوں کے ساتھ کیا ہے۔ یہ شانہ بشانہ مل کر ایک قومی آواز کو بلند کرنا، یقیناً کرداروں کا تعین بھی کررہا ہے۔ بلوچ سماج اپنے ہاں جدیدیت کو اپنے بانہوں میں سمائے،ماہین واحد عظمہ حیا مہ لقاء بلوچ کے کردار کو بھی دیکھ رہا ہے اور انیتا بلوچ گوادری کو ازمکاری کے میدان میں دیکھ رہا ہے اور فن و تخلیق کے میدان میں بانک حانی اسلم بلوچ کا کردار بھی نمایاں ہے، تو اسی لیئے ہمیں چاہیئے کہ سماج کو سانس لینے دیں، اپنے ڈگر پر رواں دواں اس خوشگوار مستقبل کی تلاش میں چند لمحات مثبت ہو کر سوچیں وقت ضائع نہیں ہوتا۔