ایک کارکن کی رائے، اُسے بولنے دو – نودان بلوچ

333

ایک کارکن کی رائے، اُسے بولنے دو
تحریر نودان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

سیاست: دنیا میں تحریکوں کو کامیاب کرنے کیلئے سیاست اور جنگ یقیناً لازمی ہیں اورتحریک شروع ان دو چیزوں سے ہوتا ہے، سیاست بھی ایک جنگ ہے (قلم کا جنگ) قلم جو دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط ہتھیار مانا جاتا ہے اور ہمیشہ سیاسی کارکنوں نے اپنے قوم کی آواز کو قلم کے ذریعے بلند کیا، دنیا کے سامنے پیش کیا کہ ہمارا قوم کیا چاہتا ہے، ہمارے قوم کے ساتھ کیسے ظلم ہو رہا ہے اور بندوق جو ظالم کو روکنے کیلئے لازمی ہے، بغیر قلم کے صرف بندوق سے کچھ نہیں ہوگا اور بغیر بندوق کے قلم لکھ نہیں سکے گا، یہ دونوں ضروری اور لازم وملزوم ہیں منزل تک پہنچنے کیلئے، منزل تک اس وقت پہنچنا ممکن ہے جب بندوق قلم کے تابع ہو اس قلم کے جو صرف دشمن کے خلاف ہو اور اسکا ٹارگٹ بس دشمن ہو۔

لیکن آج ہمارے جہد میں کہیں نا کہیں قلم بندوق کے تابع ہے اور بندوق ایک فرد کے حکم پر چل رہا ہے، تو سب کچھ ملا کے مطلب یہی ہے کے ہم سب ایک فرد کے تابع ہیں، ہم بندوق سے نکلی گولی کو صحیح راستہ نہیں دِکھاتے جہاں بندوق کی گولی پہنچے، اُس کو صحیح ثابت کرنے کیلئے اپنے قلم کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ ہم تنگ نظر ہیں 70 سالہ جہد میں اگر قلم کا صحیح استعمال ہوتا، تو ہمارے حالات آج اس سے زیادہ بہتر ہوتے, آج جس ظلم کا شکار ہماری قوم بنی ہے، کہیں نہ کہیں قلم اس ظلم میں شریک ہے۔

ہم نے اکثر اپنے قلم کا رُخ دشمن کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ چلنے والے ساتھی کی طرف بھی موڑا ہوا ہے کہ کہاں پر دوست غلط راستہ اختیار کرے اور ہم اسکو گرا سکیں، بجائے رہنمائی کے ہم نادان، مہرباں اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارتے گئے، اس سے نہ صرف دشمن کو فائدہ ہوا، بلکہ ہمارے لوگ بھی ہم سے بدظن ہونے لگے، اور ہماری قوم مزید ظلمتوں کا شکار ہوتا گیا اور ابھی تک ہو رہا ہے، آج بھی ہم نادان مہرباں، خیر خواہ رہنماوں کا یہی عمل جاری ہے کہ کہاں دوست غلطی کرے اور ہم اس کو نیچا دکھائیں۔ ہمارے تنظیموں میں ایسے کارکنان، بے شمار ہیں جو آج ان حالاتوں میں بھی تنگ نظری سے نکل نا سکے اور اپنے لیڈر کے دفاع میں اپنا قلم بڑے دانشوری سے استعمال کرتے ہیں۔

آج ہمارے اختلافات اتنے زیادہ ہیں کے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہونے کا تو دور کی بات، ہم ایک دوسرے کے صحیح فیصلوں پر بھی تنقید کرتے ہیں، بجائے ایک ہونے کے ہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور اس تنقید کی آڑ میں ہم نادان مہرباں اپنے ہی ہم فکر دوستوں کے نہ جانے کتنے راز افشاں کرتے ہیں، جس کا براہ راست فائدہ دشمن کو ملتا ہے۔

ہم سیاسی اختلاف بس اپنے ساتھ چلنے والے تنظیموں سے رکھتے ہیں لیکن کبھی اپنے تنظیم کے فیصلے سے اختلافات نہیں رکھتے، چاہے غلط بھی ہو لیکن اُس پر کوئی سوال نہیں، کوئی بحث نہیں کیوںکہ وہ فیصلہ بھگوان یا خدا نے لیا ہے اور اس فیصلے کو برقرار رکھنا ہم کمبختوں کا فرض ہے، چاہے جو بھی ہو اس سے ہمارے جہد کو نقصان اور دشمن کو فائدہ ہی کیوں نا ہو لیکن ہاں ہم ٹہرے، سچے پکے بھگت (پیروکار) اب ہم خدا سے اختلاف نہیں رکھ سکتے، خُدا کا مطلب غلط نا لیں، خدا کا مطلب ہمارے لیڈرو رہنما جو ہمارے نظر میں ہمارے خدا ہیں۔

تو آج جس طریقے سے ہمارے قلم کو بندوق کو راستہ دکھانا ہے، وہیں پر آج ہمارا قلم اس بندوق کے پیچھے ہے، آج ہمارے قلم اور بندوق کو دشمن کے خلاف ہونا ہوگا، اگر آج بھی ہم اپنے قلم، اپنے ساتھ چلنے والے ساتھی کے خلاف استعمال کریں گے تو دشمن کو ہمارے خلاف کسی کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم خود بڑے شوق سے اُنکا کام کر رہے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ہم کسی کو اغواء نہیں کروا رہے یا شہید نہیں کروا رہے لیکن ہم اپنے جہد کو خود نقصان دے رہے ہیں اور ہمارا دشمن بھی یہی چاہ رہا ہے۔

اگر واقعی میں ہم خود کو اس جہد کا حصے دار سمجھتے ہیں، تو جہد کیلئے جو فائدہ مند ہے، جو تحریک کو فائدہ پہنچائے، اس عمل کا ساتھ دیں اور باتوں سے بڑھ کر اب عمل کرنا ہوگا، کیونکہ بات کرنے والے کارکن ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور عملی بس گنتی بھر۔ منزل آزادی ہونا چاہیئے اور ٹارگٹ دشمن لیکن آج ہم ٹارگٹ کو بھول کر غلط راہ پر چل رہے ہیں، ان غلط راستوں نے آج اتنے نقصان دیئے ہیں کہ آج قوم بالکل مایوسی کی طرف جا رہا ہے، عوام یہی سوچتا ہے کہ آزادی کی بات کرنے والے ہی ایک دوسرے کے اتنے خلاف ہیں تو ہمارا کیا ہوگا، آج عوام ظلم سہہ رہا ہے، اس کو دیکھا نہیں جا رہا، بس اپنی دانشوری اپنے خدا (لیڈر) کو سچا ثابت کرانے میں ضائع کر رہے ہیں۔

اپنی قابلیت کو استعمال کرو، منزل تک پہنچنے کیلئے اس کو دور کرنے کیلئے، نہیں ہمیں اس جہد کا ایمانداری سے حصہ بننا ہوگا، کبھی کوئی تحریک ایسے کامیاب نہیں ہوا کے جہاں پر آزادی چاہنے والے سب ایک دوسرے کے خلاف ہوں اور ایسے ہم کو بھی نہیں ملے گا آزادی، تب ملے گی، جب آزادی چاہنے والے ایک دوسرے کے خلاف نا ہوں۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ سیاسی اختلاف لیکن یہاں جو ہے بس نام کا سیاسی ہے باقی سب کو پتا ہے کے اختلافات کس حد تک کے ہیں اور کیا ہیں۔

وقت کے ساتھ چلنے کا ہنر سیکھنا چاہیئے کیونکہ اب تک ہم کبھی وقت کے ساتھ نہیں چلے اور ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کے وقت ہمارے حساب سے چلے، اسلیئے آج ہم اس حال میں ہیں کیونکہ ہم کسی چیز کو ضروری نہیں سمجھتے بس یہی چاہا کے ہم رہیں اور بس ہم ہی رہیں باقی جو ہوگا دیکھا جائیگا۔ اس دیکھنے دِکھانے میں بہت کچھ کھوگیا۔

اب وقت کو سمجھ کر ایک بھلے ہی نا ہوں لیکن دشمن کو ایک سمجھیں اور منزل تک جانے کی کوشش کریں، ساتھ چلنے والے کا ہاتھ پکڑ نہیں سکتے لیکن اس کو دِکھا تو نا دیں، بس اپنا بندوق اور قلم کا منہ دشمن کی طرف موڑیں، اپنے بھائی کو مارنا خود کو مارنا ہے اور آج ہم نے اپنے ہی بھائیوں کو نیچا کررہے ہیں۔ اسلیئے ہم آج بھی اپنے جہد کو ایک اچھے مقام تک نا لے جاسکے اور اب بھی پرانے طریقے آزما رہے شاہد اس بار یہ طریقے کام کر جائیں، شاہد اس باریا اُس باراب دشمن کو روکنے کیلئے قلم کو بندوق کا برابر ساتھ دینا ہوگا، دونوں کا صحیح استعمال ہی منزل تک پہنچائے گا، جہاں آج قلم کوئی غلطی کرے تو اُسکو ہم بندوق سے اس غلطی کو اور بڑا بناتے ہیں، اگر وہی غلطی بندوق سے ہو تو قلم کے ذریعے اُسے زیادہ بگاڑدیتے ہیں کیونکہ ہم غلطیوں کو کنٹرول نہیں کر رہے ان غلطیوں کو چھپانے کیلئے اور غلطیاں کررہے ہیں اور انکا ذرا برابربھی خیال نہیں کےآگے جاکر یہ غلطیاں جہد کو کس نقصان میں ڈال سکتے ہیں لیکن ہم ٹہرے وہ کے تب کا تب دیکھیں گے۔

بات کا مقصد یہی ہے کے ہم نے قلم اور بندوق کا استمعال غلط کیا اور آج بھی کررہے ہیں، سوچنا ہوگا جہد کی خاطر رویے بدلنے ہونگے، بہتر حکمت عملی اور مثبت سوچ سے منزل کی طرف بڑھنا ہوگا، اُس قوم کیلئے جو آج ظالم کے ہاتھوں ظُلم سہہ رہا ہے، قلم سے قوم کا آواز بلند کرنا ہوگا۔