انتخابات اور بلوچستان – کاظم بلوچ

282

انتخابات اور بلوچستان
تحریر: کاظم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

پاکستان میں انتخابات کے لئے پچیس جولائی کی تاریخ دی جاچکی ہے اور اکتیس مئی کو وفاقی حکومت بشمول بلوچستان حکومت کی آئینی مدت پوری ہوجائے گی، جبکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کی مدت پوری ہوچکی ہے، جس کے بعد نگران سیٹ اٙپ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے گا اور تمام تر ذمہ داریاں نگران حکومت سمیت الیکشن کمیشن پر آجائیں گی۔

اگر پارلیمانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بلوچستان بالخصوص ایک پارلیمانی تجربہ گاہ رہا ہے، جہاں شعوری سیاست و سیاسی رویوں کی ہمیشہ بیخ کُنی ہوتی رہی ہے، چاہے وہ ماضی کی سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت ہو یا سردار اختر جان مینگل کی حکومت ہو یا حالیہ بلوچستان حکومت کی کشتی کا پلٹاو ہو، بلوچستان ہمیشہ آسان سیاسی و انتظامی ہدف رہا ہے، جہاں جمہور کی طاقت و جمہوری سیاسی سوچ و روایات کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ جس کی بناء پر اس خطے میں جذباتی سوچ کی گرفت و بنیادیں مضبوط ہوئیں۔ اس سے پہلےبلوچستان انتظامی بنیادوں پر پابند سلاسل تھی، مگر اب سیاسی و جمہوری سوچ و سیاسی کلچر کے ہاتھ پاوں و اذہان پر بھاری بھرکم بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں، جس کا حالیہ مظہر بلوچستان میں سینیٹ الیکشن تھے، جہاں سینیٹ کا ایک نشست اسی کروڑ میں فروخت ہوا۔

کہیں گراں و کہیں ارزاں!

ملکی معاملات میں سرل المیڈا کے پہلے کالم کے بعد خنکی کی صورتحال پیدا ہوچکی تھی، مگر بلوچستان میں محمود خان اچکزئی کے تند وتیز لہجہ و سینیٹ کی حساسیت اس صوبے کی دوسری حکومت کو لے ڈوبا۔ گوکہ اس وقت صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے بعد انتظامی اختیارات دیئے گئے ہیں مگر سیاسی اختیارات ناپید ہیں۔ اور بلوچستان کے حقوق ؛ حقیقی بنیادوں پر صوبائی خود مختاری و حق حاکمیت پر مبنی منشور کے ساتھ چلنے والی جماعتوں کا ہمیشہ راستہ روکا گیا ہے اور اُن کی جمہوری آواز کو گلی کوچوں میں دبایا گیا ہے، جس کے سبب بلوچستان میں روایتی سردار، میر معتبرین کی ایک سیاسی کھیپ تیار کی جاچکی ہے، جنہوں نے سیاست کو ایک بزنس ایک ساہو کاری اور اپنے لیئے معاشرے میں بطور حاکم اعلیٰ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جس کے سبب مجموعی انتظامی وسائل کے اعتبار کے استحصال کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی استحصال کا گہرا جال بھی بچھایا گیا ہے۔ جس سے ستر سال ہوئے نکلنا مشکل ہوچکا ہے اور بلوچستان کی یوتھ حقیقی قوم دوست قوتیں جو وفاق کی ناروا سلوک کا رونا رو رہی تھیں، اب انہیں اپنے ہی گلی محلوں شہروں دیہاتوں میں استحصالی گروہ کا سامنا ہے، جو بلوچستان کی انتظامی، سیاسی؛ تعلیمی بنیادی انفراسٹرکچر کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور مشرف سرکار کے بعد ایک نئی کرپٹ کلچر پالیٹکس کا ظہور ہوا، جہاں لوٹ لو کی سیاست پروان چڑھی، جو اب تک چل رہی ہے۔

جہاں حق اختیار ساحل و وسائل و برابری تعلیم و صحت و روزگار کے صدا بلند کرنے والوں کے لیئے کوئی جگہ نہیں، جہاں بلوچستان کو روایتی لوگوں کے ذریعے ہانکا جارہا ہے اور ایسے لوگ پارلیمنٹ میں جاتے ہیں جنہوں نے ان پندرہ سالوں میں بلوچستان کو پسماندگی، درماندگی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا اور اب باپ جیسی جماعتوں نے اس کی رہی سہی کسر پوری کردی ہے، جہاں سیاسی کلچر سے ناواقف جماعت جس کے عہدیدار الف سے ی تک تمام صدور و مرکزی سیکرٹریز ہیں۔

جن سے تبدیلی و تغیر کی اُمید مریخ پر زندگی کے آثار کے مانند ہے اور اس جماعت کا منشور ایک سماجی آرگنائزیشن کے منشور سے بھی کم تر درجے پر ہے اور بلوچستان جیسی سرزمین جہاں تیل و گیس معدن و ساحل جیسی سرزمین و سیاسی حوالے سے حساس صوبہ اور اس کے طول و عرض میں پھیلی بے چینی وسائل سے بے بہرہ لوگوں کے ان گنت مسائل سے دوچار ہیں اور ان مسائل کو ایک سنجیدہ سیاسی جماعت ہی حل کرسکتی ہے، نہ کہ ایسی جماعت جہاں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر نوعمر بچوں کو سیاسی اختیارات تمھادیئے جائیں، جس سے سیاسی ماحول پر کرپشن و کمیشن کی چھاپ برقرار رہے۔

آنے والے الیکشن سے پہلے بلوچستان کے سنجیدہ سیاسی حلقوں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جمہوری فکر و سوچ رکھنے والی جماعتوں کا رستہ روکنے کی تیاری کی جارہی ہے، جس کے غلط سیاسی و سماجی اثرات پورے بلوچستان میں پڑسکتے ہیں، جو ہرگز اس صوبے کے بہتر مفاد میں نہیں ہوسکتے۔