آزادی – علیزہ بلوچ

322

آزادی

تحریر: علیزہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

جب میں نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا، تو مجھے دنیا میں سب سے مشکل کام یہی لگتا تھا اور واقعی ایک ہنر ہی چاہیئے ہوتا ہے لفظوں کو ایک خاص ترتیب میں سجانے کیلئے۔ یہ ہنر ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا، مگر لکھتے ہوئے میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے، جب آپ اس ہنر سے واقف ہوتے ہیں تو جیسے یہ آپ کا شوق بن جاتا ہے اور جب آپ کچھ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں، تو ان الفاظ کو پروتے ہوئے ایک میٹھی تاثیر سی محسوس ہوتی ہے، جس سے آپ کا دل نہیں چاہتا کہ دم بھر کو بھی آپ قلم ایک طرف رکھیں۔

جب لکھنا ہی ہے، تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے الفاظ کا صحیح استعمال کرکے اپنے احساسات کو تحریری شکل نا دوں، خیالات کی دنیا میں گم میں اپنے آس پاس کے لوگوں سے بالکل بے خبر، یہ سوچ رہی تھی کہ دنیا میں کتنی ہی قیمتی چیزیں ہیں جو کہ انسان پانے کی کوشش کرتا ہے اور زندگی میں ہر قیمتی شے بہت سی مشکلات اور مصیبتیں سہنے کے بعد ہی ملتی ہے. ان قیمتی چیزوں میں سے میرے نزدیک سب سے اہم فقط ایک ہی لفظ “آزادی” ہی گردش کرتی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عظیم نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت میرے نزدیک آزادی ہے۔

لفظ آزادی ایک بہت ہی خوبصورت اور میٹھا لفظ ہے، جس میں محبت، خوشی، شوق، امنگ، خوشبو عزت اور عظمت موجود ہے۔ آزادی کا مطلب ہمارے انفرادی خیالات کی آزادی، تنقید کی آزادی، کامیابی کی آزادی، علم کی آزادی ہے۔ آزادی سچائی اور انسانیت کی بنیاد ہے۔ آزادی کا متضاد غلامی ہے، جس میں تلخی، نفرت، اندھیرا، خوف اور رسوائی ہے۔ آزادی اللہ تعالیٰ کے قیمتی انعامات میں سے ایک ہے، جبکہ غلامی ایک سزا ہے۔

جب آزادی حاصل ہوتی ہے، تو ہماری سوچ اور فکر ہمارے خیالات بلند ہوتے ہیں. ہمارے جذبے پروان چڑھنے لگتے ہیں، امن اور سکون حاصل ہوتا ہے. جبکہ اس کے بر عکس غلامی میں ہماری سوچ پست ہوتی ہے، انسان نا امیدی کا شکار ہو جاتا ہے سکون برباد ہوتی ہے۔ انسان ہو یا حیوان آزادی سب کو عزیز ہوتی ہے. آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت ایک ذی روح کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔

آزادی کا تقاضا ہے کہ اس کے لیئے قربانی دی جائے، یہ لہو مانگتی ہے، جس کا مینار نوجوانوں کی ہڈیوں سے تعمیر ہوتا ہے. آزادی کی شمع شہیدوں کے خون سے روشن ہوتی ہے۔ آزادی کی جنگ لڑنا کوئی گناہ نہیں بلکہ آزادی حاصل کرنا ہر غلام قوم پر فرض ہے۔بلوچستان بھی ایک غلام قوم ہے، جس پر پاکستان نے سالوں سے جبری طور پر قبضہ کیا ہوا ہے. اس قبضے کے خلاف ہزاروں افراد نے جن میں بچے، بوڑھے اور نوجوانوں سمیت عورتوں نے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں. ہمارے ہزاروں نوجوان پہاڑوں میں گھروں سے دورباغی کی زندگی گذار رہے ہیں، تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو ایسے غلیظ ملک کی غلامی میں زندگی بسر نہ کرنا پڑے، پاکستان نے بلوچستان کو نہ صرف جانی بلکہ مالی طور پر بھی نقصان پہنچایا ہے. مال مویشی قیمتی اشیاء لوٹ کر لے جانا، جس میں چاغی پر ایٹمی قوت آزما کر وہاں کی زمین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بنجر کر دینا ہی کیوں نہ ہو۔

کوئی بھی ذی شعور انسان بلوچ قوم کے بغاوت، مسلح جدوجہد یا قومی آزادی کو دہشت گردی شر پسندی کا نام نہیں دے سکتا. وطن جو مادر وطن کہلاتا ہے “ماں” ہے اور وہ اولاد کتنا بے غیرت ہوگا، جو اپنی ماں کی طرف غلیظ نظروں کو برداشت کرے۔

آج اگر قابض دشمن بلوچ قوم کی معیشت کو نقصان دے رہا ہے، تو یہ بلوچ قوم کا فطری حق ہے کہ وہ سینہ تان کر دلیری سے اپنا حق حاصل کریں. بلوچ قوم کو اس غیر فطری ریاست سے کوئی تعلق نہیں، بلوچ اپنی آزادی اور اپنے مادر وطن کی ننگ و ناموس کی حفاظت کے لیئے میدان جنگ میں لڑتا اور قربان ہوتا رہے گا اور آج ہم ایک ایسی طاقت بن چکے ہیں کہ ہمیں اپنی آزادی کے منزل سے کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتا، آج وطن کے ماؤں نے اپنے بیٹوں کو سرزمین پر قربان کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ آج بلوچ بہنیں گھر میں بیٹھ کر اپنے بھائیوں کے لاشوں کا انتظار کرنے کے بجائے انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں۔ آج بوڑھے والد اپنے بیٹے کے ساتھ دشمن کے خلاف مورچہ زن ہیں۔ آج مجید کے بعد حاجی رمضان، سمیع کے بعد اسکے بوڑھے والد حاجی عبدلقادر وطن پر بیٹے کی قربانی کے بعد اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے تیار ہوئے۔ ہر بلوچ غلامی سے نفرت کو ایمان سمجھتا ہے، آج ہمارے بے شمار بھائیوں کی قربانیوں کے بعد ہم نے وہ مقام پایا، دنیا میں آج اپنے بہادر دوستوں کو خود پر گولی چلاکر وطن پر قربان ہوتے دیکھ کر ہمارے دل اور دماغ دشمن کے خلاف اتنے پختہ ہوگئے ہیں کہ اب منزل سے پیچھے ہٹنے کا تصور اور کوئی گمان نا بچے، اس لیئے کہ ہم نے سیکھ لیا، اپنے فرض کا قرض کیسے ادا کیا جاتا ہے اور آزادی کے صبح نور تک ہم اس کارواں میں ایسے ہی قلم، بندوق اور کتاب کے زریعے آزادی کا خواب سچ کرکے دکھائینگے۔