طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود جھالاوان سے لاپتہ سیاسی کارکنان تاحال غائب۔ اہلخانہ

230

جھالاوان سے لاپتہ ہونے والے بلوچ سیاسی کارکنان کے اہلخانہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ  پورے بلوچستان کی طرح جھالاوان سے بھی اس وقت سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان ریاستی اداروں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں اغواء کے بعد طویل جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں، جھالاوان سے لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان ایک طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود تاحال بازیاب نہیں ہوسکے، بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح فورسز اور انٹیلی جینس اداروں نے اپنے مقامی مخبروں اور ڈیتھ اسکواڈز سے ملکر متعدد سیاسی کارکنوں، طالب علموں، قبائلی متعبرین، وکلاء اور تاجروں سمیت دیگر مکتبہ فکر کے افراد کو اغوا کرکے یہاں سے لاپتہ کیا، وقتا فوقتا یہاں سے کئی لاپتہ نوجوانوں کے لاشیں بھی برآمد ہوتے رہے اور خضدار کے علاقہ تو تک سے اجتماعی قبریں بھی برآمد ہوئے، جہاں سینکڑوں لاشیں اجتماعی طور پر دفن کئے گئے تھے لیکن فوج اور ایجنسیوں نے علاقے میں انسانی حقوق کے اداروں سمیت میڈیا کو رسائی نہیں دیا اور کچھ لاشیں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا لیکن عینی شاہدین اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے معلومات کے مطابق اجتماعی قبروں سے 169 کے قریب لاشیں برآمد ہوئے تھے لیکن فوج 12 لاشیں سول اسپتال خضدار منتقل کرکے دیگر لاشوں کو دوبارہ مذکورہ اجتماعی قبروں میں مدفن کردیا۔

اہلخانہ نے مزید کہا کہ انہوں لاشیں تک دِکھائی نہیں گئی تاکہ پتہ چلتا کہ انکے پیارے ان لاشوں میں تھیں یا ابتک زندہ ہیں، جھالاوان کو ریاستی اداروں نے اپنے مختلف بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈوں کے سپرد کردیا ہے، یاد رہے اس وقت توتک کے علاقے میں بدنام زمانہ ریاستی ایجنٹ شفیق مینگل نے ٹارچر سیل بنائے تھے، وہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو اغوا کرکے مذکورہ ٹارچر سیل میں منتقل کرتاتھا جبکہ کوہی مینگل، علی حیدر محمدحسنی، ظفر ساسولی، علی، مراد خان شیخ، زیب زرکزئی، زکریا محمدحسنی، ماسٹر کریم ساسولی سمیت دیگر ریاستی ایجنٹ بھی اس ڈیتھ اسکواڈ کا حصہ تھے۔ توتک کے علاوہ قلات، انجیرہ، فیروز آباد، کھوڑی، وڈھ باڈڑی،مشکے، بیلہ سمیت دیگر علاقوں میں ٹارچر سیل قائم کئے گئے تھے اور یہ گروہ ہندو تاجروں سمیت دیگر کاروباری افراد کو تاوان کے لیئے اغواء کرنے کے علاوہ روڈ ڈکیتی، بھتہ خوری، چوری سمیت دیگر سنگین جرائم  میں ملوث رہا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان اور لشکر جھنگوی کے اہم کمانڈرز کو بھی شفیق مینگل نے پناہ دی ہوئی ہے اور اب بھی باقاعدہ باڈڑی، وڈھ، گریشہ کے قریبی پہاڑیوں میں اُن کے ٹریننگ کیمپس قائم ہیں، جہاں متعدد خود کش حملوں میں ملوث سہولت کاروں اور دہشت گردوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اُنھیں ریاستی اداروں اور شفیق مینگل کے سربراہی میں ٹریننگ دیا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاستی ادارے یہاں روز چہرے بدل کر نئے ڈیتھ اسکواڈ قائم کرکے شہریوں کو اغواء کرنے اور لوٹ مار کرنے کی انہیں کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں، اب حال ہی میں ریاستی اداروں نے ثناء اللہ زہری اور نعمت زہری و اُنکے گینگ سے ڈیتھ اسکواڈ کے اختیار واپس لیکر شفیق مینگل اور اسرار زہری کے حوالے کردیا ہے اور باقاعدہ ظفر زہری کو خضدارمنتقل کیا گیا ہے۔

اپنے بیان میں اہلخانہ نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس مسئلے کی جانب توجہ دیں اور انکے پیاروں کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔