ہم عرض کرینگے تو شکایت ہوگی _ عبدلواجد بلوچ

718

ہم عرض کرینگے تو شکایت ہوگی
میرجان بلوچ کا جواب ستائیس مارچ کے تناظر میں

تحریر:عبدالواجد بلوچ

گذشتہ دن ریپبلکن نیوز نیٹورک میں شائع ایک مضمون بعنوان ”بلوچستان پر قبضے کا دن وہ ہے جب ہمارے وطن کو تین ملکوں میں تقسیم کیا گیا“ جناب میر جان بلوچ کے نام سے شائع ہوا، معلوم نہیں کہ یہ ایک فرضی نام ہیں یا باقاعدہ حقیقی نام ہیں کیونکہ اس سے پہلے میں نے موصوف کا کوئی آرٹیکل نہیں پڑھا ہے۔ مذکورہ آرٹیکل میں شائع چند نکات پر حقائق کے بنیاد تبصرہ کرنا چاہتا ہوں، جن میں صرف حقائق کو توڑ مروڑکر پیش کیاگیا اور مذکورہ آرٹیکل میں صرف ایک شخصیت کا رٹ لگانے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ وہ صرف اس بات پر بضد ہیں کہ نواب براھندگ بگٹی نے ستائیس مارچ کے بارے میں جو متنازعہ بیان دیا تھا وہ حقائق پر مبنی ہیں لیکن جناب میرجان بلوچ اور نواب براھندگ بگٹی کسی بھی پہلو پر اس بات کی مزید وضاحت کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ میں کوشش کرونگا کہ ان کے خدشات کو جو گھوم پھر کر ایک شخص کی طواف تک محدود ہوتے ہیں، ان کا چیدہ چیدہ جواب دے سکوں۔

موصوف کہتے ہیں کہ بلوچ آزادی پسند حلقوں میں اعتماد، یکجہتی اور اتحاد کا فقدان ہے، اس سے تقریباً تحریک سے وابستہ تمام مخلص کارکنان واقف ہیں یقینا اس امر سے ہم سات سال پہلے واقف تھے کہ بلوچ آزادی پسند حلقوں کے ہاں اعتماد کا فقدان ہے، جو ایک دوسرے کے مابین پائی گئی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے لیکن موصوف اس بات کی مکمل وضاحت بھی نہیں کرتے کہ آزادی پسند حلقوں کی جانب سے ان دوریوں کو مزید وسعت دینے میں بالواسطہ یا بلا واسطہ نواب براھندگ بگٹی کا براہِ راست ہاتھ تھا، جس کی ابتداء بلوچ آزادی پسند حلقوں کی جانب سے بنائی گئی پہلی اتحاد فرنٹ کا شیرازہ بکھیر کر کیا گیا، وہ بھی صرف اور صرف ایک پارلیمانی جماعت کے موقف کو تقویت دینے کے لئے۔ان تمام تاریخی حقائق کو پسِ پشت ڈال کر صرف ایک متنازعہ بیان کو بضد ہوکر بلوچ سیاسی ماحول پر مسلط کرنے کی روش از خود بلوچ قومی تحریک کو نشانہ بنانے کا مترادف ہے۔

دوسرے پیراگراف میں جناب میرجان کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں سرگرم بلوچ سیاسی کارکنان قابض ریاست کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنے ہی ہم خیال آزادی پسندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، تو یہاں میں عرض کرتا چلوں کہ موصوف شاید یہ بھول چکے ہیں کہ سیاسی تربیت گاہ میں سکھائی گئی متنازعہ یا وجود نا رکھنے والی کسی بھی موقف یا شوشہ پر تنقید کرنا یا اس کی تاریخی سچائی پر لب کشائی کرنا کسی کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ اس متنازعہ رویے کو سدھارنا ہے، جس سے سیاسی معاشرے میں کنفیوژن پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔”وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں غیرضروری بحث اس وقت شروع ہوا، جب نواب براھندگ بگٹی نے ستائیس مارچ کے حوالے سے اپنا موقف بدلتے ہوئے اسے پورے بلوچستان پر قبضہ نہیں بلکہ صرف ریاست قلات پر قبضہ قرار دیا اور کہا کہ ستائیس مارچ کو صرف قلات پر قبضہ ہوا جبکہ باقی ریاستیں بشمول برٹش بلوچستان کے اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئی تھیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ براھندگ بگٹی نے جو کہا وہ اس کا اور اس کے پارٹی کا موقف تھا، اب یہ ضروری نہیں کہ تمام لوگ اسکے موقف کی حمایت کریں یا مخالفت کریں کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر انسان کا ایک ہی موقف ہو لیکن ایک ُدوسرے کے موقف کا احترام کرنا نا صرف شعور یافتہ لوگوں بلکہ اچھے انسان ہونے کا بھی پہچان ہے “بالکل جناب میر جان شاید آپ یہاں خود اپنے تحریر میں کچھ حد تک الجھے ہوئے ہیں شخصیت کی پیروی نے آپ کوبہت زیادہ الجھن کا شکار بنا دیا ہے۔ آپ خود نہیں جانتے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ کہتے ہیں کہ ستائیس مارچ کے حوالے سے بیان صرف براھندگ بگٹی یا ان کے پارٹی کا موقف ہے اور اس سے بلا جواز تنقید اچھا عمل نہیں، اس موقف کا احترام اچھا عمل ہے تو جناب یہ کوئی معمولی بات نہیں یہاں تاریخی حقائق کو مسخ کیا گیا ہے اور بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے کسی بھی سیاسی حقیقت کو مسخ کرنا نا صرف ایک گناہ تصور کی جاتی ہے بلکہ یہ تحریک کے ساتھ ایک سنگین مزاق بھی ہے۔

باقی جہاں تک احترام کی بات ہے تو یہ وہی احترام ہے کہ آج بلوچ قوم براھندگ بگٹی کو اپنا لیڈر تصور کرتی ہے لیکن اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ جناب آکر اپنی مرضی سے بلوچ تحریک میں کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ کل کو آپ کہیں گے بھٹو ایک قومی لیڈر تھا انہوں نے نواب اکبر خان کو گورنر بنا کر مری مینگل کا قتل عام کرکے اچھا عمل کیا تھا تو کیا اس امر پر ہم آنکھ بند کرکے لبیک کہیں کہ نواب صاحب کا احترام اس میں پوشیدہ ہے؟

آپ کہتے ہیں کہ پارٹی کے اندر اس معاملے میں چند عناصر نے گروپ بندی کرکے تنظیم اور پارٹی کے خلاف لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے، تو یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ میرا سیاسی تعلق بی آر پی سے نہیں لیکن بلوچ قومی تحریک کے ساتھ میرا ایک مضبوط رشتہ ہے، اسی حوالے سے یہاں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ کہوں، کچھ لکھوں، کچھ عرض کروں یقینا ان عناصر کا بھی یہی رشتہ ہے جنہوں نے پارٹی کے اندر جناب براھندگ بگٹی کے اس متنازعہ موقف پر سوال اٹھایا۔ یہ کسی بھی گروپ بندی کے ضمرے میں نہیں آتا بلکہ قومی پارٹیوں کے اندر شخصی اجارہ داری اور من مانیوں کے آگے بندھ باندھنے کی پہلی کوشش تصور کی جاتی ہے، جو کہ ہر مخلص سیاسی کارکن کا فرض ہے۔

جناب میرجان بلوچ آپ نے اپنی مضمون میں یہ کہا تھا کہ برطانیہ چیپٹر کے ایک رکن نے پارٹی آئین کی خلاف ورزی کرکے پارٹی و تنظیم کے کارکنان کو نواب براھندگ بگٹی کے خلاف ورٖغلانے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں استعمال کیا تو جناب حکیم واڈیلا بلوچ یا دوسرے سیاسی کارکنان نے نواب براھندگ بگٹی کے خلاف کسی کو نہیں ورغلایا، بلکہ مجھ سمیت ہر وہ سیاسی کارکن جو بلوچ قومی تحریک سے وابستہ ہے، نواب براھندگ بگٹی کے متنازعہ موقف کے خلاف ہے، جب تک وہ اس مکمل تاریخی حوالے سے وضاحت نہیں کرتے۔ آٹھویں نہیں بلکہ آپ پرائمری سے بھی کم تر جماعت کے طالب علم ہو سکتے ہیں کہ آپ کو ابھی تک یہ علم نہیں کہ تاریخی حقائق کو مدنظر رکھ کر اس پر مدلل بحث کس طرح کی جاتی ہے کیونکہ سیاسی تربیت میں متنا زعہ معاملات پر سیاسی انداز میں اپنا موقف بیان کرنا، ہر سیاسی کارکن کا بنیادی حق ہے اور لیڈرشپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ بجائے آئینی معاملات کو پاؤں تلے روندنے کے اپنے سیاسی کارکنان کو مطمئین کرنے کی کوشش کریں۔

آپ کہتے ہیں کہ آزادی حاصل کرنے کے لیئے ضروری نہیں کہ زمین پر قبضہ ہو لیکن جناب یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان نے بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا تھا اور بلوچ قوم اس قبضے کے خلاف آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں، تو یہ ہم کیوں کہیں کہ جی پاکستان نے ہم پر قبضہ نہیں کیا ہے بلکہ ہم اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستانی موجودہ جبر کے خلاف؟ کیا آپ کا مقصد در پردہ یہ تو نہیں کہ آپ براھندگ بگٹی کو ایک سیاسی “آئی کون” قرار دینا چاہتے ہیں کہ موجودہ قومی تحریک کے جدید طرز کے لیڈر ہیں اور ایک نئے موقف کے ساتھ میدان میں اترے ہیں؟ تو کیوں نا براھندگ بگٹی اپنی پارٹی اور طرز سیاست کو باقاعدہ قومی رنگ میں ڈھال دیں، بجائے انہیں آپ ایک خدا بنائیں۔ جہاں تک بات ہے کہ آپ کہتے ہیں براھندگ بگٹی کو متنازعہ قرار دیا جارہا ہے، تو جناب میں عرض کرتا چلوں کہ نواب صاحب کو کسی اور نے نہیں بلکہ وقتا فوقتا ان کی بدلتی موقف نے انہیں از خود متنازعہ قرار دیا ہے۔ یقینا ہماری جنگ ایک شاطر چالاک اور طاقتور ملک سے ہے، افسوس اس بات پر نہیں کریں کہ دوست چھوٹے ذہنیت کے مالک ہیں، بلکہ اس امر پر افسوس کریں کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے نواب براھندگ بگٹی کا متنازعہ موقف روز بہ روز ان کے سیاسی گراف کے لیئے نقصان دہ ثابت ہوتا جارہا ہے۔

ایک جگہ آپ نے کہا کہ نواب صاحب نے بلوچستان میں لگژری زندگی کو چھوڑ کر بلوچستان کے لیئے پناہندگی کی زندگی گذار رہے ہیں تو جناب یہ کوئی احسان نہیں ہے کہ وہ بلوچ قوم پر جتائے، یہ ان کا قومی فرض ہے جو وہ ادا کررہے ہیں، اس کا قطعاً مقصد نہیں کہ وہ اس آڑ میں بلوچ قومی تحریک کے ساتھ مزاق کرکے تاریخی حقائق کو مسخ کریں۔ یقیناً ہم عقل کل نہیں لیکن وہ سیاسی کارکن ہیں، جو کسی بھی شخصیت پرستی سے بالاتر ہیں اور بلوچ تاریخی حقائق کی دفاع میں کسی بھی طرح کمر بستہ رہیں گے۔

آپ نے ایک جگہ عجیب بات کی ہے جو کسی بھی طرح سیاسی حوالے سے انتہائی مزحقہ خیز ہے کہ ”شہید غلام محمد بلوچ نے بلوچ عوام کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرنے کے لیئے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا کہ ریاست کے خلاف لوگوں کھڑا کرنا اتنا آسان نہیں، شہیدغلام محمد بلوچ کو یہ فن اچھی طرح آتا تھا“ تو جناب میرجان بلوچ یہ ایک مزاق کے علاوہ اور کچھ نہیں یقیناً یہاں آپ بدنیتی سے لبریز ذہنیت سے ایک سیاسی مزاق کررہے ہیں۔ آپ کو کہتا چلوں کہ پاکستان کے خلاف بلوچ قوم کو تیار کرنا کسی فن کا محتاج نہیں بلکہ شہید غلام محمد بلوچ سمیت ان تمام شہداء نے بلوچ قوم کو اس بات پر متفق کیا تھا کہ پاکستان سمیت بلوچ سرزمین پر قبضہ گیریت کے خلاف یہ جنگ بلوچ قومی سرزمین کی بحالی کی جنگ ہے، لیکن ہاں یہاں ستائیس مارچ کو متنازعہ کرکے نواب براھندگ بگٹی بلوچ قومی تحریک کے اندر اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں، جس سے روز بہ روز ان کے ہاں مخلص سیاسی کارکنان کو پارٹی سے نکالنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ انسانوں سے غلطیاں سر زد ہوتی ہیں، جی بالکل! جناب یہ ایک سیاسی غلطی ہے، جناب براھندگ بگٹی کا کہ وہ ستائیس مارچ کی تاریخی حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں لہٰذا انہیں چاہیئے کہ اس بات پر نظرثانی کریں۔

ستائیس مارچ کے حوالے سے میں کسی بھی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا کیونکہ اس حوالے سے بلوچ دانشور واجہ محمد علی تالپر اور بلوچ سیاسی رھبر رحیم احمد ایڈوکیٹ کے تحریر سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جس سے سیاسی کارکن بشمول آپ کے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ نے اپنے تحریر کے آخر میں لکھا تھا کہ ”بلوچستان پر قبضے کا دن ستائیس مارچ نہیں بلکہ وہ دن ہونا چاہیئے، جب بلوچ سرزمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا“ تو جناب میرا ایک سوال ہے آپ سے اور نواب براھندگ بگٹی سے اگر وہ ستائیس مارچ 1948کو ریاست قلات پر قبضے کو جھٹلا کر اس قبضہ گیریت پر جب بلوچ سرزمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا اس پر جدوجہد کرینگے؟ وہ اس بات سے متفق ہونگے کہ واقعی مجھے بلوچستان پر تین اطراف سے قبضہ گیریت کیخلاف جہد کرنا ہوگا؟ تو بجائے ستائیس مارچ کو متنازعہ کرنے کے بہتر ہے جناب براھندگ بگٹی آپ کے کہے ہوئے فارمولے پر عمل پیرا ہوں۔

(ادارہ قارئین کی دلچسپی کیلئے، ارسال کیئے گئے مختلف الآراء معیاری مضامین شائع کرتا ہے، لکھاریوں کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)