نازینکوں میں اٹھتے جنازے – ظفر بلوچ

234

نازینکوں میں اٹھتے جنازے

تحریر: ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شادی انسانی زندگی کا ایک بہت ہی حسین حصہ ہے، جو ہر بندے پر لازم اور سنتِ نبوی ہے، نوجوان لڑکے یا لڑکی زندگی میں شادی کا تصور ایک خوش آئند مُسرت خیز تصورہوتا ہے۔ نوجوان لڑکا یا لڑکی جب نوجوانی کے عمر میں پہنچتے ہیں، تو خود کو جوڑے میں باندھنے کے منتطر ہوتے ہیں۔

ویسے مہذب لوگوں کے مطابق زندگی کے حسین ایاموں کے شروعات ہی یہی ہوتے ہیں، دلہن یا دلہے کے فیملی ممبر لڑکا یا لڑکی کے خاندان والے اپنے نوجوان مستقبل کے رشتوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ شادی کی زندگی میں غم ہو یا خوشی، دونوں اطراف متاثر ہوتے ہیں ـ

شادی کا پہلا دن ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوتا ہے، جس سے یہ امید خوشیوں کی بندھی ہوتی ہے لیکن اسی دن سے ایک دلہا اور دلہن ایک دوسرے سے تا حیات الگ رہیں، ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں، تو یہ اندازہ لگانا اتنا مشکل نہیں کہ اُن بچھڑے ہوئے جوڑوں کی زندگی کا کیا حال ہوگا۔ دائمی دردِ و کرب میں مبتلا زندگی روز کرب میں ڈھلتے ڈھلتے معدوم ہوجائےـ

اج میں ایک درد بھری یاد قلم بند کرہا ہوں، ان جیسے یادیں ہر وقت مجھے بلکہ ہر انسان دوست کو غم میں مبتلا کردیتے ہیں، یہ وہ داستان ہے جب 21 اپریل2015 کے علٰی الصبح ریاستی فورسسز نے اپنی درندگی میں آکر چار بلوچ دولہوں جو اپنے دلہنوں کے ساتھ شورش زدہ علاقے مشکے کے گاؤں گورجک میں واجہ لعل بخش کے گھر میں دیوان نشین تھے اور بارات ان ہی کی مبارک باد کیلئے منتظر تھی کو عین اسی وقت ریاستی جبر کا نشانہ بنایا۔

ریاستی درندہ صفت فورسز نے تینوں دلہوں کو جس میں باسط جان عرفِ بابو، اعجاز عرفِ بچو اور شاہنواز عرفِ میراث آفتاب یاد رہے آفتاب اور جلال دونوں آپس میں سگے بھائی تھے، کو ان درندہ صفت فورسسز نے گرفتار کرکے چند لمحوں کے اندر اندر ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں گجر شہر کے لنک روڈ پر پھنک دیئے تھے۔ دیگر مہذب اقوم، اپنے لختِ جگراں کی شادی بیاہ میں غموں کو خوشیوں کے ساتھ تبدیل کرتے ہیں لیکن بلوچ قوم کے اُن ماؤں کو دیکھیں جنکی خوشیوں کو دشمنِ نا پرسان نے اندوہناک غموں میں تبدیل کردی۔ ان ماؤں نے مختلف نشیب و فراز سے گذر کر، مصائب جِھیل کر، زندگی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی گھروں کے پھولوں کو جس امید کے ساتھ پیدائش سے لیکر جوانی تک پرورش کرتے ہوئے تھکنے کا نام نہیں لیا، انہی ماوں کو اپنے فرزندوں کی لاشیں انکے بیاہ کے دن دیکھنے پڑے۔

دشمن کے ان مظالم کے باوجود میں ان ماووں کو سلام پیش کرتا ہوں، جو پھر بھی نہیں ہارے اور اپنے دولہے فرزندان کے شہادت پر فخر کرتے ہوئے، موتک کے بجائے نازینک کے ساتھ اپنے فرزندوں کو مادرِ گلزمین کے آغوش میں ان کے شادی کی رات ابدی نیند سلاتے ہیں۔