قومی سوچ اورتحریک آزادی – نادر بلوچ

463

قومی سوچ اورتحریک آزادی

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم 

 

نیشنلزم کی بنیاد اور بقا قومی سوچ و فکر ہے۔ قومی تحریک کو سمجھنے کے لیئے قومی سوچ کو جاننا ضروری ہے۔ قوم کی تشکیل بھی قومی سوچ کی وجہ سے ہوتی ہے، تحریک آزادی کے لیئے بھی قومی سوچ کا ہونا فرض ہے۔ قومی سوچ کیا ہوتی ہے؟ اسکی اہمیت و افادیت تحریک کے لیئے کیا معنی رکھتی ہے؟ اسکو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

تشکیل کا یہ عمل مشترکہ مفادات سے شروع ہوتی ہے، جسطرح قوم اور قومی سوچ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اسی طرح کسی قومی تحریک کی کامیابی کے لیئے قومی سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ اگرقوم غلام بنتی ہے یا آزاد ہوتی ہے، اسکی بنیادی سبب قومی سوچ کا ہونا یا نہ ہونا ہوتا ہے۔ آزاد اور ترقی یافتہ اقوام قومی سوچ کے فروغ کے لیئے الگ ادارے تشکیل دیتے ہیں تاکہ قومی سوچ قائم رہے، آزادی کو قائم رکھنے کے لیئے بھی قومی سوچ درکار ہوتی ہے۔ اسکی ایک مثال بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے ایک پروپگنڈہ یا آج کی ایک حقیقت بھی ہے کہ بعض وقت سرکار یا اسکے حامی کہتے ہیں کہ اگر بلوچ قوم آزاد ہو توآپس میں خانہ جنگی کا شکار ہونگے۔ اس بیانیے کا توڑیہی ہے کہ قومی سوچ کے بغیر آزادی ممکن ہی نہیں، جب آزادی مل جاتی ہے، تب تک قومی سوچ و فکر اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ خانہ جنگی نہیں ہوتی۔ جو اقوام آزاد ہوئے، پھرزوال کا شکارہوئے، ان اقوام کے سوچ کا اگر جائزہ لیں، تو بنیادی وجہ قومی سوچ و فکر کا فقدان ہی نظر آتا ہے۔ قومی سوچ و فکر کی اہمیت اقوام اور تحریکوں کے لیئے اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے، جتنا کسی انسان کے لیئے زندگی۔ اسکے بغیر نہ آزادی حاصل ہوتی ہے، نہ ہی قائم رہ سکتی ہے۔ قومی تحریک میں متحرک کسی بھی تنظیم/پارٹی کا کمزور ہونا یا طاقت ور ہونا قومی ہوتا ہے، یہ بھی قومی سوچ ہی سِکھاتی ہے۔

آزاد اقوام کی تاریخ پڑھیں تو جب کسی دوسرے ملک کو ان پر جارحیت کرنی ہوتی ہے، پہلے اس ملک کی قومی سوچ پر حملہ کرتے ہیں، اسکے لیئے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں جنکا استعمال کرتے ہیں، چاہے وہ قومی تقسیم ہویا کوئی، ایسا پہلو جہاں سے وہ قومی سوچ میں دراڑ ڈال سکیں۔ دوعمارتوں کی مثال لیں جنکوتوڑنا ہو تو ایک عمارت سمنٹ سے مکمل پلستر ہو اوردوسری نہ ہو تو پہلے کس کو توڑنا آسان ہوگا۔ جو عمارت سمنٹ سے پلستر نہیں پہلے وہی ٹوٹے گی کیوں کہ اسکی ہر اینٹ الگ سے ظاہر ہوتی ہے اور ایک ایک اینٹ کو الگ سے ڈھونڈنا نہیں پڑتا، اسی طرح قومی سوچ بھی ہماری قومی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ تحریک اور قوم کو تقسیم سے بچاتی ہے۔ جو اقوام، تحریکیں اسکی اہمیت وافادیت کی پہچان رکھتے ہیں وہ ایسے رویوں کو برداشت نہیں کرتے، جوقومی سوچ کو نقصان پہنچائیں۔ بحثیت بلوچ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک مقصد پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم قومی تشکیل کو مکمل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قومی سوچ کو سمجھنا اور اپنانا ہوگا۔

پہلے قومی سوچ بنتی ہے یا قومی تحریک تو جواب ہوگا کہ قومی سوچ ہی سے تحریک کی بنیاد پڑتی ہے، کیوںکہ جب قوم کے باشعور افراد اپنی قومی غلامی کو محسوس کرتے ہیں اور شعوری طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ تحریک کے بغیر قومی غلامی سے چھٹکارہ ممکن نہیں، قومی سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ قوم اس تحریک میں انکا ساتھ دے۔ قومی سوچ و فکر میں اضافہ ہوتا ہے، تحریک مضبوطی کی طرف بڑھنا شروع کرتا ہے۔ اس فکر اور مقصد پر جہدکار کاربند رہتے ہیں، انکی صفیں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور تحریک کو قومی ادارے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان اداروں کوقومی اس لیئے کہتے ہیں کہ وہ ایک قومی سوچ کے تحت وجود میں لائے گئے ہیں اور قومی تشکیل کومکمل کرنا، اسکی حفاظت کرنا اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جہد مسلسل ہی کامیابی کی طرف لے جاتی ہے اور جہد مسلسل کا سبب قومی سوچ ہی ہوتی ہے ہمیشہ سوچ و فکرہو کہ تحریک کس مقام پہ ہے؟ آج کیا کرنا ہے؟ کل کیا کرنا ہوگا؟ قومی تحریک کی کیا ضروریات ہیں؟ سوچ ہی قومی تحریک سے تعلق بنائے رکھتی ہے۔ اس سے ذرا بھی غافل ہونا قومی سوچ کی کمزروی کا سبب بنتی ہے۔ قومی سوچ کے بعد تحریک کا وجود میں آنا اورتحریک کا اداروں کے حوالہ ہونا، یہاں تک پہنچنے کے بعد قومی تحریک کی مضبوطی کا انحصار، مظبوط اداوروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اداروں کی کارکردگی پھر سے قومی سوچ پر دارومدار رکھتی ہے۔ ادارہ قومی تحریک کو کس طرح منظم کرتی ہے قومی سوچ جتنی پختہ ہوگی اداروں کی کارکردگی اتنی ہی موثر انداز میں تحریک کے لیئے سود مند ثابت ہوگی۔ اداروں کو ہر حال میں قومی سوچ کو مد نظر رکھ کر کام کرنا ہوتا ہے کیوںکہ ادارے کا مقابلہ قبضہ گیرریاست کے اداروں سے ہوتی ہے۔ ادارہ تحریک کو منظم کرنے اور ریاستی اداروں کے مدمقابل مزید ذیلی ادارے کھڑی کرتی ہے، ان مراحل میں یقینی بنانا ہوگا کہ ان میں شامل جہد کار قومی سوچ کے حوالہ سے کس قدر شعور رکھتے ہیں، اگر کمی بیشی ہوتی ہے تو ااسکے لیئے سلیبس تشکیل دی جائے تاکہ کارکن نظریاتی طور پر منظم ہوں اور اپنے ہر عمل میں قومی مفاد کو مدنظر رکھیں۔ اگر کسی منفی عمل سے قومی سوچ کو زک پہچنے کا گمان ہو، اسکی نشاندہی ہو تو فوراً اسکو دورکیا جائے تاکہ تحریک کو نقصان نہ ہو۔

طریقہ کار الگ ہونے کی بنیاد پر اگر تحریک میں دوسری تنظیموں کا قیام عمل میں آتی ہے یا قومی ذمہ داریوں کے بنا پر دوسری تنظیمیں بنتی ہیں تو اس مقام پر بھی قومی سوچ کو اجاگر کی جائے تاکہ ہر تنظیم قومی مفادات کو مقدم رکھے۔

قومی تحریک کو ایک ریاست سے تشبیہہ دیں تو ایک ریاست کا نعم والبدل بننے کے لیئے ہر تنظیم کو اپنی قومی زمہ داریاں نبھانی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک ریاست میں مختلف ادارے ہوتی ہیں، اسی طرح ایک تحریک میں بھی مختلف زمہ داریوں کے ساتھ ادارے متحرک ہوتی ہیں۔ اب سوال یہ بنتا ہے، قومی سوچ کے مطابق عوام اور کارکن ان اداروں کو کیا نام دیں؟ قومی ادارے قومی تنظیمیں،اور انکی قیادت کرنے والے قومی لیڈر اور کارکنوں کو قومی جہد کار، اسکا انحصار پھر قومی اداروں اور لیڈروں پہ ہوتا ہے کہ انہوں نے قومی سوچ کو کس حد تک پروان چڑھایا ہے۔

قومی سوچ وسیع کرنے کے لیئے عوام اور کارکنوں کی کس سطح پر اور کس نصاب سے تربیت کی جائے۔ بعض اوقات تحریک میں ایسے بھی موڑ آتے ہیں جب تنظیموں کو قومی سوچ رکھنے والے باشعورکارکنوں کے نقصان کی صورت میں ایسے کم تربیت یافتہ یا قومی سوچ کی اہمیت نہ جاننے والوں کو اہم عہدوں پر پالیسی سازی یا تربیت کا عمل سونپا جاتا ہے، جو دوسرے تنظیموں کو قومی ادارے نہیں بلکہ انکو مقابلہ سمجھ کر پالیسی سازی کرتے ہیں، قابض اور اسکی طاقت سے چشم پوشی کرتے ہیں، عددی برتری کے لیئے قومی سوچ کونقصان دینا شروع کرتے ہیں، اگر قومی ادارے اور لیڈر اس سے غافل رہیں، تو یہ ادارے اس مقام پر قومی ادارے نہیں کہلائیں گے، کیوںکہ انکی قومی سوچ، قومی تحریک کے لوازمات سے ہم آہنگ نہیں ہوگی اور وہ اینٹ جو عمارت کو توڑنے کے لیئے کام آئی تھِی، وہی تقسیم قابض ریاست کے اداروں کو قومی تحریک میں نظر آئے گی اور یہیں سے وہ حملہ آوار ہوگی۔ ریاستی حملے کیلئے ادارے تیار تھے اور قومی سوچ کی کمی محسوس کر کے فوری طور پر عوام اور کارکنوں کو قومی سوچ سے لیس کرکے ان اجزاء کو جن سے تحریک بنی ہے، قومی سوچ کے مطابق ڈھلنے میں کامیاب ہوئے، تو ریاست کو پسپائی اور تحریک کو کامیابی نصیب ہوگی۔

بلوچ قوم کی صلاحیتوں میں کبھی کمی نہیں رہی بلکہ انفرادی حوالوں سے بلوچ نوجوانوں نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ تحرک سے وابستہ تنظیمیں آج ریاستی جبر و قبضہ گیریت کو چیلنچ کر رہے ہیں۔ آج اگر قوم اور قومی تحریک کو ضرورت ہے تو وہ ایک قومی سوچ اور قومی ادارے کی ہے۔ جس میں تمام بلوچ قیادت مل بیٹھ کر قوم اور قومی تحریک کے معاملات اور ضروریات کو قومی سوچ سے حل کریں۔ قومی پالیسی ساز اداریں تشکیل دیں۔ ایسا ادارہ جہاں پر ناراض بھی ہوں خوش بھی ہوں، گلے بھی کریں، شکوہ بھی کریں، سیاسی بحث و مباحثے بھی ہوں۔ جس میں ہر رہنما ہو، ہرتنظیم کی نمائندگی ہو، جوقومی سوچ کو فروغ دے، بلوچستان کی آزادی تک اور اسکے بعد بھی، ایک ایسا ادارہ جو قومی ہو، جوبلوچ ماووں اور بہنوں کو وارث ہونے کا احساس دلادے، جس سے جہدکاروں کوحوصلہ ملے، قومی یکجہتی پروان چڑھے۔ جس پر آنے والی نسلیں ناز کریں۔