طبقاتی سیاست اوربلوچ قومی تحریک۔ نادر بلوچ

296

طبقاتی سیاست اوربلوچ قومی تحریک

تحریر: نادر بلوچ

قومی تحریک میں اگر ایک طرف اتحاد و یکجہتی کی خواہش رکھیں اور دوسری طرف طبقاتی اور علاقائی سوچ کو بھی فروغ دینے کی کوشیش کریں تو پھر قومی یکجہتی بہت دور نکل جاتی ہے۔ طبقاتی اور علاقائیت سے نکل کر ہی قومی تشکیل کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ ایسی محدود سوچ وقتی طور پر شاید عوام اور ساسیی کارکنوں کو ورغلانے میں کامیاب ہو، مگرزیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ قومی سوچ بلآخر اپنا راستہ تلاش کر ہی لیتی ہے اور کارکن اور عوام عمل کو دیکھتے ہیں۔ محدود اور تنگ نظر سوچ دم توڑ دیتی ہے۔ بلوچ قومی سوچ کی تشکیل میں رکاوٹ وہی لوگ ہیں، جو ستر کی دہائی سے اس قومی تحریک کو طبقاتی مباحثوں میں الجھانے کی کوشیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ بلوچ قوم اور سیاسی کارکن اس بات کو اب کافی حد تک سمجھ چکے ہیں کہ یہ جنگ کسی ایک طبقے کی جنگ نہیں بلکہ بلوچ قوم میں شامل تمام طبقات، اس جہدوجہد میں شامل ہیں۔ اسی لیئے اسے قومی تحریک ہی کہا جاتا ہے، لیکن ایک مخصوص سوچ مسلسل پاکستانی طرز سیاست کی طرح بلوچ قومی تحریک کو کسی ایک علاقے یا طبقے کی جدوجہد قرار دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ اگر ہم حقائق کا جائزہ لیں تو اس وقت کوئی تنظیم الگ رہ کر بلوچستان کے تمام علاقوں میں اپنی شناخت ظاہر نہیں کرسکتا کیوں کہ ہم قومی تشکیل کے اس عمل تک نہیں پہنچ پائے ہیں ۔

جس طرح ریاست پاکستان اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ بلوچ قومی جہد کو صرف مخصوص طبقے سے جوڑا جاہے بلکل اسی طرح قومی تحریک میں شامل ایک مخصوص گروہ بھِی انہی کوششوں میں ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو ایک ہی طبقے کے نام کیا جائے۔ اسکی بنیادی وجہ جو سمجھ میں آتی ہے، وہ قومی سوچ و فکر کا فقدان ہے۔ جب قومی سوچ نہیں ہوگی تو علاقائی اور طبقاتی سوچ ہی کو تنظیمیں اپنے بقاء کے لیئے استعمال کرتی ہیں اور آج بلوچ قومی تحریک کو اسی سوچ سے خطرات درپیش ہیں۔ مگر منفی سوچ ہمیشہ مٹ جاتی ہے اور تحریک اس مرحلہ سے آگے بڑھ جاتی ہے۔

جدوجہد میں شامل کسی ایک طبقے یا تنظیم کو نشانہ بنانا، کسی ایک گروہ یا طبقے یاتنظیم کی پالیسی ہوسکتی ہے مگر قومی سوچ ہرگز نہیں ہوسکتی جبکہ انقلابی تحریک سے خود کو جوڑنے کےلیئے ضروری ہے کہ قومی سوچ و فکر کی تشکیل اور فروغ کے لیئے کام ہو، تب ہی قومی آزادی ممکن ہو پاتی ہے اور اسی سوچ سے ہی ملک اور قوم ترقی کے منازل طے کرتی ہے۔ اب تک قومی سوچ و فکر کے حوالے سے متعلق کوئی سلیبس موجود نہیں، جو ہے وہ شہدا اور انکی زندگی ہے، جس کو انہوں نے کسی خاص طبقے، تنظیم اور گروہ کے لیئے قربان نہیں کیا بلکہ قومی سوچ و فکر کے تحت اس قومی جہد کے لیئے قربان کی۔ قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیئے ان ستر سالوں میں عظیم سے عظیم قربانیوں کی تاریخ لیئے ہوئے کسی بھِی قومی ادارے کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ کامیاب ہوں بھی تو کیسے؟ جب خود ہی تنظیموں اور لیڑرشپ کو متنازعہ بناتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مزید تقسیم درتقسیم کا شکار ہوتے گیئے ہیں۔

حد تو تب ہوا جب ایک وقت قومی گلوکاروں  کو بھی نہیں بخشا گیا، اس منفی سوچ کے ذریعے گروہ اور طبقاتی تقسیم کا شکار بنایا گیا۔ بنیادی وجہ یہی ہے کے ہماری سوچ وقتی اور سطحی ہے۔ کسی کو قومی بننے ہی نہیں دیتے نہ اداروں کو نہ لیڈروں کو۔ جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قومی تحریکیں وقتی اور سطحی سوچ کے ساتھ دیرپا اور پراثر ثابت نہیں ہوتیں۔ اس میں سیاسی کارکن یا عوام کا کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ ان تنظیموں اور پارٹیوں کی لیڈرشب ذمہ دار ہوتی ہے۔ جو سیاسی کارکنوں اور عوام کو طبقاتی بحث میں الجھاتے ہیں اور قومی تحریک کو طبقاتی قرار دیتے ہیں اور قومی سوچ کے فروغ میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔

طبقاتی اور علاقائیت پر مبنی سوچ قومی تحریک میں تخریب کا سبب بنتی ہے جسکی وجہ سے اس طبقے کے سوچ کا شمار منفی سوچ میں ہوتا ہے۔ اسکا مشاہدہ ہم تنظیمی قیادت کے سرکلز، رسالوں، تحریروں اور تقریروں میں کر سکتے ہیں۔ جس میں وہ قوم کے مختلف طبقات پر سوال اٹھاتے ہیں اور اپنی من چاہی تعریف کرکے خود کو یا اپنی تنظیم اور پارٹی کو کل تحریک بنا کر غیرضروری طور پر خود کو اعلیٰ پیش کرتے ہیں۔ جبکہ قوم کی تعریف ہی تمام طبقات کی نمائیندگی سے بنتی ہے اور اسی طرح قومی تحریک بھی اسی کو کہتے ہیں جس میں تمام طبقات کی نمائیندگی ہو۔عوام اور سیاسی کارکن تنظیمی پالیسیوں کو پرکھتے ہیں اور اسی پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔

بلوچ قومی تحریک کو آج ایک بار پھردانستہ یا غیردانستہ طور پرطبقاتی ظاہر کرنے کی کوشیش کی جارہی ہے، اسکو ہم دو طرح سے دیکھ سکتے ہیں ایک تنظیمی اور پارٹی سطح پر جسکی مثال تنظیمی برتری کی کوشش ہے اور دوسری جانب شخصی اور طبقاتی تقسیم کے زریعے سے جانے انجانے میں قومی سوچ اور تشکیل کے مرحلے میں داخل ہونے کے سامنے رکاوٹ بن رہے ہیں۔

اب جبکہ موجودہ قومی تحریک میں بلوچ قومی قیادت کے پاس تنظیمی شکل میں تحریک موجود ہے، اس وقت یکجا ہوکر واحد مقصد آزادی کے لیے نظریاتی کارکن قومی اداروں کی کوشش کر رہے ہیں، ایسے موقع پر سیاسی قیادت کے خلاف مختلف قسم کے محاذ کھول کر زہریلہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ان کوششوں میں وہی طبقہ ملوث ہے، جو قومی تحریک کو طبقوں میں بانٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ کھبی ریاستی میڈیا کے پروپگنڈے کو جواز بنا کر تو کھبی غیر معلوم ذرائع کے نام پر بلوچ لیڈروں کو بدنام کرکے اپنے گروہی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

اس گروہ نے بلوچ سیاسی تنظیموں اور ان سے منسلک اداروں کو بلوچ سیاسی قیادت کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں شامل تمام تنظیمیں اس وقت ریاستی عزائم کو ناکام بنانے میں لگی ہوئی ہیں اور قومی یکجہتی کی فروغ کے لیئے کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ ان عزائم کو کسی سیاسی تنظیم سے جوڑنا اسوقت مناسب عمل نہیں ہوگا کونکہ تمام تنظیموں میں قومی سوچ اور فکر کو پروان چڑھانے والے لاتعداد سیاسی کارکن موجود ہیں۔ ان دوستوں کی زمہ داری بنتی ہے، عظیم مقصد کے لیئے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور بلوچ قومی سوچ و فکر کو آگے بڑھانے کے لیئے کردار ادا کریں تاکہ موثر اندازمیں بلوچ قومی تحریک کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔