صورت خان مری کیساتھ ایک غیر رسمی نشست

1622

دی بلوچستان پوسٹ کا بلوچ دانشور صورت خان مری کیساتھ ایک غیررسمی نشست

صورت خان مری ایک مایہ ناز بلوچ دانشور ہیں، بلوچ سیاسی حلقوں میں آپکی رائے اور تحریروں کو احترام اور سنجیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اپنے بے باک اور تنقیدانہ انداز تکلم و تحریر کی وجہ سے کئی دفعہ صورت خان مری سے خفگی کا اظہار بھی ہوتا رہا ہے اور انہیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن وہ اپنی رائے بغیر لگی لپٹی کے دو ٹوک الفاظ میں رکھتے ہیں۔

حالیہ دنوں بلوچ سیاست میں ستائیس مارچ کے تاریخی اہمیت اور پس منظر پر ایک بحث اس وقت چھِڑی جب بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر براہمدغ بگٹی نے ستائیس مارچ کو پورے بلوچستان پر قبضے کے دن کے حیثیت سے ماننے سے انکار کردیا، جس کے بعد باقی تمام تنظیموں و لیڈران نے اسکی مذمت کی۔ اسی حوالے سے صورت خان مری کی رائے جاننے کیلئے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے ان سے ملاقات کی۔

صورت خان مری نے ستائیس مارچ سمیت دوسرے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جو دی بلوچستان پوسٹ انکے اجازت سے تحریری شکل میں شائع کررہی ہے۔

صورت خان مری:

ستائیس مارچ کے حوالے سے براہمدغ کی جانب سے الگ بات سامنے آتی ہے اور دوسروں کی طرف سے کوئی اور موقف آتا ہے، بہرحال اہم بات یہ ہے کہ کسی یوم کے منانے یا نہ منانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟

اس طرح کے یوم پتہ نہیں پاکستان کتنے مناتا ہے، کبھی کہتے ہیں 27 رمضان یوم پاکستان ہے، تو کبھی کچھ کہتے ہیں۔ ایک کہانی مشہور ہے کہ زمانہ قدیم میں عیسائیوں کے کسی علاقے پر مسلمانوں نے حملہ کرکے گھیر لیا تھا، جبکہ عیسائی پادری اس دوران بحث میں مصروف تھے کہ حضرت عیسیٰ کا پیشاب حلال ہے یا حرام۔

بہرحال 23 مارچ کے حوالے سے تاریخی دستاویزات یہی کہتے ہیں کہ کراچی میں لیاقت علی خان کے سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا تھا، جس میں ان کے سیکرٹری خارجہ، سیکرٹری دفاع، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور تینوں افواج کے سربراہان میٹنگ میں موجود تھے۔ اجلاس کے دوران ان سب نے بلوچستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کا اپنا اپنا رپورٹ پیش کیا۔ فضائیہ نے رپورٹ دی کہ ہم نے تربت، پنجگور وغیرہ پر قبضہ کرلیا ہے، بحریہ نے کہا کہ ہم نے اورماڑہ اور پسنی ایریا پر قبضہ کرلیا ہے، بری فوج نے رپورٹ دی کہ ہم نے کوئٹہ، قلات پر قبضہ کرلیا ہے۔ جب پاکستانی افواج نے یہ علاقے اپنے قبضے میں لے لیئے اور اعلانات ہوگئے، تب خان قلات نے دیکھا کہ پورا بلوچستان پر تو قبضہ ہوگیا ہے، پھر وہ سرنڈر ہوکر 27مارچ کو الحاق نامے پر دستخط کرتے ہیں۔

یہاں ایک بات 23مارچ اور27مارچ کے حوالے سے واضح ہوگئی کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے اجلاس طلب کی، بحری اور بری افواج نے اپنے پروگریس رپورٹس پیش کیئے، تب جاکر 27مارچ کو خان قلات نے الحاق نامے پر دستخط کیئے۔

بہرکیف دیکھنا یہ ہے کہ آج حقیقت میں ذمینی حالات کیا ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بحثیت غلام آپ کوئی دن مناتے ہیں یا نہیں مناتے، کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ دن کو منانے یا نہ منانے کا بحث اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا ہے۔

آج اٹامک ہتھیاروں سے لیس اور دنیا کی چھٹی بڑی فوج اعلانیہ کہہ رہی ہے کہ چھ ماہ سے ہماری پوری توجہ بلوچستان پرہے، وہ چھ مہینے کہہ رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں گذشتہ 70سال سے ان کی پوری توجہ بلوچستان پر ہے۔ وہ خود مان رہے ہیں کہ ان کی توجہ بین الاقوامی فورمز پر ہے۔ جبکہ ہم یہاں بیٹھ کرایک دوسرے سے لا حاصل بحث مباحث میں مصروف ہیں، اس کی مثال ان عیسائی پادریوں کی طرح ہے، جن کو مسلمان گھیرے ہوئے تھے اور وہ بحث میں مصروف تھے کہ حضرت عیسیٰ کا پیشاب حلال ہے یا حرام۔

آج بحث کی ضرورت اس بات پر ہے کہ آپ مِل کر بیٹھیں اور اپنی حالت دیکھیں کہ آپ یہاں تک پہنچے کیسے، آپ کو اپنے داخلی حالات کے بابت سوچ و بچار کرنا چاہیئے، کہ آج آپ کی حالت کس نہج پہ ہے، اس نہج پر ہم کیوں آگئے؟ ہمیں ان وجوہات کو ڈھونڈنا چاہیئے۔

کیتولینیا کے 92 فیصد عوام نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا، کردوں کے 95 فیصد نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ یورپ نے دونوں کی مخالفت کی۔ عراق اور شام خودمختار و آزاد ریاستیں ہیں۔ ترکی آکر شام اور عراق میں کردوں پر حملے کرتا ہے، کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ کرد کیوں ناکام ہوئے؟ اگر ہم کلاس تحریکِ آزادی یا فینن وغیرہ کے رو سے دیکھیں تو کردوں کو حق ہے، ان کے پاس آرگنائزیشن ہے، مضبوط مسلح محاذ ہے، لیکن اگر نہیں ہے تو اتفاق نہیں ہے، وہ تقسیم ہیں۔ پی کےکےاپنی جگہ پر، شامی کرد اپنی جگہ پر، عراق میں پھر سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ ایک گروہ نے صدارت سنبھال لی ہے۔ عراق میں صدارت سنبھالنے والی پارٹی نے اگر صدارت قبول نہیں کی ہوتی تو آج کرد آزاد ہوتے۔ تو آج ان چیزوں پر بحث ہوسکتی ہے۔

یہ ایسے موضوع ہیں کہ ان پر بحث ہوسکتی ہے، انکی ایسی حالت کیسے ہوئی؟ ہم میں سے ہر کسی کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ میرا کردار کیا ہے؟ اب جبکہ فوج پوری طاقت میں ہے، چھ مہینے سے نہیں بلکہ وہ شروعات سے پوری طاقت میں ہے۔ اب حالات کس جانب جارہے ہیں۔

دعویٰ تو سب کرتے ہیں، جیسے کہ ہمارے ادیب قبیل کے لوگ دعویں کرتے رہتے ہیں، جن کے پاس رسم الخط تک موجود نہیں ہے لیکن دعویٰ کرتے ہیں کہ جی آج ہمارے افسانے دنیا کے بہترین افسانوں کے مقابل میں ہیں یا بلوچی ادب و بلوچ ثقافت فلاں ہیں۔ خود کو دھوکہ دینے کیلئے ہم سب باتیں بہت کرتے ہیں۔

نواب خیر بخش جب 1992 میں واپس آیا تو بہت سے جگہوں پہ تقاریر کرتے تھے، ان کی بات یہی ہوتی تھی کہ “آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم کہاں کامیاب ہوئے اور کہاں ناکام اور کیوں ناکام ہوئے۔” آج ہم دوبارہ بحث کررہے ہیں لیکن کیا حقیقت میں ہم اس قابل ہیں کہ ان پر عمل بھی کریں؟ ہم کیونکر عمل نہیں کرپاتے ہیں؟ بحث مباحث تو ہوگئے، نواب خیربخش نے بحث کیئے، بی ایس او نے کیئے ، خلیل نے کیئے، سب نے بحث کی لیکن ان پر عمل نہیں ہوا۔ عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہم کردوں یا پشتونوں کی طرح ناکام ہیں۔

گو کہ پشتون نے بہترین لڑائی لڑی ہے۔ چاہے وہ طالبان کے نام پر ہو، یا فاٹا کے نام پر اور اب وہ جاگ گئے ہیں اور اپنی بات کھل کر کررہے ہین، اچھی بات ہے۔ پشتون کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پانچ سے دس لاکھ لوگ مرے ہیں لیکن مجھے پتہ نہیں کہ پشتون آپس میں یہ بحث کرتے ہیں یا نہیں کہ یہ آپریشن ان پر کیوں ہوئے؟

میں نے 1989 میں لکھا تھا کہ پشتونوں کو مار پڑے گی، بلکہ انہیں مار پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ ایک طرف گلف سے انہیں نکالا جارہا تھا اور یہاں پاکستان میں مہاجروں کی صورت میں ٹرانپسورٹ کرکے بھیجا جارہا تھا۔ عزیز نور نے مجھ سے اس وقت اتفاق نہیں کیا تھا۔ میں نے کہا تھا فاٹا کو انہوں نے فلحال صرف فوجی نقطہ نگاہ سے چھوڑا ہے۔ بلوچستان پر فوجی کاروائی اسی لیئے کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل جائے اور فاٹا پہ فوجی کاروائی اس وقت کیا گیا جب وہ پاکستان میں شامل تھے، بنامِ دہشت گردی ان پر کاروائی کی گئی۔

ہمارے ہاں لوگ کہتے ہیں کہ “جی انتہاء پسندی ہے، دہشت گردی ہے۔” دہشت گردی یا انتہاء پسندی کیا ہیں؟ میں نے خود نواب خیربخش سے دہشت گردی طالبان و القاعدہ کے متعلق پوچھا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ طالبان اگر نماز پڑھتے ہیں، اسلام کو لانا چاہتے ہیں تو وہ ان کا مسئلہ ہے لیکن طالبان کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ “میرے وطن سے نکل جاؤ، یہ وطن میرا ہے۔ میں طالب بن جاؤں، سوشلسٹ یا کمیونسٹ بن جاؤں وطن میرا ہے، تمہیں کوئی لینا دینا نہیں۔” سوشل ڈیموکریسی اسی کو کہتے ہیں۔ سوشل ڈیموکریسی مصر کے السیسی کو تو نہیں کہتے ہیں، جہاں اخوان جیت گئے لیکن السیسی دوسری دفعہ قبضے کے بعد سے زبردستی صدر بن رہا ہے۔

جب آغا عبدالکریم کی بغاوت ہوئی تھی تو اس وقت، سیاستدانوں نے ان کی حمایت نہیں کی، ان سیاستدانوں میں غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر اور نواب مری سمیت بڑے بڑے نام شامل تھے لیکن جنہیں ہم انتہاء پسند ملا کہتے ہیں یا جنہیں ہم قبائلی بلوچ کہتے ہیں، اس وقت انہی ملاوں اور قبائلیوں نے آزادی کیلئے آغا عبدالکریم کا ساتھ دیا تھا۔ اسی طرح نواب نوروز کا ساتھ کسی سیاستدان نے نہیں دیا۔

ساٹھ کی دہائی میں پھر سے مری، بگٹی اور مینگل تک ہی تحریک محدود رہی ۔ اسی طرح ستر کی دہائی میں کچھ بہتری آئی تھی۔ سنہ دوہزار میں شروع ہونے والی تحریک عالمی سطح پر اہم قرار پایا لیکن اسے سبوتاژ کیا گیا۔ سبوتاژ ڈاکٹر مالک نے کی۔ جس کے بدلے میں اب اسے تمغہ امتیاز، بنگلہ اور بلٹ پروف گاڑیاں ملیں ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حقیقی مسائل یہ ہیں، یہ ہرگز حقیقی نہیں کہ ہم جھگڑا کریں کہ یکم اپریل، اپریل فول ہے یا 23 یا 27مارچ یہ ہے، وہ ہے۔ ان موضوعات پہ بات کرنا فضول ہے، وقت کا ضیاع ہے۔

واجہ براہمدغ اپنی بات کہنے میں آزاد ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں ان چیزوں پہ بات کرنا اپنی توانائیاں ضائع کرنا ہے اور یہ موقع نہیں ہے ان پر بحث کرنے کا۔ اب جبکہ وہ (دشمن) پوری طاقت میں ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے، میں کیا کرسکتا ہوں یا کیوں نہیں کرسکتا ہوں؟ میں پھر سے دہرانہ چاہونگا کہ ڈیرہ غازی خان تک میرا پیغام نہیں پہنچا، مظفر گڑھ تک میرا پیغام نہیں پہنچا، جنہیں ہم بلوچ علاقے کہتے ہیں، وہاں تک میراپیغام نہیں پہنچا تو کیوں نہیں پہنچا؟ ان مسئلوں پر غور نہیں کرتے، بحث نہیں کرتے۔

حیربیار اور مہران کے درمیان اختلافات کیا ہیں؟ ایک دوسرے کو انہوں نے کیوں مارا؟ ایک دوسرے کے بہت سے قیمتی لوگوں کو مارا۔ پھر ایک دن بیان آیا کہ راضی نامہ ہورہا ہے۔ تو وجوہات کیا تھیں؟

ایک زمانے میں یوسف عزیز کرد، یوسف عزیز مگسی، گل خان نصیربھی آزادی پسند تھے۔ تو ایک نے کہا قلات کی خانیت بحال ہوجائے، دوسرے نے کہا نہیں سوشل ڈیموکریسی ہونی چاہیئے۔تو جو بھی چاہے ہوجائے، خانیت ہو یا سوشل ڈیموکریسی یہ دونوں ثانوی مسائل ہیں، بنیادی مسئلہ اپنی آزادی حاصل کرنا ہے۔

میرے نزدیک آزادی کی تحریکوں میں بنیادی چیز یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کلاسک خیال ہے، جسے فینن سمیت دوسروں نے بھی پیش کیا ہے، وہ ایک پولیٹیکل پارٹی ہے، پہلے تم خود کو آرگنائز کرو۔ ان کا کہنا تھا کہ “آپ اپنی پارٹی اتنا مضبوط کرو کہ اگر وہ ہڑتال کی کال دیں، تو ایک پتہ بھی نہ ہل سکے، بیشک آپ پرامن تحریک چلائیں، لیکن اگر وہ اینٹ پھینکیں، تو آپ اس کا جواب پتھر سے دے سکیں۔”

گاندھی جی نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ‘اگر کوئی اور راستہ نہیں بچتا ہے اور آزادی صرف تشدد سے حاصل ہوگی، تو میں اسکا حمایت کرونگا۔” اسکا مطلب یہ ہوا کہ گاندھی بھی اپنے عدم تشدد فلسفے سے زیادہ ترجیح آزادی کو دیتا تھا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس قومی سیاسی آرگنائزیشن نہیں ہیں، اور دوسرا مسئلہ یہ کہ ہمارے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر رہنمائی نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہم غلامی کے ستر سال بعد ان موضوعات پر بحث کررہے ہیں، اس حوالے سے نواب مری نے کراچی آرٹس کونسل کے اپنے ایک تقریر میں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم جو بحث آج کررہے ہیں، اس سے ہمیں اپنے سیاست کی ابتداء کرنا چاہیئے تھا، ابتداء کی چیز ہم انتہاء میں کرنا چاہ رہے ہیں۔”

جس پر واجہ براہمدغ آج بات کررہا ہے، اسے اپنے پارٹی کے ابتدائی نریٹیو (بیانیے) میں شامل کرنا چاہیئے تھا۔ ہمارے پاس نیریٹیو کا فقدان ہے۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ یہ جو پانچ جگہوں پہ لڑرہے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نظر اپنی جگہ پراور مہران مری اپنی جگہ پر، باقی اپنی اپنی جگہوں پر، ہر کوئی عرب کی طرح اپنے اپنے علاقے میں ریاست کے ساتھ اپنے طریقے سے لڑرہا ہے۔ فرض کریں، کل کو ان میں سے ہر کوئی اپنے اپنے علاقے میں الگ آزاد ریاست کا اعلان کردے پھر ان کو کون روک سکتا ہے؟ ان کا کنٹرول کس کے پاس ہے؟ کوئی آرگنائزیشن تو ہے نہیں کہ سب اسکے ماتحت ہوتے، جو انہیں کنٹرول کرتا۔

مجھے نہیں معلوم کے ڈاکٹر اللہ نظر کے تنظیم کا کنٹرول کسی فرد یا کسی گروپ کے ہاتھ میں ہے، لیکن سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اسی طرح مہران اور حیربیار کے ہاتھ میں تنظیم کا کنٹرول ہوسکتا ہے لیکن سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ نا ان کے پاس ایک جماعت ہے اور نا ہی ایک بیانیہ ( نریٹو) ہے۔ اگر یہ نقاط ابتداء میں ترتیب دیئے گئے ہوتے تو آج یہ وجہ تنازع نہ بنتے۔ بس آج یہ سب اہم مسئلوں کو چھوڑ کر بالکل غیر ضروری چیزوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ بلکل غیر متعلقہ باتیں کی جارہی ہیں، براہمدغ وغیرہ کو کوئی اور کام نہیں ہے۔

اصل میں قلات اسٹیٹ کا مطلب ہی بلوچستان ہے۔ سب سے بڑا خان، خان نصیر خان اپنے نام کے ساتھ خان بلوچ لکھتا رہا ہے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا، بلوچستان نام کب رکھا گیا؟ بابا یہ بے معنی بات ہیں، معنی خیز بات یہ ہے کہ آج یہ بلوچستان ہے۔

یہ بحث کب کے ہوجانے چاہیئے تھے اور ختم ہوجانے چاہیئے تھے، جیسے کہ نواب خیربخش نے کہا تھا کہ ان سے ہماری سیاست کی ابتداء ہونا چاہیئے تھا ہم انتہاء پر آکر کررہے ہیں، اگر پھر بھی اگر بحث کرنی ہے، تو نفرت و عداوت کے بجائے تحریری طور پر دستاویزات اور حوالہ جات کے ساتھ ہونا چاہیئے، پھر بھی میں کہونگا آپ کی پوری توجہ تنظیم ہونا چاہیئے، لیکن میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ آپ کے بقا کے حوالے سے تدابیر کیا ہیں؟ جبکہ وہ تمہیں ختم کرنا چاہتا ہے، تمہیں آبادی کی شکل میں ختم کرنا چاہتا ہے یا کسی اور طریقے سے ختم کرنا چاہتا ہے۔ آج جبکہ وہ اعلانیہ کہہ رہا کہ ہماری پوری توجہ ایران، افغانستان، طالبان یا انڈیا پر نہیں ہے بلکہ بلوچستان پر ہے۔ ایسے وقت میں اہم بات بقا ہے اور آپ کس بحث میں لگے ہیں۔

سولہویں صدی میں انگریزوں کو یہ محسوس ہوا کہ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے، تو ہمیں ہیٹروجینئس سماجی خصوصیات اپنانے ہونگے، نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے ریسرچ کی، ان کی نیشنل ازم، سیوک نیشنل ازم ہے۔ تمام چیزوں میں فرق ہے، اگر آپ آج یورپ کو دیکھیں، تو انہوں نے برائے نام بادشاہ رکھا ہوا ہے۔ لیکن جہاں ہیٹروجینئش سوسائٹی ہیں، وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی بنیاد سیاسی گروپ یا آرگنائزیشن پر رکھی گئی ہے، کوئی مغرب سے آیا ہے تو کوئی مشرق سے، کوئی شمال اور کوئی جنوب سے آیا ہے، کوئی سکھ ہے تو کسی نے خود سے ایک قوم بنادیا ہے۔

اب بقا کیلئے مسلح جدوجہد کے علاوہ پتہ نہیں اور کیا راستہ بچتا ہے ہے۔ ہاں! پریشر گروپس کسی تحریک میں بہت اہم ہوتے ہیں، یہ یہی طلباء ہوتے ہیں زیادہ تر، پریشر گروپس آج وجود نہیں رکھتے، انکو ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل نے کامیاب ہونے نہیں دیا۔ ایک وقت، کسی میٹنگ میں جہاں عطاء اللہ مینگل اور خیربخش مری بھی موجود تھے، یہ کہا گیا کہ نواب مری نے شریف لوگوں کو کاٹنے کیلئے کتے پال رکھے ہیں، جو ہر آنے جانے والے کے پیروں پر کاٹنے ہیں، ان کا اشارہ بی ایس او کی جانب تھا، جو بطور ایک پریشر گروپ موجود تھا، ان کا اتنا پریشر تھا، لیکن آج اس کا وجود نہیں ہے۔

ڈاکٹر اللہ نظر کو میں نہیں جانتا ہوں، نا کبھی اس سے میری ملاقات ہوئی ہے، نا کبھی بات، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاہوں، لیکن یہ جو باقی تین چار افراد ہیں، جن میں حیربیار، براہمدغ ، جاوید اور مہران شامل ہیں، یہ بس ایسے ہی پروفیشنل بندے ہیں۔ یہ براہمداغ کو اگر رحمان ملک “ِمس ہینڈل” نہیں کرتا، تو وہ کب کا واپس چلاجاتا۔ وہ تو بس نواب اکبر خان بننا چاہتا ہے۔ اس نے تو پارٹی ریزولیشن لکھا ہے کہ مجھے نواب بنایا جائے۔ یہ لوگ ایڈونچرسٹس ہیں۔” ایسے ایڈونچرسٹس ہیں نا جو” کے-ٹو” پہاڑ سر کرنا چاہتے ہیں، وہ پہاڑ سَر کرکے پھر واپس آجاتے ہیں نا، کبھی کبھار راستے میں مربھی جاتے ہیں۔ یہ بس ایڈونچرسٹس ہیں۔ براہمدغ بارے میں تو کہتے تھے کہ یہ واپس آنے کیلئے تیار تھا۔

بلوچوں کے کچھ لیڈروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ باہر ہیں، لیکن وہ باہر گئے ہی کیوں ہیں؟ باہر تو ویتنام والے بھی گئے، کاسترو بھی گیا لیکن ان کے جانے اور براہمداغ و حیربیار کے باہر جانے میں فرق ہے۔ اس فرق کو ہمیں دیکھنا چاہیئے۔

اصل بات یہ ہے کہ باہر کیوں گئے، دنیا کے باقی لیڈران اگر باہر گئے تو ایک مقصد یا پارٹی فیصلے کے تحت گئے، نیلسن منڈیلا سمیت بہت سے لوگ پارٹی فیصلے کے تحت ایک مقصد سے باہر گئے تھے، مقصد پورا ہونے کے بعد، یہ واپس آئے تھے اور اپنے ملک میں تحریک کیلئے کام کیا تھا لیکن ایسا نہیں باہر جاکر براجمان ہوا جائے۔ یہ بس باہر کے ہوکر رہ گئے۔

ہم پروپیگنڈہ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، دنیا میں پہلے واقعہ ہوتا ہے پھر خبر کا پروپگینڈہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں خبرپہلے بنتا ہے اورواقعہ بعد میں ہوتا ہے یا واقعہ ہو یا نا ہو پروپگینڈہ ہوتا ہے، دعویٰ ہوتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر امداد والوں نے پہیہ جام کا اعلان کیا تھا، اس وقت ہمیں واقعے کاشوق تھا، تو ہم باہر نکل آئے کہ دیکھیں کیا ہورہا ہے، کیا نہیں۔ تو میں یونیورسٹی کے سامنے گیا، دیکھا کہ ٹریفک نارمل ہے۔ آگے فیروز لہڑی کے گھر کے سامنے ایک براہوئی بولنے والا نوجوان پتھرپھینک کرٹریفک کو روکنے میں مصروف تھا، کسی سے بول رہا تھا کہ ہمیں یہاں خوار کرکے خود ہوٹلوں میں آرام کررہے ہیں۔ میں واپس آیا تو دیکھا، یہ امداد گروپ اب صبح کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے نیند سے اٹھنے کے بعد تیار ہوکر شہر کا جائزہ لینے کیلئے گاڑی کا بندوبست کررہے تھے۔ دوسرے دن اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ جی پہیہ جام ہڑتال کامیاب ہوگیا۔

میں سمجھتا ہوں انکی (پاکستان) یہی کوشش ہے کہ ملیٹنسی(مسلح مزاحمت) کو مٹائیں۔ اگر ہم ستر کی دہائی کو دیکھیں، تب پاکستان نے ملیٹینسی کو بھگایا تھا، کوئی افغانستان تو کوئی ایران چلا گیا، آج دوبارہ پاکستان یہی کوشش کررہا ہے کہ ملیٹینسی کو ختم کیا جائے یا پھر باہر نکال دیا جائے۔ اب بھی مزاحمت کاروں (ملیٹینٹنس) کی گراؤنڈ پر کم تعداد بچی ہے، جنہیں تورہ بورہ جیسی بمبارمنٹ سے ختم کرنا پاکستان کیلئے مشکل نہیں ہوگا اور میرے خیال میں پاکستان ایسا بھی کریگا۔ حالات کو ستر کی دہائی کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن بلوچ ملیٹینسی(مزاحمت) پسپا ہونے کی صورت میں پھر اٹھے گا۔