سبی، لہڑی اور قلات سے مزید درجنوں بلوچ لاپتہ۔ بی این ایم

177

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں پاکستانی فوج کی جانب سے آپریشن، ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سبی اور لہڑی کے مختلف علاقوں سمیت کیلکور، دشت، واشک اور مشکے میں شدید نوعیت کی فوجی بربریت میں کئی لوگ لاپتہ کئے جا چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ضلع سبی اور لہڑی میں تازی، ریلو میا، ریلو گلابو، گوڑی اور بمبور سے متصل کئی علاقوں میں آپریشن کی ایک نئی فیز شروع کی جا چکی ہے۔آج تین اطراف لہڑی،سبی اورڈیرہ بگٹی کے راستوں سے بڑی تعداد میں فوج بمبور میں داخل ہوچکی ہے ۔دس ہیلی کاپٹر اور سوسے زائد اونٹ بھی فوج کے ساتھ ہیں۔ان علاقوں میں مالدار طبقے کے لوگوں کی بڑی آبادی رہتی ہے ۔ہمیں شدید خدشات ہیں کہ پاکستانی فوج ان علاقوں میں بڑی خون ریزی کررہی ہے ۔علاقے دور دراز اور مواصلاتی نظام بندہونے کی وجہ سے نقصانات کی اصل تعداد تک رسائی ممکن نہیں ہے ۔

جبکہ جمعہ کے روز ضلع قلات کے علاقوں ناگاؤ،نرمک،جوہان اورگرد نواع میں بھی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔

یہ پاکستانی فوج کا دستور بن چکاہے کہ جہاں جہاں بھی آپریشن اور بربریت کرنی ہے وہاں مواصلاتی نظام منقطع کردیتاہے تاکہ اصل حقائق عالمی دنیا تک نہ پہنچ سکیں ،تاہم پارٹی کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹر اِ ن علاقوں پر بے دریغ شیلنگ کررہے ہیں اورمتعدد افراد شہید ہوچکے ہیں اور بے شمار لوگ جن میں خواتین، بچے اوربزرگ شامل ہیں کو فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کیاہے ۔ان کے علاوہ پاکستانی فوج نے بے شمار گھرنذرآتش کئے ہیں ۔

ان علاقوں میں جبر وتشدد اور فوجی آپریشن کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ علاقے مسلسل فوجی آپریشن کی زد میں رہے ہیں اور سینکڑوں افراد یہاں سے اُٹھا کر لاپتہ کئے جا چکے ہیں۔ کئی افراد کی لاشیں پھینکی جا چکی ہیں۔ دور دراز علاقہ اورعالمی میڈیا کی عدم توجہی اور فوجی پابندیوں کی وجہ سے بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کی خبریں بھی دنیا تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کا کوئی علاقہ اس پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے قہر سے محفوظ نہیں مگر میڈیا، عدالت اور انسانی حقوق کے ادارے بھی وہی رٹالگارہے ہیں جو پاکستانی فوج یا آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان کی جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا بیانیہ بلوچستان کے بارے میں ہمیشہ جھوٹ پر مبنی ہوتاہیں جو بلوچستان میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور بلوچ نسل کشی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ ان جرائم کو دنیا کے سامنے لانے میں سوشل میڈیا نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ عالمی اداروں کو جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کرکے حالات کو قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنا فرض بخوبی نبھا کر مظلوم و محکوم قوموں کی نجات کا ذریعہ بن سکیں۔

ترجمان نے کہا کہ ضلع واشک کے علاقے کے راغے کے مختلف علاقوں شنگر ، تنکی اور گرد و نواح میں تیسرے روز فوجی آپریشن جاری ہے۔ دو بلوچ فرزندوں کو اغوا اور ایک بوڑھی عورت پر شدید تشدد کرکے بے ہوشی کی حالت میں گھر کے سامنے پھینک دیا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ سبی اور لہڑی میں تازہ ترین اطلاع کے مطابق مزید فوجیوں کا آمد جاری ہے۔ وہ سو سے زائد گاڑی اور سوسے زائد اونٹوں پر سوار عام آبادی کیجانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس خونی آپریشن میں مزید کئی افراد لاپتہ اور لقمہ اجل بن جائیں گے۔ پہاڑی علاقوں میں بلوچوں کا ذریعہ ماش زراعت اور گلہ بانی ہے۔ اس طرح انہیں ان علاقوں سے بے دخل کرنے کی پالیسی کی عمل درامد کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس سے پہلے بھی مکران، آواران، خاران، پنجگور، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سمیت کئی علاقوں سے عام آبادی کو فوجی آپریشنوں کے ذریعے ہجرت پر مجبور کیا جا چکا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے پاکستان کی دہشت گردی اورخون ریزی سے جنم لینے والے انسانی المیے پر نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عالمی اداروں کی خاموشی اور پاکستان کے بربریت و جنگی جرائم پر عملی اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے آج پاکستان مکمل طورپر ایک درندہ بن چکا ہے اور بلوچستان میں انسانی خون سے ہولی کھیل رہاہے ۔