جنرل باجوہ ڈاکٹرائن اور بلوچستان – نادر بلوچ

348

جنرل باجوہ ڈاکٹرائن اور بلوچستان

تحریر : نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ: کالم

بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک سے نبرد آزماء پاکستانی فوجی جنرلز کے نام بدلتے رہے ہیں، ستر سالہ اس تحریک میں ہر جنرل نے اپنی پالیسیوں کے ذریعہ بلوچ قومی تحریک آزادی کو زیر کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان کو کبھی بھی اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اگر ہم پھچلے دو دہائیوں کی پاکستانی جنرلز کی پالیسیوں کو بلوچ قومی تحریک کو زیر کرنے کی کاوشوں کو دیکھیں تو وہ ساری کی ساری پالیسیاں جی ایچ کیو میں بڑے آب وتاب کے ساتھ بنتے نظر آتے ہیں اور پھر میڈیا کے ذریعے جھوٹی تعریفوں کے شادیانے بجاتے ہوئے بلوچستان پہنچا دئے جاتے ہیں، پھر بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور کچھ ہی مہینوں میں قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کےلیئے بننے والی ڈاکٹرائن دم توڑ دیتی ہے اور بلوچ قومی تحریک زور پکڑتی ہے۔

جنرل مشرف کی لمبی ترین ڈکٹیٹرشپ میں بلوچستان کو پاکستانی ملکیت میں تبدیل کرنے کے لیئے جن غیر انسانی طریقہ کار کو بلوچستان میں اپنایا گیا، اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، اس پالیسی میں بلوچ رہنماوں کو شہید کرکے پاکستانی حاکمیت کو بحال کرنے کی کوشش ہوئی۔ شہید نواب اکبر بگٹی سے لیکرشہید بالاچ، شہید غلام محمد، شہید لالا مینر، شہید شیر محمد کو شہید کرکے سینکڑوں بلوچ رہنماوں کو عقوبت خانوں کا نظر کیا گیا، لیکن بلوچ قومی تحریک مزید فعال ہوتی گئی۔ بلوچستان میں سیاسی آوازوں پر قدغن لگائی گئی اور مسلم لیگ ق جیسی کٹھ پتلی فوجی سیاسی جماعتوں کو بلوچ استحصالی منصوبوں کو سیاسی نام دینے کے لیئے سامنے کیا گیا۔ قومی خزانوں کو چین اور پاکستان نے مال غنیمت سمجھ کر لوٹنا شروع کیا۔ مذہبی سرکاری جماعتیں تشکیل دیکر بلوچ قومی آواز کو غیروں کے اشاروں پر تحریک قرار دینے کی مکروہ کوشش ہوئی لیکن بلوچ قوم نے مشرف کی ان پالیسوں کو یکسر ناکام بنا دیا، نوجوانوں کی بے مثال قربانیوں نے پاکستانی فوجی عزائم کو لوہے کے چنے چبوائے۔

پاکستانی منظر نامے پرجنرل کیانی نمودار ہوئے، تو پھر میڈیا کے زہریلے پروپگنڈہ کے زریعہ بلوچستان کو زیر کرنے کی باتیں ہوئیں اس بار اور زیادہ بربریت کی پالیسی بنی اور مارو اور پھینکو جیسی غیر انسانی سلوک کر کے بلوچ نوجوانوں کو قومی تحریک سے دور کرنے کے لیئے قتل عام شروع ہوتی ہے اور پھر کیانی کے دور میں پیپلز پارٹی جیسی وفاق پرست پارٹی بھی بلوچستان میں جاری استحصالی منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشیش ناکام کرتی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے قصیدے سننے کو ملے، قتل عام بلوچستان میں جاری رہی، مگر اس بار نام نہاد قومپرست جماعت جو قوم پرستی کی آڑ میں وفاق پرست جماعت ہیں۔ چین کے ساتھ دستخطی مہم چلانے کے لیے سامنے لایا گیا، مگر شدید رسوا ہوئے اور بلوچ قومی تحریک عالمی سطح پر منظم ہوئی۔

بلوچ قومی تحریک اس وقت پاکستان کے لیئےایسی تلخ حقیقت بن چکی ہے۔ جوعالمی پالیسی سازوں کےنظرمیں آنےکےبعد بین القوامی سیاست کےساتھ ساتھ پاکستان کی وفاقی سیاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لےچکی ہے۔ آجکل جنرل باجوہ ڈاکٹرائن کا نوحہ پڑھا جا رہا ہے۔ ظلم و جبر پاکستانی فطرت کا حصہ ہے، جسکا استعمال غیر فطری حیثیت کو قائم رکھنے کے لیئے کیا جاتا ہے۔

پاکستان عالمی سازش کے تحت وجود میں آنے کے بعد سے ہی انسانیت کا خون بہنانے کا موجب رہا ہے مذہبی، قومی، فرقہ پرستی، کے نام پہ قتل عام اسکی ریاستی اداروں کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ جو جنرل جتنا زیادہ انسانی خون بہائے، قتل عام کرے اسکا اتنا بڑا نام ہوتا ہے۔ لیکن اسطرح کی جھوٹی تاریخ لیئے پاکستان کے وجود کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ جنرل باجوہ کی پالیسی بھی اپنے پیش رووں کی پیروی ہی ہے باقی ظلم و جبر جاری رہیگی لیکن اسکو سیاسی نام دینے کے لیئے الگ نام دیا جارہا ہے۔

بلوچستان میں ضمیر فروش وہی ہیں جو مسلم لیگ ق اور ن میں رہے ہیں۔ مگر باپ نامی پارٹی کی تشکیل سے اسکو بلوچوں کی جماعت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ چین اور پاکستان کے خرید و فروخت کو قانونی حیثیت اور جواز حاصل ہو، جبکہ بلوچ قوم پرستوں نے واضح کیا ہوا ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے بعد ان غیر قانونی معاہدوں کی کو قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ گوادر پروجیکٹ کی ناکامی پاکستان کے لیے تذلیل کا سبب بنا، جسکے بنا پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو مجبوراً پنجابی اکثریتی جماعت کو سیاسی منظر نامے سے الگ کرنا پڑا۔ نہیں تو نواز شریف اور فوج کے درمیان ایسا کوئی ایشو نہیں جسکے بنا پر اسکے حکومت کو جانا پڑا ہو، حلانکہ چین کی جی حضوری میں مسلم لیگ ن بھِی پیچھے نہیں رہی، مگر بلوچ آزادی پسندوں کی ثابت قدمی نے ان استحصالی منصوبوں کو خاک میں دفن کر دیا ہے۔

ابھی باجوہ اسی مٹی سے پھر گوادر پورٹ پر چینی اور پاکستانی قبضہ کوبحال کرنے کے لیے آزمودہ کرداروں کو نئے ناموں سے سامنے لا رہی ہے۔ چین اپنے پیسے سے پہلے بھی پاکستانی سیاستدانوں کو خریدتی رہی ہے۔ جسکی ایک مثال بلوچستان اسمبلی میں ریکوڈیک کے معاہدہ کی منسوخی تھی۔ لیکن بلوچ آزادی پسند ہر محاز پر ان منصوبوں کو خاک میں ملا رہے ہیں۔ بلوچستان کو حاصل کرنے کے لیئے چینی اب فوج کے ذریعے سے ڈیل کررہے ہیں، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اب اسٹبلشمنٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان بکے ہوئے سیاسی جماعتوں سے ربڑ اسٹمپ کا کام لیا جانا ہے۔
چین کے پیسے سے میڈیا اور انکے ذیلی اداروں کو باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت خریدا جا چکا ہے۔ تاکہ بلوچستان کو زیر کیا جا سکے۔

پاکستانی فوج کی طرح پاکستانی میڈیا بھی اتنی کرپٹ ہو چکی ہے کہ ان جنرلوں سے انکی سابقہ پیشرووں کی ںاکامی پر سوال بھی نہیں اٹھاتے کہ پالیسیاں کیوں ناکام ہو رہی ہیں۔ یہ سب اس لیے ناکام ہو رہا ہے کہ بلوچ قومی تحریک نیشنلزم کی بنیاد پر اپنی ہزاروں سالوں پر مبنی ایک تاریخ رکھتی ہے جبکہ پاکستانی تاریخ ایک جھوٹ ہے اور جنرلز کی ڈاکٹرائن اس جھوٹ کو انسانی اقدار کو مسخ کرکے لاشوں کے ڈھیر پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ان ستر سالوں میں پاکستان ایک مذہبی اور فوجی ریاست کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جبکہ قومپرست تحریکیں آج بھی ایک حقیقت کے ساتھ کھڑی ہیں، بلوچ قومی تحریک کے بعد پشتون قومی تحریک کا وجود میں آنا اس سچاہی کی نشاندہی ہے۔

باجوہ ڈاکٹرہن بھی ناکامی سے دوچار ہوگا، جب تک کہ قومی آزادی کی تحریکوں کو تسلیم کر کے اقوام متحدہ کی سربراہی میں بلوچستان کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا جاتا بلوچستان پاکستان کے ماتھے پر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہی رہے گا۔ قبضہ گیریت کو دوام دینے کی صورت میں پاکستان کو خود کی وجود سے ہاتھ نہ دھونا پڑ جائیگا۔