بی ایس او کے انضمام کی بازگشت اور موجودہ حالات – بیبرگ بلوچ

224

بی ایس او کے انضمام کی بازگشت اور موجودہ حالات

بیبرگ بلوچ

(دی بلوچستان پوسٹ )

2009ء میں جب پورے بلوچستان میں شورش انتہائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور ملک بھر میں شورش بلوچستان کے حوالے بازگشت چل رہی تھی۔ موجودہ شورش میں تیزی در اصل نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت کے بعد شروع ہوا تھا۔ شورش کے سبب2008ء کے الیکشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی سمیت دیگرقوم پرست پارٹیاں بائیکاٹ کیئے ہوئے تھے۔

دوسری جانب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جو دھڑوں میں تقسیم تھی، اپنے وجود کو لے کر تضادات اور انتشار کاشکارتھا۔خصوصاً 2009ء کے بعد بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تینوں دھڑے ایک انتہائی بدترین صورتحال کا شکار تھے۔ جس کی ایک وجہ بی ایس او سمیت بلوچستان کے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی اغوا نماء گرفتاری اور مسخ شدہ لاشیں گرنے کا عمل تھا۔ ان حالات میں بی ایس او اس سوچ اور فکر میں تھا کہ اپنے وجود کو کیسے بچایا جائے کیونکہ اس دوران ریاستی کریک ڈاؤن کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ طلباء تنظیموں کے وجود کو برقرار رکھنا، سب سے مشکل کام تھا۔ بلوچ معاشرے میں بی ایس اوکا قومی سیاست سے متعلق نعروں نے اس تنظیم کو مقبولیت کا شرف بخشا، لیکن اس دوران اس مقبولیت میں کمی آ رہی تھی، لیکن افسوس اس لمحے پر ہو رہا تھا، جب پوری ریاستی مشینری بلوچ طلباء کے خلاف استعمال ہو رہی تھی، تو بی ایس او کے سابق کیڈرز چپ کا روزہ رکھ کر صرف تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے اوربہت سے سابق کیڈرز اپنے سیاسی پارٹیاں بدلنے میں مصروف تھے۔ حالانکہ اسی دوران بلوچ سیاسی طالب علموں کومنتشر ہونے سے بچانے کیلئے انہی کیڈروں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ تا کہ کوئی مسیحا بن کرآئے اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو مزید تقسیم ہونے سے بچا کراورریاستی ظلم و جبر سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرکے بی ایس او کو اپنے ٹریک پر لائے۔

آج جب 2018ء کے الیکشن قریب آنے لگے ہیں، تو اچانک ایسی کون سی ہوا چل پڑی کہ بی ایس او کے سابق کیڈروں کو موجودہ بی ایس او کی حالات اور بلوچ طلباء نظر آنے لگے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اپنے سیاسی وجود اور ساکھ کو بچانے کیلئے بی ایس او کی کمزور بیساکیوں کا سہارا تو نہیں لے رہے ہیں؟ کیونکہ ان تمام سابقہ کیڈروں کا سیاسی سرگرمیوں سے لے کر سیاسی پارٹیوں کے سائے تلے، ان کو وہ مقام اور عزت نہیں مل رہا ہے جو وہ چاہتے ہیں یا وہ مقام اور عزت جو بی ایس او کے اندر مل رہا تھا۔ میرے خیال میں بلوچ سیاسی طالب علموں کو اس حوالے سے سوچنا اور غور کرنا چاہیئے۔

جب کچھ وقت پہلے کوئٹہ پریس کلب میں سابق کیڈرز استاد عبدالمجید گوادری کی یاد میں ریفرنس کا انعقاد کر رہے تھے تو اسی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ نے اپنے خطاب میں بی ایس اوکے انضمام کی بات کی تھی۔ ان حالات میں انضمام کی بات کرنا سمجھ سے بالاتر اور حیران کن عمل ہے، ہر بلوچ سیاسی طالب علم کوموجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیئے غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ ایسے نعرے بہت پہلے کھوکھلے ہو چکے ہیں اور انضمام کی باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں، بی ایس او کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہر انضمام کے ناکامی کے بعد بی ایس او مزید دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور حیران کن عمل یہ ہے کہ کونسی وجوہات کے بناء پر نذیر بلوچ کو اچانک بی ایس او کا انضمام یاد آگیا حالانکہ سب کو علم ہے کہ بی ایس او،بی این پی کے سائے سے نکلنے والا نہیں ہے اور نہ بی این پی اسے چھوڑنے والی ہے اور دوسری جانب بی ایس او پجارکا بھی یہی حال ہے۔ یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ بی ایس او آزاد آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے۔

موجودہ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ نئے آنے والے بلوچ طلباء میں نیشنلزم کا سوچ اپنی آخری سانس لے رہا ہے اور طلباء تنظیموں کا تعلیمی اداروں میں اپنے وجود کو بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ کیا ان مسئلوں کا حل صرف یہی ہے کہ بی ایس او کے تمام دھڑوں کا انضمام ہو جائے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ انضمام جیسے کھوکھلے نعرے کے پیچھے بلوچ سیاسی کارکنوں کی ہمدردیاں سمیٹا جا رہا ہے، موجودہ حالات اورانضمام کے خالی نعروں کو مدنظر رکھ کر بلوچ سیاسی کارکنوں اور بلوچ طلباء کو اس پر بھی سوچنا چاہیئے۔