بلوچستان کی پہلی خاتون جنھوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

373

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔

اس سلسلے میں بھوک ہڑتالی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے باہر قائم کیا گیا ہے۔

انھوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال ان دو دکانداروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے بعد شروع کی جن کو سینیچر کے روز شہر کے مصروف ترین علاقے جمال الدین افغانی روڈ پر فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔

جلیلہ حیدر نے بتایا کہ ایک مرتبہ پھر گذشتہ ایک ماہ سے ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔

نامہ نگار کے مطابق اگرچہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے واقعات کے خلاف پہلے بھی خواتین بھوک ہڑتال کرتی رہی ہیں لیکن جلیلہ حیدر پہلی خاتون ہیں جنھوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

انھوں نےمیڈیا کو بتایا کہ گذشتہ 20سال سے ہزارہ قوم کی نسل کشی ہورہی ہے۔ ریاست انھیں تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک بھوک ہڑتال کا سلسلہ جاری رکھیں گی جب تک پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ بذات خود یہاں نہیں آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ہزارہ قبیلے کے دس ہزاربچے یتیم ہوچکے ہیں۔ ’حکمرانوں کو آنا ہو گا اور ان بچوں کو جواب دینا ہوگا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکمرانوں کو آکر یہ بناتا ہوگا کہ ہزارہ قوم کو جنگی معیشت کی بھینٹ کیوں چڑھایا جارہا ہے۔‘

جلیلہ حیدر کے مطابق ایک سازش کے تحت بلوچستان میں لوگوں کو تقسیم کیا جارہا ہے۔

جمال الدین افغانی روڈ پر ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو دکانداروں کی ہلاکت کے خلاف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ دیگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی قندہاری بازار اور مغربی بائی پاس پر احتجاج کیا تھا۔

کوئٹہ شہر میں 30 گھنٹوں کے دوران ٹارگٹ کلنگ کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔

ہزارہ قبیلے کے لوگ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد پر کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔

رواں ماہ کے دوران شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افرادپر مجموعی طور پرٹارگٹ کلنگ کے چار حملے ہوئے۔

ان میں سے تین واقعات میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا جن میں پانچ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔

شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے کے افراد پر حملوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔

رواں سال سرکاری سطح پر قائم انسانی حقوق سے متعلق ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سنہ 2001 سے 2017 تک 16سال کے دوران ایسے حملوں میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے 525 افراد ہلاک اور سات سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اگرچہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے اقدامات کے باعث پہلے کے مقابلے میں ان واقعات میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔

اپریل کے مہینے میں دارالحکومت کوئٹہ میں مجموعی طور پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اس مہینے میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی دو حملے ہوئے جن میں چھ افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔

اسی طرح سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر بھی چار خود کش حملے بھی ہوئے جن میں بلوچستان کانسٹیبلری کے چھ اہلکار ہلاک اور ایف سی سمیت دیگر سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار زخمی ہوئے۔