براہمدغ نےبلوچستان پرپاکستان کےجبری قبضہ کو رضاکارانہ شمولیت کیوں قرار دیا – رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

434

براہمدغ نےبلوچستان پرپاکستان کےجبری قبضہ کو رضاکارانہ شمولیت کیوں قرار دیا؟

رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

بلوچ قوم دوست و آزادی پسند حلقےشروع ہی سےبلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کےعمل کوجبری قبضہ قرار دیتےرہےہیں اس تاریخی واقعہ کےبارےمیں متعدد مورخین،محقیقین اوردانشوروں کی درجنوں کتابیں،تحقیقی مقالے،مضامین اور بلوچ قوم دوست رہنمائوں بشمول شہید اکبرخان بگٹی اوربراہمدغ بگٹی اور اس کی بی آر پی کےبیانات موجودہیں یہ بھی بلوچ آزادی پسند حلقوں کی روایت رہی ہےکہ وہ مارچ کی 27 تاریخ کوبلوچستان پر جبری قبضہ کے دن کے طورپر یوم سیاہ مناتےرہےہیں۔ اس عمل میں بی آر پی بھی شریک رہاہے، 27 مارچ 2018 کو بلوچ آزادی پسند حلقےجب بلوچستان پر پاکستان کی جبری قبضہ کےخلاف یوم سیاہ منانےاوراس بارےمیں مقبوضہ بلوچستان سمیت مختلف ممالک میں تقریبات اور سرگرمیوں میں مصروف تھےتو بی آرپی کےصدرمیر براہمدغ بگٹی(جو بگٹی قبیلےکی سرداری کےدعویداروں میں سےایک ہیں) نے سوشل میڈیاویب سائیٹ ٹوئیٹر پر یکےبعد دیگرےمتعدد ٹوئیٹس کئےجن میں اس نےکہاکہ وہ اور ان کی جماعت بی آرپی 27 مارچ کو بلوچستان پر جبری قبضہ کا دن نہیں مانتے، مزید یہ کہ ریاست قلات کےسوا بقیہ بلوچستان کےدیگرتمام ریاستیں، اور قبائلی علاقےاپنی مرضی سےپاکستان میں شامل ہوئے ہیں۔ ان کےبڑوں سمیت تمام بلوچ قیادت نےپاکستان کے اندر رہ کراپنےحقوق کیلئےجدوجہدکےمختلف طریقےاستعمال کرتےرہےہیں، مگربلوچستان کےساتھ نوآبادیاتی سلوک کےباعث بلوچ اب آزادی کامطالبہ کررہےہیں، نہ صرف یہ بلکہ اس نےاپنی پارٹی کےبعض کارکنان کےکچھ ایسےٹوئیٹس کو بھی ریٹوئیٹ کیاجن میں براہمدغ کےموقف کو درست اور دوسرےآزادی پسندوں کےموقف کوجھوٹ،حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کرنے اورجائزبلوچ قومی مقصد کو گزند پہنچانےکاعمل قراردیاگیاہے۔
اس بیان کے ممکنہ محرکات واثرات کاجائزہ لینےسے پہلےاس بات پر بحث کرتے ہیں کہ ریاست قلات اور دیگربلوچ ریاستوں وقبائلی علاقوں سےبراہمدغ کاکیامراد ہے؟ اور اس کاموقف تاریخی،قانونی اور سیاسی لحاظ سےکتنا درست ہے؟ تاریخی طورپرریاست قلات کی بنیاد 1666 میں میر احمد قمبراڑی نے رکھا، بعد میں آنےوالےاس کےجان نشین تمام بلوچوں کوایک لڑی میں پرونےاورایک مرکزکےتحت لانےکیلئےتمام بلوچستان (بلوچستان کا مطلب ہےبلوچوں کاوطن یاملک) کو اس ریاست قلات میں شامل کرنےکی کوشش کرتے رہےاور ان کی اس کوشش کو مختلف اوقات میں مختلف بلوچ سرداروں کی طرف سےمخالفت و مزاحمت کاسامنارہا۔
بلوچ تاریخ کےمطابق میرنصیرخان نوری پہلا خان قلات ہے،جس نےنہ صرف جدید بنیادوں پر قلات کاریاستی ڈھانچہ اوردوسرے ادارے تشکیل دیئےبلکہ بیشترخطہ ہائےبلوچ کو ریاست قلات میں شامل کردیا، اس عمل میں میرنصیرخان نوری کو صرف کیچ کےسردار ملک دینار خان گچکی کی طرف سےشدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس مزاحمت کےباوجود میر نصیر خان تمام خطہ ہائےبلوچ کو ریاست قلات کے جھنڈے تلے ایک مرکز کے تحت متحد کرنےمیں کامیاب ہوا۔ اس طرح ہم کہہ سکتےہیں کہ بلوچستان ہی کا دوسرا نام ریاست قلات ہےاور تاریخ میں ایسےکئی ممالک یا ریاستیں بنی ہیں، جن کا نام ریاست کے مرکز یا دارالخلافہ کے نام پر رکھاگیا ہےجیسےکہ ماضی کاعظیم سلطنت روم ہےجوکہ یورپ اور ایشیاکےایک بڑےحصےپرپھیلا ہواتھا، مگراس عظیم ریاست کانام اس کی دارالحکومت یا مرکز کے نام پرتھا، مگرآج روم اٹلی کاایک چھوٹاعلاقہ ہے۔ اسی طرح سلطنت فارس ہےجو مغربی ایشیا،مڈل ایسٹ اور مرکزی ایشیاکےبیشترعلاقوں پر پھیلا ہوا ایک عظیم سلطنت رہاہے، جس نےاپنے مرکز فارس سے نام مستعارلیاتھا، مگر آج فارس ایران کامحض ایک صوبہ ہے، دور کیوں جائیں حمید بلوچ کی تاریخ مکران دیکھیں، وہ کہتاہےکہ تاریخ کےایک مرحلےپرپورابلوچستان مکران کے نام سے جاناجاتاتھا، اسی طرح تاریخ میں بلوچستان کےبیشترعلاقوں پرمشتمل ایک ریاست طوران کے نام سےہواکرتا تھا۔ مگر آج طوران خضدار کےیونین کونسل زیدی کامحض ایک جھوٹاسا موضح ہے۔
تاریخ گواہ ہےکہ نصیر خان اور اس کےجان نشینوں کی اتھارٹی کے خلاف مختلف اوقات میں مختلف بلوچ سرداربغاوتیں کرتےرہےہیں، جس کےباعث سرداروں اور خان قلات کےمابین لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ 1839 کو جب برطانوی ہند کےافواج معزول افغان بادشاہ شاہ شجاع کو دوبارہ تخت کابل دلانے کے لئے افغانستان لےجانے کی تیاری کررہے تھے، تو شکارپور،خان گڑھ (موجودہ جیکب آباد) اور بولان سے بحفاظت گذرنے کیلئے کچھی یا سراوان کے سرداروں سے نہیں بلکہ 28 مارچ 1839 کو خان قلات میر محراب خان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جب افغانستان جانے والے انگریز لشکر کو کچھی اور بولان میں حملہ کرکے بلوچ لوٹتےاورنقصان پہنچاتےرہے، تواس کےلئےہندوستان پرقابض انگریز حکمرانوں نےخان قلات کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا اور اسی بہانےجنرل ولشائر کی قیادت میں انگریز لشکر نے 13 نومبر 1839 کو ریاست قلات کےمرکز میری قلات پرحملہ کیا، تو خان میر محراب خان حملہ آورلشکر کےسامنےہتھیارڈالنےکے بجائےاپنےامرا اور رفقا کےساتھ مل کر دشمن کےخلاف لڑتےہوئےباوقارشہادت کو ترجیح دی۔
یہ تاریخی واقعہ اس بات کا ثبوط ہےکہ خوانین قلات ہی پورے بلوچستان کےحکمران تھےاور برطانوی ہند کےانگریز ان کو بلوچستان کا جائز حکمران مانتے ہوئے ان سے 1841, 1854 ,1862, 1863 میں مختلف معاہدے کئے 1860 کی دہائی کے آخر میں جب ڈیرہ غازی خان میں متعین برطانوی ہند کے ڈپٹی کمشنر رابرٹ سنڈیمن نےانگریزی اتھارٹی قائم کرنے کیلئےکوہ سلیمان کےبعض بلوچ سرداروں سمیت مری اور بگٹی سرداروں سے رابطہ کیا، تو اس کے اعلیٰ حکام نے اس کے اس حرکت پر ناپسندیدگی کااظہار کرکے، اسےریاست قلات کےمعاملات میں دخل دینےسےمنع کیا۔ اس پالیسی کوکلوز بارڈر پالیسی کانام دیاجاتاہے۔
سنڈیمن خان قلات کےساتھ ساتھ سرداروں کے ساتھ معاہدات کرنےاور ان کومراعات دےکر ان کی وفاداریاں خریدنےکوبرطانوی استعماری مفادات کیلئےزیادہ مفید سمجھتا تھا، یہ شاطر افسر 1875 کےاواخر میں قلات گیاتو کوہ سلیمان،کچھی،سراوان، جہلاوان بشمول مری وبگٹی قبائل کےدوسو کےقریب سردار،وڈیرےاورمعتبر اس کےہمراہ تھے، اس نےخان قلات،بیلہ، خاران،سراوان اورجہلاوان کےسرداروں کےدرمیان اختلافات کابھرپورفائدہ اٹھایا اور 1876 میں خان قلات اوراس کےماتحت سرداروں جام لسبیلہ،سردار رئیسانی،سردارمینگل،سردارزہری اور سرادار نوشیروانی وغیرہ کےساتھ اس کے تنازعات کاتصفیہ کی۔ اتمام بلوچ سرداروں نے خان قلات کو اپناحکمران تسلیم کیا اورسنڈیمن نےخان قلات اور سرداروں کےمابین آئندہ تنازعات کی تصفیہ کیلئے حکومت برطانوی ہند کی ثالثی حیثیت کو ان سے منواکربڑی چالاکی سےخان اور سرداروں کوبرطانوی ہند کےماتحت بنالیا۔افغانستان اورایران کےحکمرانوں کو روسی اثرورسوخ سےباہررکھنے،اپنے ہندوستان کی نوآبادی کی حفاظت،فوجی و تجارتی نقل وحمل اورمعاشی سرگرمیوں کیلئےبرطانوی ہند کے سرحدوں کوایک کوریڈور کےذریعےبراہ راست ایران اور افغانستان تک وسعت دینےکیلئےبرطانوی بند کےحکام نےمختلف معاہدات کےذریعےکوئٹہ،بولان،نوشکی،چاغی،اور نصیرآباد کی نیابتیں یااضلاع اجارہ پرخان قلات سےحاصل کئے 21 فروری 1877 کو بلوچستان ایجنسی کا قیام عمل میں لایاگیاجوکہ خان قلات سے اجارہ پر لی ہوئی کوئٹہ ودیگرعلاقون پرمشتمل تھا، بعد میں افغان حکمران سے 26 مئی 1879 کو گنڈمک معاہدہ کےذریعےچھینےگئے پشتون علاقوں کو بھی بلوچستان ایجنسی کےساتھ ملا کر 18 نومبر 1887 کو برٹش بلوچستان صوبہ قائم کیا گیا۔
برطانوی ہند کےانگریز حکمران اپنےبدنام زمانہ پالیسی “لڑاو اورحکومت کرو” کےتحت خان قلات کو سرداروں سےاورسرداروں کوخان سےڈرا کر بڑی چالاکی کےساتھ ان کوایک دوسرےکےخلاف صف آرا کرتےاوراپناوفاداربناتےرہے۔ خان قلات کی نااہلی اورسرداروں کی لالچ وغداری کا فائدہ اٹھاتےہوئےڈیرہ غازی خان کوہ سلیمان،مری،بگٹی و کھیتران قبائل کے علاقوں کو خان سےکسی معاہدہ یااجازت کےبغیربرطانوی ہند کےاتھارٹیز نے برٹش بلوچستان میں شامل کرلیااسی طرح خان کواعتماد میں لئےبغیر میکمیہن سرحدی کمیشن کےذریعےبرطانوی ہند کے حکام نےافغانستان کےساتھ بلوچستان کی سرحدوں کا تعین یکطرفہ طورپرکر کےگولڈ سمڈسرحد کےذریعےمنقسم بلوچ قوم کو مزید تقسیم کردیا۔ انہی غیر قانونی اقدامات کی تدارک کیلئےخان قلات میراحمد یار خان نے 1936 میں ہندوستان کےمعروف وکیل محمد علی جناح کو اپناوکیل بنایا اوربرٹش بلوچستان صوبے میں شامل بلوچ علاقوں کی واگزاری کامقدمہ دائرکیا، یہاں یہ بتانابھی مناسب لگتاہےکہ گوادرکاعلاقہ بھی ریاست قلات نےمسقط کےایک باغی شہزادہ کو سکونت کیلئےدیاتھا، جو “باہوٹ “بن کرآیاتھااور گوادرکی آمدنی کاکچھ حصہ اس “باہوٹ “عرب شہزادےکی کفالت کیلئےمقرر کیاتھااوربقیہ آمدنی کیچ کے گچکی سرداراورخان قلات میں حسب حصص تقسیم ہوتاتھا۔
اب تک کی اس بحث کا خلاصہ یہی نکلتاہےکہ ریاست قلات کی حدود وہ نہیں تھےجو اب مقبوضہ بلوچستان کےایک چھوٹےسےقصبہ نُماشہراورضلع قلات ہےبلکہ جہلاوان،سراوان لسبیلہ،مکران،کوہ سلیمان،کچھی،خاران،سمیت برٹش بلوچستان میں شامل تمام علاقےملاکر ریاست قلات بنتاتھا۔ لسبیلہ،خاران اورمکران کوئی الگ ریاستیں نہیں تھےبلکہ ریاست قلات کاحصہ تھے، دوسری جنگ عظیم کےبعدجب برطانیہ نےہند کوآزادکرنےکافیصلہ کیاتوانتقال اقتدارکا طریقہ طےکرنےکیلئےجو کیبنٹ مشن اور دیگربرطانوی نمائندہ ہندوستان آئےمسٹرجناح نےقلات سےاجارہ پرحاصل کی ہوئی برٹش بلوچستان کےبلوچ علاقوں کو واپس ریاست قلات کےحوالہ کرنےکا مقدمہ ان کےسامنے رکھالیکن بعدمیں جب برطانیہ نےروس کےخلاف اس خطہ میں اپنےمفادات کےتحفظ کیلئےایک چوکیدارریاست کی ضرورت محسوس کی تواس نےمسلم لیگ اورکانگریس کےاختلافات سےفائدہ اٹھاتےہوئے، ہندوستان کو تقسیم کرنےاورپاکستان کےنام سےایگ ایک ملک بنانےکافیصلہ کیا،تب کوئٹہ چھاونی اور برٹش بلوچستان کےکوریڈورکو پاکستان کیلئےناگزیرخیال کیاگیا۔ تقسیم ہند اورقیام پاکستان کافیصلہ ہونےکےبعد مسٹرجناح بھی اپنےموکل خان قلات احمدیارسےغداری کرتےہوئےاجارے پر حاصل کی ہوئی برٹش بلوچستان کےبلوچ علاقوں کوریاست قلات کےحوالے کرنےکےاپنے موقف سےمکرگیا، جبکہ برطانوی حکام نےسردارجمال خان لغاری، سردار دوداخان مری، چاغی کےسنجرانی سردارسمیت برٹش بلوچستان کےبہت سےسرداروں کی قلات ریاست میں شمولیت کی درخواست مسترد کردی اورفیصلہ کیاکہ برٹش بلوچستان کی پاکستان یا بھارت کےساتھ الحاق کافیصلہ انگریزوں کی تشکیل کردہ شاہی جرگہ اورکوئٹہ میونسپلٹی کےارکان کرینگے۔
بلوچ قومی اتحاد،اقتداراعلیٰ،مفادات اورعالمی قوانین کو روندتےہوئےریاست قلات سےاجارہ پرحاصل بلوچ علاقوں کو نہ صرف ریاست قلات کو واپس نہیں کیاگیا بلکہ استصواب رائے میں بھی ان کو ریاست قلات کے ساتھ شامل ہونےکےحق میں رائےدینےکاحق و اختیار نہیں دیاگیابرٹش بلوچستان کےمعاملےمیں بلوچ اقتداراعلیٰ، ریاست قلات اور برطانوی ہند کےمابین طےشدہ معاہدوں اورعالمی قوانین کی پامالی کاسلسلہ یہیں پرنہیں رکتابلکہ استصواب رائےکیلئے مقررہ تاریخ 03 جولائی 1947 کو شاہی جرگہ و کوئٹہ میونسپلٹی کےارکان کااجلاس اوررائےشماری ہی سرے سے نہ ہوئی بلکہ رائےشماری کی تاریخ اورطریقہ کارکی بابت وائسرائے ہند کاحکم سنانےکیلئےاے جی جی وائسرائے ہند جناب جیفرےنےجب 29 جون 1947 کو ٹائون حال کوئٹہ میں وائسرائےکاحکم پڑھاتو نواب محمدخان جوگیزئی جو کہ برٹش بلوچستان سےرکن قانون سازاسمبلی تھا،نےاعلان کیاکہ وہ پاکستان آئین ساز اسمبلی میں شرکت کرےگا۔ مزید رائےشماری کی ضرورت نہیں ہے، نواب جوگیزئی نےیہ اعلان مسلم لیگی رہنمائوں اوراپنےایک بیٹےکےورغلانےپرکیاجو کہ برٹش بلوچستان انتظامیہ میں ایک بڑےسرکاری افسرتھے،انگریزوں اور مسلم لیگ کو ڈر تھاکہ شاہی جرگہ کےارکان پاکستان کےحق میں ووٹ نہ دینگے۔
تویہ ہے برٹش بلوچستان کےبلوچ علاقوں پر پاکستان کےجبری قبضہ کی کہانی جسے بلوچ آزادی کےدعویدار میر براہمدغ بگٹی اوراس کی جماعت رضاکارانہ شمولیت کا نام دینےاور منوانے پر بضد ہیں۔ رہی لسبیلہ،خاران اورمکران کامعاملہ تو 1876 کے مستونگ معاہدہ کےموقع پر لسبیلہ،سراوان ،جہلاوان اورخاران کےسرداروں کی تقریریں اور خان قلات کو اپنا حکمران مان لینےکےبیانات اورعملی طورپرریاست قلات کاحصہ ہونا دستاویزی صورت میں موجود ہیں۔ آزادی کےوقت خان قلات سےاختلافات کےباعث جام لسبیلہ میرغلام قادراورنواب حبیب اللہ نوشیروانی نےدعویٰ کیاتھاکہ ان کی ریاستیں قلات ریاست کاحصہ نہیں ہیں، مگر برطانوی ہند کےحکام نےان کےدعوے کو مسترد کرکےان کی ریاستوں کےامور ریاست قلات کے حوالہ کیااور جولائی 1947 میں مراسلہ لکھ کر دونوں سرداروں کو آگاہ بھی کیا۔04 اگست 1947 کو دہلی میں وائسرائےہند لارڈ مائونٹ بیٹن کی صدارت میں خان قلات،اس کے قانونی مشیر اور مسلم لیگی قیادت کاایک اجلاس ہواجس میں خان قلات نےبرٹش بلوچستان میں شامل اجارہ پرلئےگئے، بلوچ علاقوں کی ریاست قلات کوواپس کرنے کا اپنا دعویٰ پیش کیا، جس پرمسلم لیگی قیادت نےاتفاق نہ کیاالبتہ ریاست قلات کو ہند سےالگ آزاد ریاست تسلیم کی جس پرتقسیم ہند قانون کااطلاق نہ ہوگا، مزید یہ کہ پاکستان کے نمائندوں اور ریاست قلات کےمابین ایک معاہدہ جاریہ پربھی دستخط کئےگئےاوربرٹش بلوچستان کےاجارہ پرحاصل کی ہوئی بلوچ علاقوں کی ریاست قلات کو واپس کرنےکےمعاملات کا قانونی جائزہ لینےکیلئےقیام پاکستان کی اعلان کےبعد جلد مذاکرات پر بھی اتفاق ہوا۔
دہلی سے واپسی پر 11 اگست 1947 کو خان قلات نےبرطانیہ سےمکمل آزادی کااعلان کردیااور ریاست کیلئے نیا دستور منظورکی جس کےتحت برطانیہ کےطرزپر دو ایوانی پارلیمنٹ وجود میں آیاجس کا دارالامرا موروثی سرداروں پر مشتمل تھاجبکہ دارالعوام کےارکان کیلئےانتخابات کا انعقاد کیاگیا۔قیام پاکستان کےبعدریاست قلات کےنمائندےبرٹش بلوچستان کی قلات کوواپسی کے معاملے پر مزید مذاکرات کیلئے جب پاکستان کےدارلحکومت کراچی گئےاوربرٹش بلوچستان کی واپسی کا معاملہ اٹھایاتوجناح نےاس معاملےکوسلجھانےسےپہلےریاست قلات کوپاکستان میں شامل کرنےکامطالبہ کیا۔ اس دوران جام غلام قادر، نواب حبیب اللہ کوساتھ لے کرجناح سےخفیہ ملاقات کرکےان سےدرخواست بھی کرچکےتھے کہ لسبیلہ اور خاران کی پاکستان میں شمولیت منظورکی جائےمگرجناح نےانکارکیا تھا، وہ جانتا تھاکہ دونوں سرداروں کی یہ درخواست غیرقانونی اور غیر جمہوری تھاکیونکہ لسبیلہ و خاران ریاست قلات کاحصہ تھے۔
دوسری جانب ریاست قلات کے دونوں ایوانوں نےریاست کوپاکستان میں ضم کرنےکےپاکستانی تجویزکو اتفاق رائےسے مسترد کیا 15 فروری 1948 کو مسٹرجناح نےسبی دربارسے خطاب کےموقع پرڈھاڈر میں خان قلات سے ملاقات کرکے ریاست قلات کو پاکستان میں شامل کرنےکااپنامطالبہ دہرایااورخان قلات نےاسے پارلیمنٹ کی رائےسےآگاہ کرتے ہوئے اپنی بےاختیاری کااظہارکیا۔ جناح کے جانےکے بعد 21 فروری 1948 کو قلات پارلیمنٹ کےدارلعوام کاپھر اجلاس ہوا اور دوبارہ الحاق کی تجویزکو مسترد کیا گیا، جس سے مایوس ہوکر جناح نےریاست قلات کے معاملات کافائل دفترخارجہ کےحوالےکیااور اس بارےمیں 9 مارچ 1948 کو ایک مراسلہ کے ذریعے خان قلات کو آگاہ کیا، دوسری جانب حکومت برطانیہ کی جانب سےبھی پاکستان پر دبائو تھاکہ ریاست قلات کو آزاد ملک تسلیم نہ کیاجائے، جس کےبعد پاکستانی حکمرانوں نےاپنےانگریزآقاوں کی آزمودہ پالیسی” لڑاو اورحکومت کرو”کی پالیسی کوبروئےکارلاتےہوئےسرداروں سےرابطہ شروع کرکے، ان کومراعات کی لالچ دےکرغیرقانونی طریقوں سےپاکستان میں شمولیت کی ترغیب دیناشروع کیااور اپنےسابقہ موقف کےبرعکس جناح نے 17 مارچ 1948 کوجام لسبیلہ میر غلام قادر،نواب کیچ میر بائی خان گچکی اور نواب خاران میر حبیب اللہ نوشیروانی کی غیرآئینی،غیرجمہوری اورغیرقانونی درخواست پر پاکستان کے ساتھ ان کی الحاق کااعلان کیاکیونکہ یہ بوڑھااورمکار وکیل جانتاتھاکہ سیاسی معاملات میں قانون پرطاقت کوبرتری حاصل ہے، اسلیئےطاقت کےبل پرالحاق کے اس غیرقانونی عمل کوتکمیل تک پہنچایا۔
ریاست قلات نےخاران،مکران اورلسبیلہ کی اس طرح غیرقانونی الحاق کےخلاف پاکستان کو احتجاجی مراسلےلکھےمگر اس کی احتجاج پرکوئی کان نہیں دھراگیا 26 مارچ 1948 کو پاکستانی بری اور بحری افواج کو اورماڑہ ،پسنی،جیونی اور کیچ روانہ کرکےان علاقوں پرقبضے کومکمل کرنےکی ہدایت کی گئی، دوسری جانب مذاکرات کے غرض سے کراچی میں موجود خان قلات میر احمد یار سےزبردستی ریاست قلات کی پاکستان کےساتھ الحاق نامہ پردستخط لیئےگئےمزےکی بات یہ ہےکہ نواب بائی خان گچکی جو کہ ریاست قلات کی دارالامرا کاممبرتھا،اپنےعہدےکاحلف بھی اٹھاچکاتھااوراس کی سرداری صرف کیچ تک تھی، مگر اس کےنام پر پاکستان نےپنجگورپربھی قبضہ کیا۔ اس طرح پاکستان کےغیرقانونی ،غیرجمہوری اقدامات و توسیع پسندی،اغیارکےساتھ سرداروں کی،سازباز اور غداری و خان قلات کی نااہلی و بزدلی کےسبب بلوچ قوم صدیوں پرمحیط اپنے قومی ریاست اورقومی شناخت کو کھودیا۔ ریاست قلات کی آزاد بلوچ ریاست کو جبری ختم کرنےکےاقدام کےخلاف بلوچ آزادی پسندوں نےخان قلات کے چھوٹےبھائی آغاعبدالکریم بلوچ کی قیادت میں مئی 1948 میں مسلح جدوجہد شروع کی جس میں قوم دوست سیاسی کارکنوں،کچھ ریاستی ملازمین، علما اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔گوکہ یہ جنگ دوماہ سے زیادہ جاری نہیں رہ سکا، مگرجبری الحاق کےخلاف یہ ایک قانونی اورتاریخی بنیاد بن گیا۔
اس بحث سےایک تویہ ثابت ہوتاہےکہ مشرقی بلوچستان کا تمام خطہ ریاست قلات کہلاتاتھا،برٹش بلوچستان میں شامل تمام بلوچ علاقےبشمول کوہ سلیمان، کوہستان مری،بارکھان اورڈیرہ بگٹی ریاست قلات کاحصہ تھےاورپاکستان میں شمولیت کیلئےنہ توبرٹش بلوچستان کےبلوچ عوام اور نہ ہی سرداروں و سرکردہ رہنمائوں سےکوئی رائےلی گئی اور نہ ریاست قلات سےاس کی منظوری لی گئی، یہاں تک کہ برٹش بلوچستان کےبلوچ سرداروں کی طرف سےریاست قلات میں دوبارہ شامل ہونےکےدرخواست کوبرٹش حکام نےغیرقانونی وغیرجمہوری طریقہ سےمسترد کرکےانہیں اپنےقومی ریاست میں شامل ہونےکاحق و اختیار نہیں دیا، اسی طرح خاران،مکران اورلسبیلہ بھی ریاست قلات کا حصہ تھے، جن کاالحاق پاکستان کےساتھ ایسےتین سرداروں کی منظوری سےکیاگیا، جن کےپاس منظوری دینے کا کوئی قانونی،قومی اورجمہوری اختیار نہیں تھا۔ ریاست قلات کےایک بڑے علاقہ برٹش بلوچستان،خاران،مکران اور لسبیلہ کو پاکستان نے غیر قانونی و غیرجمہوری طریقوں سےقبضہ توکیاتھامگر ریاست ختم نہیں ہواتھابلکہ ریاست قلات موجود تھااوراپنےمذکورہ بالاقومی علاقوں کی واپسی کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات،احتجاج اورکوششیں کررہاتھاجبکہ 27 مارچ 1948 کو قلات پر جبری قبضے سے بلوچ قومی ریاست کا وجود ہی ختم ہوگیا، اس لحاظ سے 27 مارچ ہی جبری الحاق یاقبضے کا دن ٹہرتاہےاسی لئےمحقیقین،تاریخ دان اور بلوچ قوم دوست آزادی پسند درست طورپر 27 مارچ کو بلوچستان پرجبری قبضہ کادن مانتےہیں۔
اب سوال یہ اٹھتاہےکہ میربراہمدغ بگٹی نے 27 مارچ کو بلوچستان پر یوم قبضہ ماننےسےاچانک انکارکرکےنیاموقف کیوں اپنایا؟ کیابراہمدغ کوئی محقق و تاریخ دان ہے، جس نےکسی علمی تحقیق کےنتیجےمیں یہ بات دریافت کرکےاس پربحث چھیڑدی ہے؟ اس سوال کاجواب تو نفی میں ہے۔ براہمدغ کوئی محقق،عالم اور تاریخ دان نہیں بلکہ ایک سیاستدان ہےاسلیئےاس کانیاموقف کوئی اکیڈمک بحث نہیں بلکہ سیاسی بحث ہے، ہوسکتاہے کہ براہمدغ بگٹی اس نئےموقف کےذریعے بلوچ قومی آزادی کی جدوجہداورمطالبہ سےانحراف کیلئےراستہ ہموارکرنےکی کوئی کوشش کررہا ہےکیونکہ پہلےبھی براہمدغ کئی باربلوچ قومی آزادی کے مطالبہ سے دستبرداری کیلئےآمادگی کااظہارکرچکاہےاوراس کےاس طرح کے بیانات ریکارڈ پرموجودہیں، ایک بار اس نے بیان دیاہےکہ اگربلوچ عوام آزادی کے مطالبہ سےدستبردارہوتےہیں پھرتو اسےبھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ 26 اگست 2015 کوشہید اکبربگٹی کی برسی کےموقع پر بی بی سی کےساتھ انٹرویو میں پاکستان کےساتھ غیرمشروط مذاکرات پر آمادگی کا اظہارکرتےہوئے، میر براہمدغ بگٹی نےیہ انکشاف بھی کیاکہ پیپلز پارٹی کی دورحکومت 2008-13 کے وقت حکومت کی طرف سے مذاکرات کےاعلان پر اس نےاس وقت کےصدر پاکستان میر آصف علی زرداری سے رابطہ کیاتھا، مگر زرداری نےاسے بتایاتھاکہ سردار اسلم رئیسانی یا رحمان ملک کےساتھ بیٹھ کرچائےپیناہےتوبیٹھو ورنہ ان کےپاس کوئی اختیارنہیں ہے۔ پھربراہمدغ نےڈاکٹرمالک کےدوروزارت میں ڈاکٹر مالک، میر حاصل بزنجواورجنرل عبدالقادربلوچ سےبھی مذاکرات کیئےمذکورہ بالا حکومتی نمائندوں نےدعویٰ کیاکہ براہمدغ نےآزادی یااورکوئی بڑامطالبہ نہیں کیابلکہ چند چھوٹے موٹےمطالبات پیش کیئےتھے، مگرپاکستان آرمی نےاس کےمطالبات منظور نہیں کیئے۔
براہمدغ بگٹی نےجنرل عبدالقادروغیرہ کےمذکورہ بالادعوےکی کبھی تردید نہیں کی۔اسی طرح کچھ عرصہ قبل فنانشل ٹائمز نامی برطانوی اخبار نےخبر دی کہ چین نےسی پیک کے تحفظ کیلئےعلیحدگی پسند بلوچ سرداروں سےرابطہ کیاہے، پاکستانی حکومت کےایک نمائندہ نے بھی اس خبر کی تائید کی۔ بی ایل ایف اور بی این ایم نےاس خبرکی تردید کرتےہوئےاسےآزادی پسندوں کےدرمیان بدگمانی پیداکرنےکی سازش قراردیااوردوسرےآزادی پسند بلوچ حلقوں سےاس خبرپراپنی اپنی پوزیشن واضح کرنےکی اپیل کی دیگر رہنمااورتنظیموں نےکوئی ردعمل ظاہر نہ کیامگر براہمدغ بگٹی نے ٹویٹ کرکےچین کےاس عمل کوایک مثبت قدم قراردیدیا حالانکہ بعد میں چین نےخود اس رپورٹ کی تردید کردی، مگر براہمدغ نےچین کے سامراجی منصوبوں سی پیک وغیرہ کی کامیابی وتحفظ میں مدد دینےکیلئےاپنی آمادگی ظاہرکردی۔ براہمدغ کی زیربحث ٹوئیٹس میں بھی آزادی سےانحراف کے لیئےآمادگی کےواضح اشارےموجودہیں، اس کا یہ کہناکہ ماضی میں بھی ان کے بڑوں سمیت تمام بلوچ لیڈرشپ پاکستان کےاندرحقوق کیلئےجدوجہدکےمختلف طریقےیاذرائع استعمال کرتےرہےہیں لیکن پاکستان کی طرف سےبلوچستان کے ساتھ مسلسل نوآبادیاتی سلوک کےباعث اب بلوچ آزادی کامطالبہ کررہےہیں۔
اس بیانیہ کاصاف مطلب یہ ہےکہ اگرپاکستان اپنےپالیسی میں تھوڑا نرمی لائےاورمراعات دےتووہ ماضی کےانحراف اورسمجھوتوں کوجواز بناکرآزادی کی جدوجہد سےدستبرداری کیلئےتیارہے، مگربراہمدغ صاحب یہ بھول رہےہیں کہ ماضی میں جدوجہدسےغداری یاانحراف کرنےوالوں پرعوام نےکبھی پھول پاشی نہیں کی بلکہ ان کی بھرپورمخالفت کی۔نیپ کی جانب سےگورنر نامزد نہ کئے جانےکوجب اکبربگٹی نےاپنےانا کامسئلہ بناکر ذوالفقارعلی بھٹواور فوج کاساتھ دیاتوایک بڑےعرصے تک بلوچ عوام میں اس کی حیثیت کافی متنازعہ رہا بعد میں ڈاکٹرعبدالحئی کی بی این وائی ایم اورسردارعطااللہ مینگل کےساتھ 1988 میں بی این اے کے ذریعے اسے بلوچ قوم دوست حلقےمیں دوبارہ شمولیت کاموقع ملا۔ 17 مارچ 2005 کو نواب اکبرخان بگٹی کےقلعہ پر آرمی کی گولہ باری اورستر سےزائد بلوچوں کی شہادت کےبعد جب اکبربگٹی نےمسئلے کو بگٹیوں کامسئلہ قراردےکر حکومت سے لاحاصل مذاکرات کیئےتوایک بارپھراس پر تنقیدہوئی، اس مذاکرات کی ناکامی کے بعد سنگل بلوچ پارٹی کی تجویزاورقومی آزادی کاواضح پروگرام دینےکےبعد ہی بلوچ آزادی پسند حلقوں نےنواب صاحب پراعتمادکرنا شروع کیا۔
شہید نواب بگٹی نے اپنےکردارپرلگےدھبوں کواپنےاور اپنے سرمچار ساتھیوں کی خون سےدھوکرامرتو ہوگئے،مگرجب تاریخ کی بات ہوتی ہے تو ان کی غلطیوں کاذکر بھی ہوجاتاہےاس طرح کی ماضی کےغلط فیصلوں کو نظیر بناکر براہمدغ یاکوئی اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہدسےانحراف یا راہ فرار اختیار کرنےکوجواز نہیں بخش سکتا۔ براہمدغ کی جانب سےاپنےنئےموقف کو بی آر پی کاموقف کہنےسےپتہ چلتاہے کہ بی آر پی کوئی انقلابی قومی پارٹی نہیں بلکہ خطے میں موجود بہت سےشخصی و موروثی پارٹیوں کی طرح محض نام کا ایک پارٹی ہے دراصل براہمدغ ہی بی آر پی اور بی آر پی براہمدغ ہے، اس جماعت کےکوئی ادارےنہیں ہیں کیونکہ نیا موقف اپنانےسےقبل بی آر پی کی مرکزی کابینہ یا مرکزی کمیٹی( اگر ان کا کوئی وجود ہے) کےکسی اجلاس کی رپورٹ نہیں آئی، اتنےبڑےقومی مسئلے کا فیصلہ براہمدغ نےخود ہی کرکےٹوئیٹ کردیااور اس کےپیروکاربلاسوچے سمجھے قومی مفادات کےمنافی اس کےنئے موقف کی بلاچوں چراں اندھی تقلید کرنےلگے میربراہمدغ کےاس نئےبےسروپاموقف کاایک اورمحرک ریاست قلات کےآخری خان قلات میراحمدیارخان کے پوتےاور خود ساختہ خان( خودساختہ اس لئے کہ خان ریاست قلات کےحکمران کا ٹائٹل رہاہے، جبری الحاق کےبعد جب ریاست ہی نہ رہاتوحکمران یاخان کیسا) میر سلیمان دائودکے بارےمیں اس کی ناپسندیدگی بھی ہوسکتاہےکیونکہ براہمدغ کا چچازاد بھائی اورکچھ بگٹی وڈیروں و سرکار کی جانب سے پاگ بستہ نواب اوربراہمدغ کےمضبوط حریف میرعالی بگٹی کی میرسلیمان دائودخاندان سےکوئی رشتہ داری ہے، اب ممکن ہے میرسلیمان دائود کو نیچادکھانےکےچکر میں براہمدغ بلوچوں کے تاریخی ریاست قلات کو ایک چھوٹےسےعلاقے تک محدود بتاکر، اپنےانا کی تسکین کیلئےپوری بلوچ تاریخ کومسخ کرنےاورتحریک آزادی کو نیچا دکھانے کی غلطی کر رہاہے۔
اگر جناب کےنئےموقف کاعلت یہی ہےتب بھی نتیجہ یہی نکلتاہےکہ موصوف میں ایک قومی قائد کی اوصاف اور دوراندیشی کی کمی ہےحیرت و افسوس میر زامران مری کےرویہ پرہوتاہے، جو اپنےعظیم والدمرحوم سردارخیربخش مری کی موقف اور جدوجہد کےبرعکس اپنےسالے براہمدغ بگٹی کےبےسروپا موقف کی حمایت پر کمربستہ ہوگیاہے، کیاقومی بیانیہ کوترک کرنےاورنیابیانیہ اپنانے کے لئے براہمدغ نےمیر زامران مری سمیت اپنےدیگراتحادیوں کےساتھ صلاح ومشورہ کیاہے؟ کیااس نےبلوچ محققین،تاریخ دانوں اوردانشوروں سے تحقیق و مشاورت کےبعدابہام اور بدگمانیاں کی بیچ بونےوالایہ نیاموقف اپنایاہے؟ بعض بلوچ علاقوں کی پاکستان میں رضاکارانہ شمولیت کے بابت براہمدغ بگٹی کادعویٰ ایساہے، جیسےکوئی ڈاکوکسی گھر میں گھس کر اسلحہ کےزورپرمکان کےمکینوں کواپنانقدی ودیگر قیمتی اثاثےاس کے حوالہ کرنےکوکہےاورخوف کے مارےاسلحے کےسامنےبےبس مکان کے مکین اپنا نقدی اور قیمتی اثاثے ڈاکو کےحوالے کریں تو بعد میں ڈاکو یہ دعویٰ کرے کہ مکان کے مکینوں نےتواپنی رضااوراپنے ہاتھوں سےنقدی اوراپنےقیمتی اثاثے اس کے حوالے کی ہیں لہٰذا اس کا عمل کوئی جرم یا جبر نہیں ہے۔

تاریخ تحریر : 31 مارچ 2018