امیر جان ایک مشعل راہ – جلال بلوچ

450

امیر جان ایک مشعل راہ

تحریر : جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کئی کتابوں کو پڑھ پڑھا کر نچوڑنے کی کوشش کی، آخر کتابوں اور تحریروں نے آخری سانس لیکر دم توڑ دیا مجھے سوچنے پر مجبور کردیا اور میں نے سوچ کر اخذ کیا کے شاید میرے علم و زانت نے فقدانیت کی چادر اوڑلی ہے۔
میں ایک ایسے ہستی کے بارے میں لکھنے جا رہا ہوں، جسکی قربانی صرف میرے لئے یا راجی لشکر بی ایل اے کیلئے نہیں بلکہ پوری بلوچ قومی تحریک کیلئے مشعل راہ بن گئی، میں اتنا بتاسکتا ہوں کے مجھ جیسے طالب علم کی کوئی اوقات ہی نہیں کے آپکے قربانی یا کردار پر کچھ لکھ پائے۔ بس اپنے دماغی سکون کیلئے کچھ جملے لکھنے کا ارادہ باندھا ہے، تاکہ اپنے احساسات کو بیان کرسکوں۔
تعلیم، علم ،شعور،لاشعور، تحت شعور کو جاننے سمجھنے پرکھنے کے جتنے اسباب اکھٹے کر کے علم کے سمندر کو پانی کے ایک چھوٹے بوتل میں بند کرکے رکھا جائے، تو یہ ایک کھلے تضاد کے ساتھ ساتھ، ایک ناانصافی بھی ہو جاتا ہے۔ مگر ایک بات اٹل ہے، دنیا جہاں کے اندر اگر کوئی بھی لکھاری، لکھنے کی زحمت کر بھی لے، اس شخصیت کے سامنے الفاظ آخر کار دم توڈ دیتے ہیں۔
بلوچستان کے شہر خضدار کے ایک چھوٹے سے گاوں توتک میں پیدا ہونے والا امیرالمک بلوچ جو نہ سیاسی اسٹیج سے پیچھے رہے، نہ جنگ کے میدانوں میں کوئی آپ کا مقابلہ کرسکا۔ سنگت آپ نے سیاسی ادوار میں جیل میں زندگی کاٹی اور ٹارچر سیلوں کی اذیت بھری زندگی بھی گذارا۔ پھر بھی نہ بکھرا، نہ ٹوٹا نہ مایوس ہوا۔
اگر کوئی آپ کے علمی زانت و پختگی ، نظریاتی بنیادوں پر مخلصی، اور مستقل مزاجی کا اندازہ لگانا چاہتا ہے، تو وہ آپ کی دانشمندی ہے کہ آپ نے ہر میدان میں اپنے علم شعور مستقل مزاجی کی علامات چھوڑ کر چلے۔ چاہے وہ سیاسی میدان ہو یا گوریلا جنگ، آپ نے تمام میدانوں میں مہارت حاصل کیا ہوا تھا۔
رشتے ہوں تو آپ نے سب خونی رشتوں کو لات مار کر نظریاتی رشتوں کو زیادہ اہمیت دی تھی۔

نظریاتی رشتہ:
دنیا عالم کے بے شعور فرسوده سماج کو گر روایتی نظر سے دیکھا جائے اور محسوس کرنے کی حد تک دنیا میں قائم خونی رشتے جیسے کہ خاندانی رشتوں ماں،باپ، بھائی، بہن ، شوہر، بیوی تک خونی رشتے کا نام دیا ہوا نظام ہیں۔ جس سے میں اور آپ بخوبی واقف ہیں کہ ماں کون ہے، باپ کون بھائی اور بہن کون ہیں۔
دنیا کے عظیم رشتوں میں سے ایک رشتہ نظریاتی رشتہ ہے، جو میرے خیال سے دنیا کے تمام رشتوں سے اعلیٰ ہے اور باقی تمام رشتوں کو مات دے چکا ہے۔
نظریاتی رشتے کو کئی عظیم رشتوں ماں، باپ، بیٹی یا بیٹے پر نا صرف فوقیت حاصل ہے، بلکہ اس رشتے کے سامنے ان رشتوں کی اہمیت باقی ہی نہیں رہتا ہے۔ اس بات کی واضح مثال بلوچ قومی تحریک ہے جس میں ہزاروں فرزندوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نظریاتی رشتے دنیا کے سب سے مظبوط رشتے ہیں۔
ہزاروں نوجوان آج بلوچستان کے ہر طرف پھیلے ہوئے مادروطن کی حفاظت کرنے کیلئے جان ہتھیلی پہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے دوست ہیں، جنہیں گھر سے بے دخل اور خاندانوں سے عاق کردیا گیا ہے۔
اس میں میرے پاس واضح مثال پھلیں شھید امیر الملک جان کی ہے، جنہیں اُن کے گهر والوں نے اشتہاری بننے کے ٹائم دو (2) آپشن دیئے تھے کہ خاندان یا “سنگت” ان میں سے ایک کا انتخاب کرے، تو پھلین شهید نے اپنے والد سے کہا تھا.
“میں خاندانی رشتوں سے نظریاتی رشتوں کو زیاده اہمیت دیتا ہوں” .جس سے شھید امیر جان کے والد نے شهید کو “عاق” یعنی گهر سے بے دخل کیا تھا۔

ہر چیز کو جانچنے کی سکت آپ میں تھا اور آپ ایک خود اعتماد دوست بھی تھے، آپ کو ہمیشہ اپنے آپ پر بھروسہ ہوا ہوتا کہ میں یہ کر سکتا ہوں وہ کرسکتا ہوں۔ آپ خود اعتمادی کے اوپر اکثر و بیشتر یہ جملہ ادا کرتے جاتے تھے۔

خود اعتمادی کیسے پیدا کیا جاتا ہے!
سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ اپنے صلاحیتوں پر بھروسہ رکھو، جب تک آپ میں یہ خوبی پیدا نہیں ہوگا۔ آپ کامیاب اور خوش و خرم نہیں ہوسکتے اور معقول خود اعتمادی ہی کامیابی کی طرف بڑھنے کی پہلی سیڑھی ہے۔ احساس کمتری اور شش و پنچ کا شکار دماغ مستقبل کی کیا منصوبہ بندی کرسکتا ہے لیکن خود اعتماد شخص اپنی صلاحیتوں سے مکمل آگاہ ہے اور وہ جانتا ہے کامیابی کیسے ملے گی۔ اس کی دماغی صلاحیت اور انداز فکر کی بلندی ہی اسے سیدھا راستہ دیکھائے گا۔
یہ ایک چونکا دینے والی حقیقت ہے کہ کئی باصلاحیت افراد کو خوفزدہ کرکے نکما اور قابل رحم بنا دیا گیا ہےاور اس طرح انہیں احساس کمتری کے گرداب میں پھنسا دیا جاتا ہے، مگر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کا حل درست علاج مضمر ہے۔
آپ اپنے ذہنی فکر و تردد کو بہتری کی طرف گامزن کرسکتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ آپ ایسا کرسکتے ہیں۔
کوئی بھی انقلابی ماں کے کوکھ سے انقلابی نہیں ہوتا، ہر کوئی پہلے جزباتی ہو کر کسی بھی تحریک یا انقلابی عمل میں شامل ہوتا ہے اور پھر ارتقائی عمل سے ہوتا ہوا انقلابی ہوتا ہے۔

ڈسپلن کی پابندی
سنگت آپ نے ہر وقت تنظیمی ڈسپلن کو اپنا اولین ترجیحات سمجھا ہوا تھا، جس پر آپ کسی بھی سمجھوتے کو رد کردیتے تھے۔ اس بات کا اندازہ ایسے لگا سکتے ہیں کہ آپ کو دشمن ریاست پاکستان کے گماشتوں اور ملٹری انٹلیجنس نے بہت سے مرعات کا لالچ دینے کی کوشش کی لیکن سنگت امیر جان ایک پختہ نظریے کے مالک، ان تمام چیزوں کو لات مار کر دشمن پاکستان کی نیند حرام کرنے دوستوں کے درمیان کئی سالوں تک بلوچ لبریشن آرمی کے ڈسپلن کو مضبوطی سے آگے لے جانے میں مدد دیتا رہا اور دشمن کی نیند حرام کرتا رہا، جو آپ کی شہادت تک جاری رہا۔

ایک مطمئین کن و حوصلہ افزاء:
جب بھی کسی نئے دوست سے ملتے تھے، تو انھیں ضرور کچھ نا کچھ سکھا ہی دیتے تھے۔ بلوچ قومی تحریک کے خوبیوں سے لیکر خامیوں تک سارے کے سارے حقائق دوستوں کے سامنے رکھتے، جو انتہائی متاثر کن تھے۔ ایک ایسی مستقل مزاجی جو ہر وقت دوستوں کی حوصلہ افزائی کی کڑی بن جاتی۔ وقت و حالات کو سمجھنے میں انتہائی مہارت و ادراک کے ساتھ دشمن کی ہر چال بازی اور سازش سے باعلم و آگاہی رکھتا اور دوستوں کی ذہنی و فکری تربیت میں کبھی بھی کوتاہی نہیں برتتا، اگر کسی بھی دوست سے کوئی بھی غلطی سرذد ہوتا، تو آپ اسے بہت ہی عاجزانہ و ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے تاکہ کوئی بھی دوست اس غلطی کی وجہ سے احساس کمتری اور احساس شرمندگی میں مبتلا نہ ہو۔

مستقل مزاجی:

مستقل مزاج ہونا واقعی کوئی آسان انسانی صلاحیت نہیں ہے، خاص کر اچھے کاموں میں… اور مستقل مزاجی کی سفر میں قدم رکھنے والے افراد پھر ہار نہیں مانتے۔
اگر دیکھا جائے تو مستقل مزاجی کا دل سے بہت گہرا تعلق ہے، جو کام ہم دل سے اور شوق سے کرتے ہیں، تب ہم اس کام کو انجام پذیر کر کے ہی چھوڑتے ہیں، ہمیشہ یاد رکھیں کہ مستقل مزاج بننا چاہتے ہو تو اپنے کام کو پورا پورا شوق و دلچسپی سے کرو، مگر یہ بھی یاد رہے کہ صرف اچھے و مثبت کام کو ہی مستقلاً اپنانے کی کوشش کریں یا پھر کسی بری عادت و کام کو چھوڑ کر اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی کوشش کریں۔ یقینا آپ نے اپنے کام کو فرض سمجھ کر کیا ہوا تھا اور اپنے فرض سے بے انتہاء محبت کرتے رہے، ہر کام کو اپنے دل و دماغ کو سکون پہنچانے کیلئے کرتے رہے۔ کام کرتے وقت آپ کو چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرنے پر سینیئر دوستوں سے ڈانٹ بھی پڑتا تھا لیکن آپ کی مستقل مزاجی اس ڈانٹ کے ردعمل کو ایک پیاری سی مسکراہٹ و خاموشی میں تبدیل کرتا۔

جمال جان آپ کی زندگی اور زندگی میں ہر عمل مجھ جیسے بے جان انسانوں کیلئے قوت حوصلہ و قوت ہمت کا باعث رہا ہے۔ میرے جیسا انسان بلوچ جہد کے کاروان میں اگر آج کام کررہا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ میں جذباتی بنیادوں پر بلوچ قومی تحریک میں شامل ہوا تھا۔ جو بی ایس او آزاد کی تربیت کی بدولت ملا ہوا تھا ۔ مگر جمال نے ایک استاد کی طرح جذباتوں کو ایک فکر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میری زندگی میں حقیقی انقلاب کا آپ نے مجھے راہ دیکھایا، نئی سوچ اور شعور دیا ۔ اگر مجھ جیسا کوئی بھی دوست، بلوچ تحریک کا حصہ بنا ہوا ہے، تو میں ایمان کی پختگی سے کہتا ہوں آپ سے آپ کے کردار سے ضرور متاثر ہوکر بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا ہے۔بلوچ قومی تحریک میں آخری گولی کا انتخاب آپ نے تو کیا ہوا تھا لیکن آج تمام دوست جتنے بلوچ تحریک میں سرگرم عمل ہیں وہ آپ کے دیکھائے ہوئے راستے کا انتخاب کر رہے ہیں، جو گولیاں ختم ہونے پر آخری گولی اپنی جیبوں سے نکال کر مسکراتے چہرے کے ساتھ بوسہ لیکر تنظمی تمام رازوں کو اپنے سینے میں دفن کر کے اپنی ہی گولیوں سے اپنی سانسیں لینے سے نہیں کتراتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک شعوری فیصلہ ہے اور وہ شعور آپ ہی کے بدولت جمال بلوچ، قومی تحریک کو ملا ہے۔