ٹارچر سیل کی تلخ یادیں – جلال بلوچ

433

ٹارچر سیل کی تلخ یادیں

تحریر :جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

ماہ اگست ویسے ہمارے سرزمین بلوچستان کیلئے، سیاہ ترین ماہ ہے، کیوںکہ اس ماہ میں اپنوں کی لاشیں باقی مہینوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ملتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے۔ جن میں سے بہت ساروں کو شہید کردیا جاتا ہے، یا پھر کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کدھر ہیں، کہاں ہیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔

ان میں سے کچھ خوش قسمت نہ جانے کس دعا کے طفیل زندگی کی خوشیاں دیکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں، آج ان میں سے ایک میں خود کو زندہ پاکر نا جانے کس کشمکش میں مبتلا ہوں۔

کچھ زندگی واپس پانے کی خوشی، مگر ایک طرف خود سے خود نفرت کرنے کی سوچ ذہن پر زیادہ اثر ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ کیوںکہ کچھ ایسے حادثات میرے آنکھوں کے سامنے سے گذر چکے ہیں ۔ شاید ہی کوئی با ہمت انسان ایسی تکلیف اٹھانے کی سکت رکھتا ہو۔

زندگی کی خوشیوں میں مگن ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھتا تھا، میں نے زندگی کی ہر چھوٹی بڑی خوشی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ نہ آزادی جیسی اتنی بڑی نعمت سے واقف تھا۔ نہ کہ غلامی جیسے گلے سڑے بدبودار چیز سے مجھ جیسا خودغرض واقفیت رکھنا چاہتا تھا۔

26 اگست رات تین بجے گاڑیوں کی آوازیں کان پر پڑتے ہی گہری نیند سے اٹھ بیٹھ گیا اور اسی میں گاڑیوں کے دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کے آوازوں نے پریشان کردیا۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں، دماغ نے خوف کی چادر اوڑھ لی۔ رات تاریکی کے ساتھ سنسان تھا۔ اس دوران ہمارے گھر کے اندر سرچ لائٹ کی روشنی پڑی اور دیواروں سے کچھ نقاب پوش چھلانگ مار کر اندار داخل ہوگئے۔

گھر کے اندر داخل ہوتے ہی چار پائی پر سوئے ہوئے بوڑھے باپ کو کالر سے پکڑ کر گھسیٹنے لگے۔ اس کے ساتھ بے بسی کی حالت میں بوڑھی ماں خدا و قرآن کا واسطہ دیتے ہوئے نقاب پوش فوجیوں کی طرف لرزتے بدن کے ساتھ آگے جانے لگی۔

جس سے آفیسر کے کہنے پر سارے فوجی ہم سب گھر والوں پر بندوق تاننے لگے اور بولے “ہینڈز اپ”، ایک چست و چابک نقاب پوش نے گن میرے سر پر رکھ دیا۔ اور گندی گالیاں بکنے لگا۔ ہمارے ساتھ گھر میں موجود چھوٹی بہن جو مجھے میری زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے، اسے گالیاں بکنے لگے اور بندوق کی بٹ سے میرے سر اور پورے بدن کو خوب مارنے لگے۔ جس سے ہمارے گھر والے آہ و زاری کرنے لگے۔ ماں چلا اٹھی! خدا کیلئے میرے بیٹے کو مت مارو اور میرے بیٹے کا قصور کیا ہے جسے اتنا مار رہے ہو۔

ماں کے رونے چلانے کی آوازیں دور دور تک پہنچ رہی تھیں، ماں پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی؟ ان لمحات کو شاید کوئی ایسی ماں ہی بیان کرسکتی ہو، جس کے لخت جگر کو اسی طرح، اس کے آنکھوں کے سامنے مارتے، پیٹتے اور گھسیٹتے اغوا کیا گیا ہوگا۔ جس بیٹے کا پتہ آج تک نہیں مل رہا، کہاں ہے زندہ ہے یا مردہ درگور کردیا گیا ہے۔

پھر غصے میں آکر آفیسر نے حکم دیا لے چلو ان بلوچی کتوں کو جس سے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو گھسیٹتے ہوئے لیکر گاڑیوں میں پھینک دیا گیا۔

گاڑیوں میں پھینک کر آنکھوں کو سیاہ پٹی سے اتنے زور سے باندھا گیا، جس کی وجہ سے آنکھوں کی روشنی چلے جانے کے ساتھ سر زور سے درد کرنے لگا۔ گاڑیوں کو خوب چکر دیکر آخر کار ہمیں گاڈیوں سے اتار کر کسی کال کوٹھڑی میں بند کرکے چلے گئے۔

جس کے بعد میرے کانوں میں ایک گرج دار آواز آئی، جو میرے خیال سے ریاستی انٹیلیجنس آئی ایس آئی کا آفیسر تھا۔ کہنے لگا، لاو کتے کو بہت چربی چڑھی ہے اسے جن میں سے کچھ میرے طرف آکر خوب لاتوں اور لاٹھیوں سے مجھے مارنے لگے اور پھر مجھے گھسیٹ کر ایک ایسی جگہ لے گئے، جہاں شور سے میں نے محسوس کیا کافی زیادہ لوگ ہیں،پھرمجھے کرسی پر بھیٹایا گیا۔

اسی موقع پر اچانک کسی نے میرے منہ پر ایک زوردار تمانچہ مارا اور پوچھنے لگا۔ بتاو استاد اسلم بلوچ اور کامریڈ بشیر زیب کہاں ہیں اور تم کیا کام کرتے ہو انکے لیئے صاف صاف بتاو؟

میں انتہائی بے بسی اور لرزتے زبان کے ساتھ بولنے لگا میں کسی استاد اسلم کو نہیں جانتا۔ اچھا بول کر آفیسر نے بولا “چلے! بشیر زیب کے لئے تم کیا کام کرتے ہو؟” میں کسی کو نہیں جانتا، یقین مانوں میں ایک عام طالب علم ہوں میں کسی کے بارے میں نہیں جانتا، مجھے برائے مہربانی آپ جانے دیں۔ وہاں میری ماں بیمار ہے، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوا ہے۔

یہ سن کر سب میرے اوپر بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑے، لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردیا گیا۔ ساری رات مجھ پر طرح طرح کے تشدد کئےگئے، رات کے ایک پہر جب بہت زیادہ تشدد کرنےکے بعد تھک کر میرے آنکھ کھولے گئے۔ تو تشدد کی وجہ سے آنکھیں نہیں کھول رہے تھے۔ زور سے آنکھیں کھولے اور میں نے دیکھا کرسئ لگا کر کوئی میرے سامنے بیٹھ گیا۔

پہلے کرسی پر بیٹھے شخص نے مجھ سے مزاحمتی دوستوں کے بارے میں پوچھا، پھر جواب نفی میں دینے پر میرے ماں بہنوں کی گندی گالیان دینے لگا، جو انتہائی غلیظ قسم کے گالیاں تھیں۔ آخر کار بلوچیت جاگ اٹھی اور میں کمزور بدن کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کی اور اسی طرح کے گالیاں کرسی پر بیٹھے آفیسر کو دے دیا اور آفیسر جذباتی ہوکر چلا اٹھا اور مجھے لات مار دیا جس کی وجہ سے میں بیوش ہوگیا۔

صبح سویرے کسی نے مجھے لات مار کر نیند سے اٹھا دیا اور کسی جانور کی طرح ایک کپ میرے سامنے رکھ کر بولا پیو کتے چائے۔ اس کے بعد پورا دن ٹارچر کرتے رہے کسی کو بھی انسانیت کی کوئی فکر تک نہیں تھی۔ سب کے سب وحشی جانور کی مانند پورے جسم کو لاٹھیوں سے مار کر ناکارہ کرچکے تھے۔

یہ ٹارچر تقریباً ایک ہفتے تک چلتا رہا، جس سے میں بہت کمزور ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ایک تھپڑ لگنے پر بیہوشی واقع ہوجاتا تھا۔

یہ سلسلہ ہر صبح قہر بن کر میرے سر پر ٹوٹ جایا کرتا تھا۔ ہر صبح لات مار کر ماں، بہنوں کی غلیظ گالیاں دیکر چڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اور ہر صبح بہت زیادہ تشدد کرنے کے بعد جب میں بیوشی کے قریب پہنچتا، تو ایک اور آفیسر اپنے آپ کو بہت شفیق و مہربان دیکھانے کی کوشش کرتا اور خوب سوال پوچھتا جواب میرے پاس نا ہونے پر ٹارچر کرتا تھا۔ آفیسر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا کہ اس کو ہر چیز کے بارے میں علم ہے۔

یہ سلسلہ روز کا معمول بن گیا تھا۔ ہر دن دوسرے دن سے زیادہ اذیت ناک تھا، ایسا لگ رہا تھا دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ مگر سوچتا شاہد یہ اس طرح کے کارستانیاں انسان کے ساتھ صرف پاکستان جیسے بےغیرت ملک میں ہو سکتا ہے اور کہیں نہیں۔۔ زندگی ایک عذاب بن کر رہ گیا تھا، ایک ایسا عذاب کے اس سے موت تین گنا زیادہ خشگوار اور حسین تھا۔

روز ایک لمحہ ایسا ہوتا کے اس موت کے کنویں میں مجھے ایک ہمدرد بھی تھا، جو روز ٹارچر کے بعد آتا آنکھوں کو کھول کر سیاہ پٹی اتارتا اور میرے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرتا اور پوچھنے لگتا آپ ایسے کیوں کر رہے ہو، بات کرو جو کیا ہے، سب بتاو میں آپ کو یہاں سے نکالوں گا اور ساتھ ہی ساتھ دہیمی آواز میں دھمکایا بھی کرتا تھا، اگر نہیں بتاو گے یہ لوگ تمیں مار کر ایک ایسی جگہ پھینک دینگے کے کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ تم زندہ ہو یا مار دیئے گئے ہو۔

پھر بھی نہ بولنے کی صورت میں مجھے ٹارچر کرنے کا آرڈر وحشی جانوروں کو دیا جاتا، جس سے مجھے ٹارچر کرنے پر بیوشی واقع ہو جایا کرتا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔

آخر کار ایک شام مجھے یہ کہہ کر نیند سے اٹھایا گیا، چلو آج تمیں مار دینگے، اس سے ہم بھی کچھ آسودہ ہوسکیں گے۔ یہ سن کر میرے اندر خوشی اس قدر بڑھ رہا تھا کہ اچھا ہے، ہر دن مرنے سے آج مجھے ان وحشی کتوں کے ہاتوں موت ملے۔ کوئی بات نہیں، میں نے سپاہی کو ہنستے ہوئے جواب دیا اور خوشی خوشی سپاہی کے ساتھ چلنے لگا۔ مجھے گاڑی میں بٹھایا گیا چلو مرنے کیلئے کسی کی آواز کانوں میں پڑا، ایسا لگ رہا تھا فوجیوں کا کوئی آفیسر ہے۔ میں نے خود کو انجان کرکے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

کچھ منٹ گاڑی میں سفر کرکے سب گاڑیاں ایک جگہ رکھ گئیں اور مجھے گاڑی سے اتارا گیا اور ہاتھوں کو کھول کر ایک گن میرے سر پر رکھ دیا، کتے تم بلوچی خود کو کیا سمجھتے ہو؟ تم مٹی بھر لوگوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹے گا اور بندوق کا ٹریگر دبانے لگے۔

اچانک ساتھ میں رکھے موبائل کا الارم بجنے لگا، جس سے میں گہری نیند سے آچانک چونک اٹھا۔ موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا ٹائم 5:30 منٹ ہورہا تھا اور میں نے ڈر کے مارے ساتھ رکھے گئے پانی کا بوتل اٹھا کر سارا پانی پی لیا۔