میرا قلم، دلجان – علیزہ بلوچ

545

میرا قلم، دلجان
تحریر : علیزہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

پہلی بار کچھ لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں، اس دوست کی محبت میں، جسے میں ذاتی طور پر تو نہیں جانتی تھی، مگر کبھی شعبان، تو کبھی برزین نام سے ایک سنجیدہ اور وطن دوست کی صورت میں دیکھ چکی ہوں۔ کچھ وقت پہلے ہی، ان سے میرا احساس، نظریے، سوچ اور فکر کا رشتہ بنا تھا۔ جو مجھ سمیت میرے دو تین دوسرے دوستوں کو ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کہ بس فضول میں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہو، کبھی کچھ نہیں ہوگا تم لوگوں سے اس طرح، کبھی تو کام کی بات کیا کرو. کبھی تو لکھو اپنے خیالات کو. اپنے لوگوں سے بات کرو ان سے تعلقات بناؤ، اُنہیں جہد کی راہ پر لاؤ. آزادی کے سفر میں جو بے قراری، جو شعور، جو مشعل انقلاب کی چنگاری لیکر دلجان چل رہا تھا، وہ اگر چاہتا تو ہمارے سروں میں کیل ٹھونک کر ہمیں احساس دلاتا لیکن وہ دلجان مہربان بھلے وہ دشمن کے لیئے آگ سے کم نہ تھا، پر ہم دوستوں کیلئے مہر سے بھرپور تھا وہ ہمیشہ ہنسی مزاق میں ہی ہمیں درس دیتا رہا، سمجھاتا رہا کے ہمارا کام کیا ہے۔

کاش! آج وہ یہ دیکھ پاتا کہ مجھ جیسے نالائق نے بھی ان کی محبت میں لکھنا شروع کردیا، جس نے اِس سے پہلے کئی دوستوں کے بولنے پر، لاکھ کوششوں کے باوجود بھی کچھ لکھ نہ پائی۔ نجانے کیسے انسان تے ضیاء، جس نے آج چلے جانے ک بعد مجھ میں یہ صلاحیت پیدا کر دی، کچھ تو جادو جیسا ہے. شاید اسکا دوستانہ لہجہ یا مہربان باتیں، وہ ہر کسی سے اسکے طبیعت کے مطابق بات کرنے کا ہنر رکھتا تھا۔

19 فروری کی شام کو جب وہ شہید ہوئے تھے، تو بہت سے دوستوں کی dp سیاہ تھی اور تقریباً بہت سے دوستوں کے ٹائم لائن پہ “آہ دلو” لکھا ہوا دیکھا میں نے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، تبھی ایک نیوز پہ نظر پڑی جس میں لکھا تھا کہ” نورالحق عرف بارگ اور ضیاءالرحمن عرف دلجان نے دشمن سے تین گھنٹے کے مقابلے کے بعد خود کو شہید کر دیا ہے.” دلجان نام سے ذہن میں ایک آرٹیکل لکھنے والا دوست آیا، جسے صرف پڑھا کرتی تھی میں، وہ اکثر شہید سنگتوں کے متعلق لکھا کرتا تھا۔ پھر کنفرم کرنے کے لیئے دوستوں سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کے دلجان وہی ہمارا سنگت شعبان ہی ہے، جو دشمن کو شکست دے کر وطن کی چاہ میں فنا ہوا، دماغ نے جیسے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔

کبھی کبھی سوچتی ہوں، کاش کہ چند لمحے اور ان دوستوں کے شہادت کی خبر مجھ تک نہ پہنچ پاتی۔ کچھ لمحے کچھ ہی لمحے اوروں سے زیادہ میں خود کو انکے بیچ محسوس کرتی، کاش! شہید شاہین کے شہادت کی خبر نہ سنتی، امید بندھی ہوتی کہ وہ آئے گا۔ کاش شہید جاوید, شہید محی الدین شہید، گزین شہید، بارگ، شہید نثار، شہید عبدالرسول، شہید حق نواز، شہید امیر الملک بلکہ کسی بھی بلوچ ماں کے بہادر بیٹے کی المناک جدائی کی خبر نہ سن پاتی۔ کاش! میرے اس سوال پر کہ دلجان کون ہے؟ کاش کہ اُس لمحے شعبان جواب دیتا مجھے کہ آپ اسے جانتی نہیں۔ کاش میں اس لمحے وہ سوال نہیں کرتی، تو کچھ لمحے معلوم نہ ہوتا کہ میرے مہربان سنگت شعبان زندگی کو ہرا کر ہم سے دور ایک کامیاب موت کو گلے لگا کر امر ہوگیا ہے۔

عجیب حالت تھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور بس اسکے محبت بھرے ڈانٹ یاد آرہے تھے اور کہہ رہا تھا فضول بیٹھنے سے کچھ کام کرو، آج پھر ہم نے اپنے دو عظیم دوست کھو دیئے، یا خدا! آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا. کب تک ہم اپنے عظیم بھائیوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے۔؟
پھر سوچتی ہوں کہ وہی بھائی ہمارے درمیان سے اٹھ کر اپنے کام محنت مقصد میں لگے ہوتے ہیں اور اپنی اس قدر مخلصی محنت و خواری کا کبھی ہمیں احساس ہونے نہیں دیتے، وہ بس ہمیں سمجھانے، ہمیں راہ دیکھانے اور ہمارے مستقبل کے لیئے رات دن اپنے کام میں مگن رہتے ہیں، اسی طرح میرا سنگت، میرا بھائی شعبان ہمیشہ صبح سویرے آنلائن ہوتا، کسی کو خبر نہ تھی کہ کئی سالوں سے گھر سے دور وہ کس طرح کہاں کسی میدانی پہاڑ یا درخت کے نیچے رات گذار کر پھر دن بھر مسکراتے ہوئے ہر میسج کا اپنے ہی انداز میں جواب دیتا رہتا۔
سوشل میڈیا یا پھر فیسبک پر میں ایک بلوچ بہن کی حیثیت سے کچھ سیکھنے آئی تھی، مگر یہاں عمر بھر کی وہ یادیں ملیں، جو زندگی جینے کا سلیقہ سِکھا جائیں۔ شہید طارق کے کاروان کے ساتھی ملے، جنہوں نے زندگی کے اصل مقصد کو جان کر ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، ایسے عظیم سنگتوں کے شہادت پر دشمن کیا سمجھتا ہے، اس طرح جسموں کو مٹانے سے وہ ہماری سوچ ہمارے نظریہ کو ختم کرے گا؟ کبھی نہیں، اس طرح ہمارے پیاروں کو ہم سے جدا کر کے وہ ہمارے اندر انتقام کی آگ کو اور ہوا دے رہا ہے، وہ شاید یہ بھول چکا ہے کہ سونا آگ میں جل کر پیتل نہیں کندن بن جاتا ہے۔

میں ضیاء کے بارے میں اور تو کچھ نہیں جانتی تھی، مگر آج اُس کے بارے میں جان کر میں بہت فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں بھی اُن کی دوست رہ چکی ہوں، جس کے زیادہ نہ سہی مگر تھوڑی سی قربت نے آج مجھے اس قابل بنا دیا کہ میں کچھ لکھ پائی، بس اگر افسوس ہے تو اس بات کا کہ کاش میں ضیاء کی موجودگی میں ایسی ہمت کر پاتی، تو وہ مجھے ایسے دیکھ کر کتنا خوش ہوتا کہ میں نے اُن کی بات مان کر قلم اٹھا لیا ہے. مگر یہ پچھتاوا میں آگے کے دوستوں کے لیئے نہیں رکھنا چاہتی ہوں، اس لیئے آج سے مجھ سے جو کچھ بھی ہوگا، میں ضیاء، علی شیر، محی الدین، شاہین، حئی، گزو، نورالحق امیر الملک ،طارق اور سلیمان جیسے تمام شہیدوں کے سپنے کو پورا کرنے کے لیے کروں گی، جتنی امیدیں ضیاء کو مجھ سے تھیں میں پورا کرنے کی کوشش کروں گی۔
یہ منزل یہ رستہ اس سے جڑے یہ احساس کے رشتے دشمن کے اذیتوں سے کئی گنا بڑھ کر ہیں۔