مولانا عبدالحق بلوچ کی برسی کے مناسبت سے

949

مولانا عبدالحق کی ایک یادگار تقریر

مرتب کنندہ: شئے عبدالخالق

دی بلوچستان پوسٹ

30ستمبر 2003 کو بی ایس او (متحدہ) کی طرف سے ایک سیمینار بولان میڈیکل کالج کے آڈیٹوریم ہال میں بعنوانِ گوادر  منعقد ہوا، یہ الفاظ مولانا عبدالحق بلوچ کے اس سیمینار کے گفتگو کے چیدہ چیدہ من و عن الفاظ ہیں جو کہ اِس خاکسار نے اسی پروگرام کے ویڈیو کلپ سے یکجا کیئے ہیں، اگر ان میں کوئی کمی و بیشی ہوئی ہے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں.

الحمد للہ وکفی وصلاة وسلاما علی عبادہ الذین اصطفی آمابعد۔
آعوذبا اللہ من الشیطن الرجیم ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ …محترم صدر و شریکاں مجلس میرے معزز دوستو اور بھائیو!

مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آج آپ نے اس محفل میں مجھے اظہار خیال کا موقع دیا، میں بهی یہ سمجھتا ہوں کہ قومی مسائل جب بهی پیش آتے ہیں، ان کا تعلق کسی خطے یا کسی قوم سے ہوتا ہے، اس قوم کا ہر فرد اور اس خطے کا ہر رہنے والا اس میں آپ کا شریک ہے۔

گذارش یہ ہے کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ سیمنار کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اس میں مقالے لکھے جاتے ہیں اور پهر پڑھے جاتے ہیں۔ میں مجھے فرصت تو نہیں ملی، اس پر کچھ مقالہ لکھ سکوں، اور کچھ هنٹس میں نے نوٹ کئے تھے لیکن عام طور پر جو آخری مقررین ہوتے ہیں، وه دسترخوان کے اس آخری مہمان کی طرح ہوجاتے ہیں۔ ان کے لیے کچھ نہیں بچتا ہے۔ اور اس حوالے سے میں نے کچھ ڈسٹرکٹ گزیٹر سے گوادر کے حوالے سے کچھ چیزیں ذہن میں رکھے تھے، وه تو یہ ہمارے بادینی صاحب نے بیان کر دیئے اور کچھ میں نے ادهر ادهر اخبارات سے اور مقالات سے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرکولر اور کالم پڑھے تهے وه تو سارا طاهر بزنجو صاحب نے بیان کر دیا۔ ملا بن کر فلسفہ بگاڑنے کا حق(مسکراتے ہوئے…)وه ملا صاحب نے بیان کر دیے (حبیب جالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) اس حوالے سے تو میرے لئے کچھ بچا تو نہیں.

بنیادی طور پر جو اس وقت آپ کا ایشو ہے، آپ نے خیر اپنے عنوان میں صرف گوادر کو رکھاہے لیکن اگر آپ اس کے بجائے اس عنوان کو ذرا وسعت دے کر کل بلوچستان کے حوالے سے جو مسائل ہیں وه رکھتے تھے، اس میں اسی طرح کے جو ملتے جلتے مسائل ہیں وه آپ کے گیس فیلڈ کے بهی ہیں، اس طرح کے کچھ ملتے جلتے مسائل کوہلو اور اس علاقے کے جہاں کہتے ہیں کہ تیل کے ذخائر ہیں۔ ان کے بهی ہیں، تو بہرحال ایک حصہ اس بلوچستان کا جس میں مختلف قسم کے مختلف مسائل بهی ہیں۔ تو بہرحال اس وقت عنوان میں صرف یہ رکھا ہے تو گذارش یہ ہے، اگر آئندہ اس طرح سیمنار آپ رکھتے ہیں تو مجموعی طور بلوچستان کے مسائل کو لے لیں اور اس کے علاوه جو گذارش ہے، وه ہے اتحاد کی بات بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہماری ریاست ہے، پاکستان کی وه بجائے فلاحی ریاست کے وه ایک غاصب ریاست کی ہیت اس نے اختیار کرلی ہے۔ فلاحی ریاستیں یہی سوچتے ہیں کہ ان کے افراد آپس میں جڑ جائیں، خاندان جڑ جائیں، قبائل جڑ جائیں، خطے جڑ جائیں اور اسی طرح ایک فلاحی مملکت کی ایک ہیت بن جائے بالکل اسی طرح جو ایک آیت میں نے آپ کے سامنے پڑھی اللہ تعالیٰ اسی سلسلے میں فرماتے ہیں کہ، يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ

کہ ہم نے تمہیں چھوٹی چھوٹی وحدتوں سے لیکر بڑی وحدتوں تک فرد ایک یونٹ ہے خاندان اس کے اوپر پهر ایک یونٹ ہے قبیلہ اس کے اوپر ایک اور وحدت بن جاتی ہے علاقہ اس کے اوپر ایک وحدت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور مملکت ایک بڑی وحدت بن جاتی ہے وحدتوں کا استحکام اس وقت ہو گا جب جب اس کی چھوٹی چھوٹی وحدتیں بهی مستحکم ہوں، اینٹیں اگر ٹوٹی ہوئی ہوں تو ان سے کوئی دیوار نہیں بن سکتی۔ دیواریں اگر شکستہ ہوں تو ان سے چار دیواری نہیں بن سکتی۔ چار دیواری اگر شکستہ ہو ان سے عمارتیں نہیں بن سکتی ہیں۔ یہ جو بنیادی طور فلاح ریاست کی، وه تصوری چیز ہوتی ہے کہ ہر یونٹ اپنے جگہ پر مستحکم ہو اور دوسرے کے ساتھ ملکر رہے۔ ہر ایک کے اپنے طبی حدود ہیں، ہر ایک کا اپنا دائرہ ہے، اسطرح جو ہے ایک مستحکم ریاست بن سکتی ہے، دوسرا جو تصور ریاست ہوتا وه غاصبانہ ہوتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ جناب جیسا کہ ساتھیوں نے فرمایا کہ the want role غاصب سلطنتیں جب چها جاتے ہیں تو وه کوشش کرتے ہیں کہ جناب ہم اپنی حکمرانی کو کیسے قائم رکھیں۔

حکمرانی کو قائم کرنے کے لیے مشہور ہے کہ سکندر نے جب یہاں حملے کیے اور اس پورے خطے میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنائیں واسکو صاحب نے اس سے کہا بادشاہیں بناؤ اور آپس میں لڑاؤ تمہاری حکومت مستحکم ہوجائے گا، اس نے بنائے، یہاں فلان شاه و کرمان شاه و متناشاه و کابل شاه یہ ساری وحدتیں جو کہتے بنیادی طور پر اس کے تصور پر بنائے اور سکندر نے بنائے اس طرح کی جو چهوٹی موٹی شاه بادشاہیں بنتی ہیں، انہیں آپس میں متصادم کیا جاتا ہے اور جو ہمارے حکمرانوں نے بهی جو پالیسی اختیار کی وه بدقسمتی سے فلاحی ریاست کا تصور نہیں تھا، اب بهی اسی طرح ایک غاصبانہ تصور ہے جناب قبیلے کو قبیلے سے لڑاؤ ، خاندان کو خاندان سے لڑاؤ ، طبقے کو طبقے سے لڑاؤ اور مظلوم کو فلاں سے ملا کو میاں سے اور سیکولر کو بقول ہمارے جالب صاحب کے کچھ ہے لڑا دو، تو یہ جو تصور ہے بنیادی طور پر پھیل گیا اور اس وقت ہم اسی کی سزا بھگت رہے ہیں، مجموعی طور پر، اسلام نے جو ہر ایک کے حقوق متعین کر دیے ہیں دوسری گذارش یہ ہے کہ عام طور پر ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو چند حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے علاقے غصب ہو جائیں گے”آڈی”( مزاقاً کہا)…..

اسلام یہ کہتا ہے کہ جس خطے میں ایک قبیلہ رہتا ہے وه زمین اسی قبیلے کا ہے، جس خطے میں ایک قوم رہتی ہے وه زمین اسی قوم کی ہے، جس خطے میں ایک خاندان ره رہا ہے، وه ذمین اس خاندان کی ہے، کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وه اسی کے اجازت اور مرضی کے بغیر وہاں جاکر غاصبانہ حقوق جمائے اور مداخلت کریں ہر ایک کے حقوق اپنی جگہ متعین ہیں، اب اسی گوادر کے مسئلے کو ہم لے لیں اس وقت، کہ گوادر، جو بنیادی طور بلوچستان کا ساحل ہے مکران کا ایک حصہ ہے، وہاں کے شہری آبادی کس حال میں ہیں، کوئی وہاں اگر جائے ان کی مرضی کے بغیر نہیں جانا چاہیے، اس کو یہ حق نہیں ملتا ہے، بنیادی طور پر البتہ یہ جو تهوڑا سا پس منظر میں آپ سے عرض کر رہا ہوں، باقی ساری چیزیں تو آگئیں گوادر کی تاریخ کے حوالے سے، ایک پوائینٹ ره گیا تھا کہ گوادر میں اسماعیلی برادری کی ایک دلچسپی قدیم سے چلی آئی ہے، سر آغا خان نے غالباً 1932 میں برطانوی حکومت کو درخواست دی تھی کہ یہ مجھے دیا جائے اور مسقط کے ساتھ بهی یہ گفتگو کی تھی، وه شاید منظور نہیں ہوئی 1933/34 میں جب وه دی لیگ آف نیشن کے صدر بنے تو وه دوبارہ اس سلسلے کو جوائن کی، اس کی بھی منظوری نہیں ہوئی آخر میں جب 1935 میں جب خان احمد یار خان مرحوم خان آف قلات ہوگئے تو کوئی مسٹر واکفی صاحب اس کے وزیراعظم تھے اس کو درخواست دی گئی دی تھی کہ پسنی سے 26 میل اورماڑه کی طرف ایک جزیرہ ہےخان آف قلات، وه مجھے دیں تو اس کے بعد جب پاکستان بننے کے بعد اس قبیلے کے کچھ صنعت کار تھے، ان میں امیر علی غالباً اس طرح کے تهے انہوں نے بھی کوششیں کی، مسئلہ یہ ہے کہ صنعت کاروں کی ایک دلچسپی گوادر کے ساتھ رہی ہے، ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ گوادر آباد ہو جائے لیکن جس طرح میں نے عرض کر دیا کہ صاحبِ زمین ہو، اس کی ملکیت سے دستبردار کرکے آباد کرنا کم سے کم اس کے مفاد میں نہیں ہوتا ہے، کوئی دوسرا آباد ہو تو ہو، لیکن بہرحال ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ گوادر والوں کی ذمینیں ہیں فلانہ ہے فلانہ۔

یہاں ایک دفعہ جنرل قادر صاحب گورنر تھے انہوں نے کچھ افراد کو بلایا تھا، ان میں ڈاکٹر مالک صاحب غالباً تشریف فرما تھے، کہنے لگے جناب 2005 تک تو آبادی کو پانچ لاکھ تک بڑھایا جائے گا تو ہم نے کہا جناب یہ تو گوادر کی آبادی اس کا کیا بنے گا؟ اس نے کہا کہ جناب 35 میل دور وہیں کہیں گوادر والوں کو بیٹھایا جائے گا، تو ہم نے عرض کیا کہ یہ تو اسی سمندر کے امید پہ یہاں بیٹھے ہیں، ان کو وہاں لے جاؤ گے تو سمندر کو ادھر لے جاؤ گے، تیسری بات جو اس نے کہا، جناب ترقی ہوگی، میں نے اس سے عرض کیا دو اچھی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ایک کراچی کی مثال ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ کراچی میں مہاجرین یا کسی دوسری کو آباد نہ ہونے دیا جاتا۔ بے شک دیا جاتا لیکن وسائل کے تقسیم میں عدم تناسب ہے، وه کیفیت پیدا کردیا ہے جو کہ آج وہ وہاں کے مقامی باشندے تھے ایک بلوچ یا کچھ سندھی میمن ٹائپ کے لوگ، وہ وہاں لیاری اور چاکیواڑه میں پڑے ہوئے ہیں اور باقی سبھی ترقی دوسری طرف چلی گئی، وه آج وہیں کے وہیں ره گئے یہ وسائل کی تقسیم میں عدم توازن اور عدم تناسب کا نتیجہ تها اگر یہاں بھی جو کمپنیاں ملٹی نیشنل کمپنیاں ہونگی یا صنعت کار ہونگے یا کوئی بھی ہوگا، وه یہاں آکر اسی طرح سڑکیں بنائے اور محلے بنائے، کالونیاں بسائے اور جو کچھ کریں، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ جو مالکان زمین ہیں ان کے ٹکڑے کئے ان کا کیا بنے گا؟ ان کا بس وہی قسمت نظر آ رہا ہے۔

دوسری مثال ڈیرہ بگٹی اور سوئی کی ہے، بگٹی قبائل اس زمین پر رہ رہے ہیں، پتہ نہیں وه زیادہ سے زیادہ دس ہزار مربع میل کے اندر ہیں، اس سے زیادہ نہیں ہیں، وہاں اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی مائینر کمپنی ہے، یہ سوئی کی اس ریسورس کو نکال رہی ہے، اس کی جو اعداد و شمار جو صاحب نے یہاں بتایا کہ کہ کتنے کھرب سالانہ اس کی آمدنی ہے اور خود اس خطے میں آپ جائیں گے، آپ حیران ہوں گے کہ وہی بگٹی اسی زمین کے مالک ہے، اس کی زمین سے یہ سب کچھ نکل رہا ہے نہ ان کو رہنے کیلئے گھر ہے نہ چلنے پھرنے کے لیے راستہ ہے، کمپنی کے تنصیبات کھڑے ہیں، وه بیچارے وہیں دربدر ہیں، وه دربدری جائے جہنم میں اپنی جگہ، انہیں لڑایا بھی جاتا ہے، یہ حال ان کا ہے، ایک پتہ نہیں کلپر ہے، یہ مارے اس کو وه قتل کریں وغیرہ.

اس کے اوپر ہر گلی میں جوہی سپاہی صاف کھڑے ہیں اور پاجامے کی تلاشی لیتے ہیں، تم کہاں سے آئے ہو؟ تم کون ہو؟ کدھر جا رہے ہو؟ یعنی یہ بدحالی ہے، اگر یہ فلاحی ریاست ہوتی ہے تو کم سے کم، باقی پاکستان اور بلوچستان جائے جہنم میں، یہ تو ہو جاتا کم سے کم کوئی دیکھ کے اس کو راستہ دے دیتے سب سے زیادہ تباہ حال خطے اس وقت وہی ہیں۔ تو اگر یہ دولت بقول ان کے یہ سرمایہ ہے ڈیپ سی پورٹ وغیرہ اگر جو کچھ ہے اسی طرح کا وبائی جان ہمارے لئے بن جائے تو پهر اس کا ہونے سے نہ ہونا بہتر ہوگا میرے خیال سے۔

آخر میں ایک گزارش یہ بھی، آپ کی خدمت میں کہ اتحاد اور جماعتوں کے حوالے سے جو کچھ میں نے قرآن سے سمجھا تھا آپ کی خدمت میں عرض کردیا، ایک اور چیز میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ ماضی بنیادی طور پر قابل اصلاح بھی ہوتی ہے، عبرت کے لیے ہوتی ہے، جب بھی کوئی اتحاد بنی کوئی قومی تشخص قائم ہو، تو ماضی پے دست اندازی کی کوشش نہ کی جائے، کیونکہ اس سے اتحادوں کو اکثر و بیشتر نقصان پہنچتا ہے.

قرآن میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ میں خدا کا نمائندہ ہوں اور مانو وگرنہ کافر ہو جاؤ گے، وه مدبر بادشاہ تھا اس نے اپنے درباریوں کے سامنے ذرا سوچ کر پوچھا کہ جناب ہمارے لئے تو کفر کا حکم ہے، ہمارے ماں باپ قبول خدا ہوں، جو پچھلی ہماری نسلیں تھیں، دین تھے ان کا کیا بنے گا؟ وه سمجھ رہا تھا کہ موسی علیہ السلامٰ ان کو بھی کہے گا کہ کافر ہیں۔ اس سے جو موجود ان کے جذبات مشتاق ہوں گے اور وه خود اس سے نمٹ جائیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام بھی پیغمبر تھا اس کا بھا مدبرانہ ذہن تھا، الله تعالى نے دیا تھا، اس نے کہا کہ” قرآنی آیت….. ان کا مقدمہ میرے خدا کے سامنے پیش ہے وه جانے ان کا مقدمہ جانے میں تمہارے لیے آیا ہوں اور تمہیں بتا رہا ہوں کہ تمہارا حشر کیا ہو گا” اس کا مقصد یہ بنیادی طور پر کہ عام طور پر جو ہمارے قوم پرست جماعتیں کہلاتے ہیں، وه میں اس اصطلاح کے حق میں نہیں ہوں، میں کہتا ہوں پرستی تو خدا کی کرو، قوم دوست بن جاؤ، محب وطن بن جاؤ، باقی یہ پرستش کا لفظ عبادت کے مفہوم میں شامل ہے، عبادت ایک خدا کی ہونی چاہیے وہی کافی ہے، غیر اللہ کی عبادت بنیادی طور پر ، نفسیاتی طور پر بھی اس کے اثرات مفید نہیں ہوتی ہیں۔ لیکن بہرحال جو بهی ہو، وه حضرات جو کہتے ہیں کہ قوم تو جناب ہر وقت کسی نہ کسی طریقے میں، کسی نہ کسی مرحلے میں سیاست میں شریک رہے ہیں اقتدار میں بهی تھوڑی بہت شریک رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ اقتدار میں انکا حصہ کتنا رہا اور باقیات میں کتنے رہے ہیں یہ سبھی چیزیں ہمیں معلوم ہیں لیکن ایک طعنہ زنی کی حد تک ہم ایک دوسرے کو کہہ سکتے ہیں کہ تم وه ہو، اور تم وه ہو۔
یہ نہ کہیں کہ ماضی قابل اصلاح نہیں ہے.
اگر ہم کہیں کہ جناب ہم فلاں اور فلاں اجداد کے نواسے اور پوتے اور فلاں ہیں، اس سے ہمارے قدر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ ہمیشہ کسی انسان کے اعمال کا پیمائش کسی اچھے شخص پہ ہوتا ہے، ہم یہ نہ کہیں کہ یہ کالا ہے یہ گورا ہے یہ فلاں کا نواسا ہے اور یہ فلاں کا پوتا ہے ہی نہیں، اس کے عمل کو اس کے شخصی پیمانے پہ پیمائش کرکے اس کا سزا یا جزا جو کچھ ہے اس کو دیا جاتا ہے۔
فارسی میں کہتے ہیں کہ
گوهر نمائے جوهر زاتی هیش باش
خاک از با سرے زنده بنام خدا بود
اس لئے ماضی کے ادوار کو فخر کے مادات میں بھی کام زیادہ نہیں ہوتا ہے اور اصلاح بھی اس کی نہیں ہو سکتی اور ہاں ، اس کے تقاضے ہو سکتے ہیں ماضی میں اگر کوئی غلطی ہوجائے اس کا تدارک ہو جائے اس کو دوبارہ نہ دوہرایا جائے بس اتنا ہی کافی ہے، اس سلسلے میں گذارش کرتا ہوں، اپنے دوستوں سے کہ وه زیاده سے زیاده ماضی کے حوالے سے خوش اسلوب ہوجائیں، اگر مستقبل میں ایک قوم بننا ہے، اگر نہیں دشمنی ہے تو چلاؤ۔
اگر قوم بننا ہے تو…

ایک گذارش یہ بھی ہے کہ قوم جو بهی ہو وه انسان ہوتے ہیں، انسان سے قومیں بنتے ہیں، لہذا ہر قومی مسئلہ ہی انسانی مسئلہ ہی ہوتا ہے، یہ نہیں ہے کہ جی بلوچ قوم کا مسئلہ ہے، انسانی مسئلہ نہیں ہے، نہیں قوم انسانوں سے بنتا ہے اور ہر قومی مسئلہ انسانی مسئلہ ہوتا ہے لہٰذا جس مسئلے کو قومی سطح پر اٹھاتے ہو اس کے انسانی فرموں کو اٹھاؤ، انسانی بنیادوں پر دوسروں کو بلاؤ دوسروں کو دعوت دو،دوسروں کو تلقین کرو، دوسروں کے ساتھ ملو، اور اگر ہر مسئلے کو اگر انسانی بنیاد پر الجھا کرو گے اور یہ پشت زمین پر انسانوں کی بڑی ایک تعداد ہے، غاصب بھی ہیں ان میں ظالم بھی ہیں اور ہمدرد بھی بہت سارے آپ کو ملیں گے ان شاءالله۔ لہٰذا یہ بات آپ کے ذہن میں رہے۔.

آخر گذارش آپ کے خدمت میں یہ ہے کہ جو سیمینار آپ رکھتے ہیں، اس طرح کے اور مقالات جو پڑھتے ہیں میرا تو خیر ره گیا ساتهیوں نے پڑھ لیا تو اس کا ایک خلاصہ آپ نکال لیں اور اس کو طبع کریں اور اس کو تقسیم کریں، اس سیمینارمیں آپ کے ہزار یا ڈیڑھ ہزار بندے ہونگے، انہوں نے سنا ہوگا، باقی تک آپ کی آواز کیسے پہنچ سکتی ہے؟ اس کیلئے باقاعدہ طور پر اکیڈمک انداز میں، جو اعداد و شمار یہاں بڑے اچھے دیئے گئے، فوائد بھی بتائے گئے، نقصانات بھی بیان کیے گئے، تو یہ ساری چیزوں کو آپ مرتب کرکے اکیڈمک انداز میں شائع کریں، تاکہ دوسروں تک آپ کی آواز بھی پہنچ جائے۔

ایک گزارش یہ بهی ہے، ایک ذہن بنایا جارہا ہے، ایک عرصے سے غالباً 1985 ، 1986 میں مجھے یاد ہے کہ کچھ لوگوں نے اخبارات میں بیانات دیئے تھے کہ مکران کو کراچی کے ساتھ ملایا جائے، اس وقت کے جو ہمارے ساتھی دونوں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اللہ ان کی مغفرت کرے، اس سے اس وقت میری بات ہوئی، یہ کس بنیاد پر کہ وه دونوں اس بیانات میں شریک تھے کہ کس بنیاد آپ لوگوں نے یہاں بیانات دیئے؟ تو انہوں نے کچھ سہولتوں کا ذکر کیا کہ کراچی میں ہمیں وه سہولیتیں ملیں گی، جو ادهر بلوچستان کے ساتھ ہمیں نہیں ملیں گی، میں نے ان سے عرص کیا کہ اس وقت مکران کو عام طور پر جیسا بهی ہے لیکن بلوچستان کا سر شمار کیا جاتا ہے، اس ساحل کے حوالے سے، آپ اگر اس کو سندھ کے ساتھ شامل کرو گے تو یہ سندھ کا دم بن جائے گا۔ اس لیئے میں نے ان سے گذارش کی کہ دم بننے کے بجائے اسے سر رہنے دیا جائے بہتر رہیگا۔

یہ کچھ گذارشات تھیں، آپ کے خدمت میں اگر کوئی چیز آپ کو ناگوار گذری ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں۔