مجھے انسان بننے دیں

397

مجھے انسان بننے دیں

تحریر:عبدالواجد بلوچ

وہ سفر انتہائی کٹھن ہوگا، اتنا یقین نہیں تھا، خوشگوار ماحول میں سوچوں کی سمندر میں غوطہ زن وہ لمحے جو ایک عظیم مقصد کیلئے دماغ کے پر پیچ دریچوں کو دستک دے رہی تھیں، جن سے منزل کی جستجو نئے خیالات تجزیاتی پہلوؤں سے بھرے شعور کی پیدائش اور بڑھوتری پنہاں تھا۔ اچانک سفر اور اس مسافت کی پیچیدگیوں سمیت سنگلاخ و سرمئی پہاڑوں کے درمیان گذرا ہر لمحہ مجھے عجیب سی کیفیت میں مبتلا کررہا تھا۔ ڈر، خوف اور سراسیمگی کے باوجود اپنی سوچوں میں اتنا مگن تھا کہ کہیں خیال بھی نہیں آرہا تھا کہ آگے چند مسافت پر ایک ایسا طوفان برپا ہونے والا ہے، جو مجھے تنگ و تاریک کوٹھیوں میں بند کرکے غلامی کی انتہاء درجے تک پہنچادے گی۔ مجھے انسانی سرحد سے نکال کر جانور تصور کیا جائے گا سوچا نہیں تھا، وہ لمحہ مجھے اپنی سرزنش ندامت سے بالکل ہی بے خبر رکھے ہوئے تھا کہ میری چھوٹی سی غلطی مجھے ایک ایسے تجربہ گاہ کی جانب کھینچا جارہا ہے، جو میرے وجود کا یا تو خاتمہ کریگا یا میرے سوچ اور نظریات کو جلا بخشنے والا ذریعہ بن سکے گا لیکن فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں، بنی نوع انسان صرف خواہش کرسکتی ہے۔ جی ہاں یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ ”ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔“

اپنے خیالی دنیا میں میں ایسا جہاں سنوار رہا تھا،جو میرا وجود اپنے سماج میں رہنے والی بنی نوع انسان کی آزادی و خوشحالی کیلئے ایک خوبصورت خاکہ پیش کررہا تھا۔ انہی سوچوں کی لہروں سے ایسا ہی نکلنے والا تھا تو دیکھا کہ چاروں اطراف مجھے ایسی بھیانک طوفان نے آگھیرا ہے، جس سے نکلنا میری موت و زیست کا سبب بن سکتا تھا، پر نکلوں کیسے اس طوفان کی تباہ کن لہروں نے مجھے ایسا جکڑا ہوا تھا کہ کچھ بھی میرے بس میں نہیں تھا،اچانک میرے اوپرپرائے و انجان معاشرتی جانوروں کی طرف سے ایسے نشتر برسنے لگے، جو مجھے ہر لمحہ غلامی ذلت رسوائی پشیمانی اور نفرت کا درس دے رہی تھیں۔ میں ہر لمحہ اپنی بے بسی پر نوحہ کناں تھا کہ جس سرزمین پر میں نے جنم لیا ہے جہاں کی مٹی مجھے میرے وجود کا احساس دلاتی ہے، جس کے ذریعے میرے اندر یہ سوچ معرضِ وجود پاگئی کہ میں انسان ہوں، مجھے بھی جینے کا حق ہے۔ نا میں نے کسی سے سے اس کے منہ کا نوالا چھینا ہے اور نا ہی کسی کے وجود کے لئے خطرہ ثابت ہوچکا ہوں۔ میرا جرم میرا قصور و گناہ صرف یہی ہے کہ میں کہتا ہوں ”مجھے جینے دو،مجھے سانس لینے دو تاکہ میں زندہ رہوں ایک کامل انسان کی طرح“

عجیب سی کیفیت تھی ان لمحات کے بارے میں کبھی کبھار بیٹھ کر سوچتا ہوں، تو یقین ہوجاتا ہے کہ میں پاگل ہوں اور جنون میرے رگ رگ میں سما چکی ہے کیونکہ میں ایک ایسے سماج سے مخاطب ہوں، جہاں انسانیت کی کوئی قدر نہیں، جہاں انسان سے زیادہ جانور مہذب مخلوق ہیں، جہاں زبانوں پہ تالے اور اذہان پر پھیرا بٹھا دیا گیا ہے، اس سماج میں جب بات اپنی بقاء کی کی جائے تو تنگ و تاریک کوٹھیوں وطویل غلامی کی نذر نا کیا جائے، تو اور کیا کیا جائے؟ اندھوں کے سماج میں جب کانا راجہ ہو تو وہاں انسانیت کی تبلیغ گناہ کبیرہ ٹھہرتی ہے، جہاں زباں بندی عافیت سمجھی جاتی ہے جہاں آنکھوں پر پٹی باندھ کر ضمیر پر پتھر رکھنا ہی عقل مندی سمجھی جاتی ہے لیکن میں نے اس سماج سے بغاوت کی ہے، میں نے خواب دیکھے، اپنی خوشحالی کے لیئے میں نے ان خوابوں کو نہایت ہی خوبصورتی سے آراستہ کرکے اپنے سماج کے ہر ساہ دار کے لئے ایک نئی دنیا آباد آبادکرنے کا سوچا ہے۔

دنیا میں انسان ابھی تک ناپید نہیں ہوچکی اور نا ہی انسانیت حالتِ نزاع میں ہے، تو کیوں نا میں اپنی بقاء و سلامتی کے خواب نا بنوں؟ کیوں مجھے میری دنیا بسانے نہیں دیا جارہا؟ میں نے تو کسی کی سالمیت و بقاء پر پتھر نہیں پھینکا، تو کیوں کوئی غیر آکر مجھے پتھر مار کر لہو لہان کردے؟ جب میں کہتا ہوں میں جینے کا لائق ہوں، مجھے جینے دو میں بات کرنا چاہتا ہوں، اپنے باطن کے چھپے درد کو اظہار کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہتا ہوں، تو مجھے ان تنگ و تاریک کوٹھیوں کے سپرد کیا جاتا ہے، جہاں انسان بمشکل سانس لے پاتا ہے جہاں ڈالنے کے بعد ذلت و رسوائی کے ایسے نشتر برسائے جاتے ہیں جو ہر لمحہ اپنی ہی زمین پر غلامی کا احساس دلاتے ہیں۔ کبھی کبھار ایمان کے طعنے بھی بغیر کچھ ادا کئے ہوئے تحفے میں دی جاتی ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذات کو بھی گالی تصور کی جاتی ہے۔کیوں کیوں کیوں؟ کیا میں انسان نہیں؟ میں جی نہیں سکتا؟ میں سانس نہیں لے سکتا یا مجھے لینے کا حق نہیں؟ مجھے دو جملے بھی کہنے کی اجازت نہیں؟ تو مجھے زندہ کیوں رکھا گیا ہے؟ جب میرے منہ سے زبان چھینی گئی، میرے دماغ سے سوچ کا خاتمہ کیا گیا، میری بات کرنے کی صلاحیت ختم کی گئی، میرے ضمیر پر تیز میخ ٹھونک دیئے گئے، تو صرف ایک کھوکلا بت مجھے کیوں بنایا دیا گیا ہے، میں اس صورت میں انسان کے ضمرے میں آجاتو ہوں؟ اگر نہیں تو انسانیت کو کیوں بدنام کیا جارہا ہے، انسانیت کے گیت کیوں گائے جاتے ہیں؟ انسان ہی نہیں تو انسانیت کا کیا مول؟