لیاری میں مہرعلی کی ماورائے عدالت قتل کے اصل حقائق – ٹی بی پی اسپیشل اسائنمنٹ

1356

لیاری میں مہرعلی کی ماورائے عدالت قتل کے اصل حقائق

دی بلوچستان پوسٹ اسپیشل اسائنمنٹ

” اماں فکر نہیں کرو، ہم چھوڑ دیں گے” یہ الفاظ اس وقت ماہ بی بی کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں، جب رینجرز اہلکار اسکے بیٹے مہر علی کو گھسیٹ کر اپنے ایک گاڑی میں لاد رہے تھے۔ اسکی بے بسی میں قیامت کا درد تھا لیکن اسکے پاس رینجرز اہلکار پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس لمحے کے بعد وہ مہر علی کیلئے 484 دن انتظار کرتی رہی۔

یہ 14 نومبر 2016 تھا، اسی طرح کا سقوط ماہ بی بی دس سال پہلے بھی دیکھ چکی تھی، جب 2006 میں اسکے شوہر اور تین بچوں کے باپ کو بلوچستان کے علاقے تیرتیج آواران میں ایک ذمینی تنازعے پر بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ قاتل کے پیچھے مبینہ طور پر بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کا ہاتھ تھا۔ وہ اتنے طاقتور تھے کے ایک بیوہ انکا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ ٹھیک دس سال بعد ماہ بی بی کا سامنا پھر اسی طرح کے ظالموں سے ہوگیا تھا کہ وہ اتنے طاقتور تھے کہ ان سے کوئی سوال پوچھا نہیں جاسکتا نا ان سے بازگشت کی جاسکتی ہے۔

سال 2006 میں مہر علی گوکہ نوعمر تھا لیکن اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، اس لیئے گھر والوں کیلئے کمانے کی ذمہ داری ایک چھوٹے عمر میں اس کے کندھوں پر آن پڑی تھی۔ اسے پرائمری اسکول کے بعد تعلیم کا سلسلہ روکنا پڑا تھا، اور روزگار کی تلاش میں وہ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں اسے فیکٹریوں میں کم اجرت پر سخت محنت کرنا پڑتا تھا تاکہ وہ اپنے بہن بھائیوں اور والدہ کے نان شبینہ کا بندوبست کرسکے۔ وہ اس محنت مزدوری کیلئے بہت چھوٹا تھا لیکن اسے وقت سے پہلے بڑا ہونا پڑا۔

وہ لیاری کے سینگولین میں رہائش پذیر تھے، گوکہ زندگی یہاں مختلف تھی لیکن اونچ نیچ کے ساتھ چل رہی تھی، پھر 14 نومبر 2016 کا دن آیا۔ مہر علی مغرب کے آذان کے وقت سنگولین کے گلی نمبر 11 میں تھا۔ اچانک رینجرز نے پورے علاقے کو گھیرے میں لیکر تمام نوجوان مردوں کو حراست میں لے لیا، یہ لیاری میں معمول کی بات ہے، ماہ بی بی سب اپنے آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھ رہی تھی اور رینجرز اہلکاروں سے التجاء کررہی تھی کے اسکے لختِ جگر کو چھوڑ دیں۔ اسے کہا گیا کہ بس پوچھ گچھ کرکے چھوڑ دیں گے، لیکن پھر اسے کبھی زندہ نہیں چھوڑا گیا۔

15 نومبر 2016 کو ایک مقامی اخبار، روزنامہ جانباز کراچی نے مہر علی کے گرفتاری کے خبر کو شائع کیا۔

ماہ بی بی کے اگلے کئی دن اپنے گمشدہ بیٹے کی تلاش میں گذر گئے، وہ نا صرف جذباتی بلکہ معاشی طور پر شدید دباو کا شکار تھی لیکن اسکے باوجود وہ اپنے بیٹے کو ڈھونڈتی رہی۔ اس نے چپا چپا چھان مارا، وہ پولیس اسٹیشن اور رینجرز ہیڈ کوارٹرز گئی تاکہ اپنے بیٹے کی خبر لے سکے، لیکن اسے کچھ نہیں بتایا گیا، اس نے کچھ سیاستدانوں سے بھی رابطہ کیا لیکن قسمت نے وہاں بھی ساتھ نہیں دیا۔

اس نے رینجرز کے ڈاریکٹرجنرل کے نام ایک درخواست بھی لکھ ڈالا اور التجا کی کہ اگر مہر علی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ ماہ بی بی نے اس خط کا ایک کاپی دی بلوچستان پوسٹ کو ارسال کیا ہے۔

جب پھر بھی کچھ نہیں ہوا، تو کچھ نیک خواہوں نے ماہ بی بی کو مشورہ دیا کہ وہ عدالت میں مہر علی کیلئے ایک پٹیشن دائر کردے۔ عدالت و کچہری اور وکیلوں کا فیس ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی لیکن ماہ بی بی نے کسی طور ایک سستے وکیل کا بندوبست کرکے عدالت میں پٹیشن دائر کردی۔ بہرحال مہر علی کے گرفتاری کے ایک ہفتے بعد سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی۔

اس نے التجا کیا تھا کہ اس کا بیٹا بے گناہ ہے اور اسکا کسی بھی گروہ سے کوئی تعلق نہیں، وہ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہے، اسکے گرفتاری کے بعد سے ابتک مہر علی کا خاندان انتہائی تکلیف دہ زندگی گذار رہی ہے۔

ماہ بی بی نے کورٹ کو بتایا کہ رینجرز اسکے بیٹے کے گرفتاری کو چھپا رہے ہیں اور اسے ڈر ہے کہ کہیں اسکے بیٹے کو کسی جعلی مقابلے میں مار نہیں دیں، اسے پتہ نہیں تھا کہ ایک دن اسکا یہ شک یقین میں بدل جائیگا۔

کورٹ نے رینجرز کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا لیکن رینجرز نے اس بات کو مسترد کردیا کہ مہر علی انکے پاس ہے، بالکل اسی طرح جس طرح دوسرے لاپتہ افراد کے کیسوں میں دیکھا گیا ہے، اس کے بعد عدالت بھی کچھ نا کرسکی۔

دی بلوچستان پوسٹ کو سندھ ہائی کورٹ میں دائر اس پٹیشن پر رسائی حاصل ہوئی ہے، جسے یہاں قارئین کی دلچسپی کیلئے شائع کیا جارہا ہے۔

تاہم ماہ بی بی اپنے بیٹے کی جان کی لڑائی اتنی آسانی سے نہیں ہارنے والی تھی، اسے جو بھی تجویز دیا جاتا، وہ اس پر عمل کرتی، وہ مختلف لوگوں سے ملی، وہ ہر ہفتے کسی سے ملتی اور اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے التجا کرتی، کسی نے اسے کہا کہ وہ میڈیا کا سہارا لے تو ماہ بی بی نے یہ راستہ بھی اختیار کیا۔

23 فروری 2018 کو وہ بمشکل مختلف علاقائی اخباروں میں مہر علی کی خبر شائع کرانے میں کامیاب ہوئی، کم از کم دو اخباروں روزنامہ اسپیشل کراچی اور آزاد ریاست نے اسکی کہانی بمعہ مہر علی کے تصاویر شائع کیئے۔

ان اخبارات کی کاپیاں جنہوں نے 23 فروری 2018 کو مہر علی کی کہانی شائع کی،

خبریں شائع ہونے کے بعد اب وہ اپنے کاوشوں کے ثمرات کا انتظار کرنے لگی، اب کے بار اسے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا، 13 مارچ 2018 کو پاکستانی رینجرز پر اسی علاقے میں جہاں سے مہر علی اغواء ہوا تھا، کچھ نامعلوم مسلح افراد حملہ کرتے ہیں، جس کے بدلے میں رینجرز ایک آسان سے بدلہ لیتا ہے، رینجرز کے حراست میں مہر علی اور کچھ بے قصور بلوچ نوجوان ہوتے ہیں۔ وہ اسی مقام پر ان میں سے چار کو مار دیتے ہیں اور میڈیا میں انہیں دہشتگرد ظاھر کردیتے ہیں۔ اس جعلی مقابلے میں پاکستانی میڈیا اپنے بہادر سپاہیوں کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں۔

اب ماہ بی بی کا انتظار ختم ہوچکا ہے، مہر علی بالآخر گھر آچکا ہے لیکن زندگی کی بازی ہار کر۔ اب وہ اپنے والد کی طرح ناکردہ گناہوں کی سزا پاکر قبرستان میں آرام کررہا ہے۔ دونوں باپ بیٹے ایسے بے لگام قوتوں کے ہاتھوں مارے گئے، جن سے کوئی کچھ نہیں پوچھ سکتا۔