لیاری میں بلوچ نسل کشی – محراب بلوچ

447

لیاری میں بلوچ نسل کشی

محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ شب پاکستانی رینجرز اور پولیس نے لیاری کے علاقے علی محمد محلہ میں ایک جعلی مقابلے میں پانچ بلوچ فرزندوں کو شہید کردیا۔ پاکستانی ادارے گذشتہ 70 سالوں سے ہر جگہ بلوچ نسل کشی میں مصروف عمل ہیں ۔ آواران سے لیکر تربت اور کوئٹہ سے لیکر کراچی تک کہیں بھی بلوچ پاکستانی بے لگام آرمی اور اس سے متعلقہ اداروں کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ نوجوان کسی بھی قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور قوموں کی بہتری اور فلاح کے لئے نوجوانوں کا کردار اہم ہے۔

دنیا کے دیگر نوجوانوں کی طرح بلوچ نوجوان بھی اپنی قومی بھلائی اور آزادی کے لئے ریاست پاکستان سے برسر پیکار ہیں، بلوچ قومی آزادی کیلئے نوجوانوں کی قربانیوں کو کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ قوم کے نوجوانوں نے شعوری بنیادوں پر ریاست کی ہر اس حکمت عملی کو ناکام بنایا ہے، جو ریاست نے بلوچ قوم کے لئے بنائے تھے اور اسی حکمت عملی کی ناکامی نے ریاست کو اتنا خونخوار اور وحشی بنا دیا ہے کہ وہ ہر بلوچ نوجوان سے خوفزدہ اور خائف نظر آتا ہے، اسکو ہر بلوچ میں بی ایس او کا کیڈر نظر آتا ہے اسی لیئے ریاست نے اپنے وحشی پن کا رخ بلوچ نوجوانوں کی طرف کردیا ہے۔

لیاری علی محمد محلہ میں پیش آنے والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی ریاست اور اسکے کارندوں کے ہاتھوں کئی بے گناہ اور معصوم بلوچ نوجوانوں کو جعلی پولیس اور رینجرز مقابلوں میں مارا گیا اور انہیں گینگ وار ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کراچی کا علاقہ لیاری جو ادب اسپورٹس اور علم دوست لوگوں کا مرکز تھا، جسے ریاست پاکستان نے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لئے پی پی پی اور گینگیسٹرز کے حوالے کرکے عام اور غریب بلوچ کی زندگی اجیرن بنادی ہے، لیاری میں جو بلوچوں کے خون کو پانی کی طرح.بہایا جارہا ہے، اسکے نتائج ریاست اور اسکے حواریوں کے لئے سنگین ہونگے۔
,
کراچی ایک انٹر نیشنل شہر اور کثیر آبادی کی وجہ سے کثیر قوموں کا مسکن ہے اور یہاں سب سے جو قدیم آبادی ہے، وہ آبادی بلوچوں کی ہے، جسے لیاری کے نام سے جانا جاتا ہے، لیاری بلوچوں کا وہ مسکن ہے، جہاں بی ایس او جیسی تنظمیوں کا قیام عمل میں آیا، یہ وہی لیاری ہے جہاں بلوچ قوم پرستوں نے بھٹو کو شکست دی تھی، یہ وہی لیاری ہے جس نے بڑے ناموں کو جنم دیا اور یہ وہی لیاری ہے جس کا دل اپنے بلوچستان کے بلوچ بھائیوں کے ساتھ دھڑکتا تھا، اسکو رام کرنے کیلئے کچھ ایسے کرائے کے سپاہیوں کی ضرورت ہوئی، جو سرکاری مفادات کے لئے کام کریں اور اس سرکاری ٹولے کو لیاری گینگ وار کی شکل میں بلوچ قوم پر مسلط کردیا گیا، ان کا اہم کام علاقے میں منشیات فروشی اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف کام کرنا تھا اور ایسے ریاستی غنڈوں کو پروان چڑھانے میں پاکستان کی رینجرز اور دیگر سیکورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا.

لیاری کے بلوچوں کو آپس میں دست و گریباں کرکے ریاست نے ہمیشہ اپنا مفاد حاصل کیا اور جب انکی ضرورت ختم ہو گئی تو انہیں راستے سے ہٹادیا گیا لیکن تکالیف اور درد ہمیشہ عام بلوچ کے حصے میں آئے ۔ عزیر بلوچ سے لیکر غفار ذکری تک تمام مہرے ریاست نے استعمال کیئے اور اب جب انکی ضرورت ختم ہو گئی، تو انہیں ٹھکانے لگانے کے لئے ایک بار پھر بلوچ نوجوانوں کی نسل کشی کی جار رہی ہے ۔

. گذشتہ رات کے واقعے میں شہید ہونے والے بلوچ فرزندوں میں چاکر ذہنی توازن سے عاری ایک نوجوان تھا، جبکہ مہر علی ولد معیار علی جنہیں تقریباً دو سال قبل اغوا کیا گیا تھا اور آج اس جعلی مقابلے کا ڈھونگ رچا کر نوجوان مہر علی کو دیگر بلوچ نوجوانوں کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ ان نوجوانوں میں کوئی بھی دہشت گرد یا گینگ کا کارندہ نہیں تھا، سب معصوم اور بے گناہ تھے، جن کا کسی بھی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور ان کی گواہی علاقے مکین بہتر دے سکتے ہیں ۔

لیاری کے بلوچ نوجوان پاکستان کی اصلیت اور ان کے اداروں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان اور یاکستانی طاقتوں کے خلاف بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنیں کیونکہ بلوچ تحریک ہی بلوچ قومی بقا کا ضامن ہے۔