طالبان کو افغان حکومت سے ہی بات کرنی ہوگی: امریکہ

206

کابل امن عمل کے دوسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اعلیٰ امریکی سفارت کار ایلس ویلز نے کہا ہے کہ امن کے قیام کے معاملے پر افغان راہنماؤں کا عزم اور انداز واضح ہے، اور یہ کہ اُن کا مؤقف جراٴت مندانہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اب یہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا عملی مظاہرہ کریں کہ وہ بات چیت پر تیار ہیں‘‘۔

ایلس ویلز نے کہا کہ ’’بات چیت بین الاقوامی برادری یا امریکہ کے ساتھ نہیں، بلکہ جائز اور اقتدار اعلیٰ کی مالک افغان حکومت اور افغانستان کے عوام کے ساتھ‘‘ کرنا ہوگی۔ جنوب و وسط ایشیائی امور کے بارے میں چوٹی کی معاون وزیر خارجہ نے یہ بات امن اور سلامتی کے معاملے پر تعاون سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ امریکی مؤقف ’’غیر مبہم‘‘ ہے۔ اُن کے الفاظ میں ’’ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تنازع کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہےکہ مذاکرات کے ذریعے ہی اس معاملے کا حل نکل سکتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی حمایت کرے گا’’۔

بقول اُن کے، ’’ہم حکومت اور افغان معاشرے کے تمام متعلقہ فریق کی حمایت کریں گے، تاکہ وہ بات چیت کے ذریعے باہمی رضامندی پر مبنی حل تک پہنچ سکیں جس سے یہ تنازع ختم ہو اور اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دہشت گرد گروپ افغانستان کو پھر کبھی محفوظ ٹھکانے کے طور پر استعمال نہیں کریں گے‘‘۔

ایلس ویلز نے جنوبی ایشیا کے بارے میں صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی کی بنیاد شرائط پر مبنی ہے، جس سے طالبان پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ بلکہ، مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر افغان حکومت کو اپنی جائز شکایات بتا سکتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ کے خلاف ہونے والے بدترین دہشت گرد حملے کی منصوبہ سازی اور احکامات افغانستان سے آئے تھے، جس کی حکمرانی طالبان کرتے تھے، جس نے دہشت گردوں کو سہولت اور پناہ دے رکھی تھی۔ سترہ برس بعد ہمارا مقصد وہی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گرد گروپوں کو محفوظ ٹھکانہ میسر نہ آئے، جہاں سے وہ ہمارے اوپر، علاقے میں یا بین الاقوامی برادری کے خلاف حملہ نہ کر سکیں۔