ضیاء، گاؤں کی امید – شہناز زہری

301

ضیاء، گاؤں کی امید
تحریر۔ شہناز زہری

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

ایک گاؤں ہوا کرتا تھا، جہاں جہالت کے گھپ اندھیرے کا راج تھا، جہاں اس اندھیرے میں اسی کا سکہ چلتا، جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی۔ جہاں لاچار اور لاچار ہوا چلا جا رہا تھا، مظلوم کی مظلومیت سسک سسک کر مرنے کی بھیک مانگ رہی تھی۔ جہاں نوجوان بھٹکتے راستوں پر گمنام ہوکر زندگی کے مردہ خانوں میں سج سنور کر موت سے بدتر زندگی جی کر بھی خاموشی اختیار کر بیٹھے تھے۔ جہاں بزرگ ٹوٹتے بیساکھیوں میں اپنے موت کا تصور ڈھونڈ تے رہتے، مگر انہیں زندہ رہنا تھا کہ انکے رسم و دود میں عورتیں لاشوں کو کاندھا نہیں دے سکتے تھے۔ جہاں حوا کی بیٹی بڑی ہونے پر سردار کی لونڈی یا پھرے دار کی غلامی قسمت کی لکیروں میں لیکر آتی تھی۔ جہاں نوجوانوں کو دین و دنیا سے زیادہ غلامی کا درس دیا جاتا رہا۔ جہاں رات دن سے زیادہ دلوں پر تاریکی بکھیر دیتا، سورج ڈوبتے ہی زندگی کے امید دم توڑ دیتی، دن کی روشنی میں موت چیخ چیخ کر لوگوں پر مسلط ہوا کرتا تھا۔ جہاں لوفر و لٹیروں کا راج ڈنکے کی چوٹ پر سر چڑھ کر بولتا تھا۔ جہاں نسلوں سے چکی میں پِس پِس کر پردادا سے دادا پھر دادا سے باپ اور پھر بیٹے تک ذہنو پر برابر غلامی مسلط رہا تھا۔

اس گاؤں نے کئی دہائیوں اپنے اندر بسے انسانوں میں کبھی انسان جیسی شہ نہیں دیکھی تھی، کئی سالوں تک امید لگائے بیٹھی تھی کہ شمع کی روشنی کس سمت سے آئے گی، مگر امید لمحہ بہ لمحہ دم توڑتی جا رہی تھی۔ نم آنکھیں آنسوؤں کے ختم ہونے پر لہو آنکھوں کے رستے ٹپکا کر انہیں خشک کر چکی تھی۔ اب وہ تنکا تنکا مرنے کے دہلیز پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی منتظر بس دیکھ رہی تھی اور دھشت و خونخوار بھیڑیا دن بہ دن لہو میں ڈبو کر لاشوں کو انکے اصل شکل میں تبدیل کرتا جا رہا تھا اور پھر بہت سارے لاش اکھٹے ہوکر پچھلے شب کے لاش کو دفنا کر اگلے سحر گوشت نوچنے میں لگے رہتے۔

اپنے سپوتوں کے اس بے حسی پر یہاں کی مٹی خود کو کوستی رہتی، کس قدر نالائق مٹی میری قسمت پر پڑی ہوئی ہے. جنہیں اپنے موت کے لمحے تک بھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیوں اس غلامی کے دلدل میں دھنسے چلے جا رہے ہیں۔ ہر مرنے والا اپنے جیسے ہی کسی لاش کو قصور وار قرار دے کر اپنے اصل قاتل سے بھٹک جاتا تھا، اس قدر بے حرمت موت پر وہاں کے لوگوں کو عادت ہو چلا تھا میدانی علاقوں میں قبرستانیں، چار دیواریوں میں نہیں ہوا کرتے، اس لیئے انہیں کبھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں قبرستان بھر گیا ہوگا۔

مگر گاؤں اپنے سینے میں لاشوں کے ڈھیر کو محسوس کرتے کرتے خود دعا گو تھی کہ کبھی تو کوئی آکر مجھے اس میں دفنا کر چلا جائے، کوئی تو میرے لاش کو کسی سڑک کنارے کسی نہر سے کسی پہاڑی کے دامن سے وصول کر کے جنازہ ادا کرکے قبرستان کے کسی کونے میں دفنا کر چلا جائے، بلوچستان کے کئی علاقوں کی طرح میرا گاؤں زہری بھی موت کو نہ پانے والی بد نصیبوں میں سے ایک تھی۔

وہ روز خشک ترستی نگاہوں سے امید کو دم توڑتے دیکھ رہی تھی، وہ ان قریب خود میں بسے لوگوں کی طرح زندہ لاش ہی بن جاتی، اگر اس سحر اسے شاہموز کے پہاڑی سے ہمیل و بندوق کاندھے پر لٹکائے امید و حوصلہ کھڑا نہ ملتا

شاہموز کے پہاڑی پر مسکراتا کھڑا امید بوڑھی گاؤں کے دم توڑتی حالت کو نہ جانے کہاں سے محسوس کر کے صدیوں کا سفر طے کر کے یہاں پہنچا تھا، امید کو دیکھ کر اسکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ ایک عشرے سے سویا نہیں تھا۔ اسکے پرانے جوتے بتا رہے تھے کہ کتنے منزلوں کا مسافر ہے۔

وہ شاہموز کے پہاڑی پر کھڑا مسکرا رہا تھا، تازہ دم بھرنے وہ ایک پتھر کے سراہنے پیٹ ٹکا کر، ایک سرد آہ بھر کر دل ہی دل میں مطمئین تھا کہ وہ اس سر زمین پر پہنچ گیا، قریب ہی اسکی نظر گاؤں پر پڑی، جو شہید سفر خان کے قبر کے پاس لیٹی قریب المرگ تھی، امید اٹھ کر اسکے پاس جا بیھٹا، گاؤں امید کو اپنے سرہانے دیکھ کر اٹھ بیٹھی، جیسے ہی اس نے نظر اسکے مسکراتے چہرے کی طرف کی ایک خوشی کی لہر گاؤں کے لبو پر بکھرنے لگی، اس کے سامنے وہ مسیحا بیھٹا ہوا تھا، جسکا انتظار اس نے کئی صدیوں سے کی تھی۔ اسکے حوصلوں میں جان سی آگئی۔ اسکے بے جان بازو طاقتور اور مضبوط ہونے لگے، اسکے خشک آنکھوں میں امید کا چہرا مسکرا کر اسے مسکرانے پر آمادہ کر رہی تھی، گاؤں اس نوجوان پُرمہر امید کو اپنے بانہوں میں بھر کر اسکے رخسار کو چومنے لگی، اسکے ہاتھوں کو اپنے لبوں پر رکھ کر دیر تلک اسکے خوشبو کو سونگتی رہی۔ بے امید گاؤں اس امید کے آنے کی خوشی میں جھومنا چاہتی تھی، دیوانہ وار خوشی منانا چاہتی تھی، کوچہ کوچہ، دشت دشت بہت تیزی سے دوڑتی ہوئی اپنے مردہ لوگوں میں اعلان کرنا چاہتی تھی کہ صدیوں کی آس اب ختم ہوگئی ہے، اسکا بیٹا آیا ہے، وہ پہاڑی کے چوٹی پر دوڑ لگانا چاہتی تھی، صنوبر کے پیڑوں کو بانہوں میں بھرنا چاہتی تھی، مغرور چاند سے آنکھ ملانا چاہتی تھی، مولہ سے سوہند تک چلنے والی ہواؤں کو یہ پیغام سنانا چاہتی تھی، وہ اس خوشی میں رقص کرنا چاہتی تھی، اتنی خوشی اسے کبھی میسر نہ ہوئی تھی وہ اب پاگل ہونے تک ہنسنا چاہتی تھی۔

پھر اچانک سے وہ یک دم سے خاموش ہوگئی، یکدم اسکے چہرے پر افسردگی سی چھا گئی، خشک آنکھیں کیسے بھی کر کے سالوں کی تپسیا سے ایک قطرہ آنسو بہا کر امید سے سوال کر بیٹھے، “تم ہمیں چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گے نا؟”
امید جب تک جواب دیتا گاؤں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی
“مت جانا، اب یہاں سے کبھی مت جانا، ہماری سانس نکل نہیں پاتی، زندہ ہم رہ نہیں پاتے، موت مہربان نہیں ہوتی، زندگی ناراض نہیں ہوتی، یہاں کے حقیر لوگ اپنے ذات میں خود کو شاہ اور حقیقت میں شاہ کے غلام مانتے ہیں۔ تمہیں نہیں جانا ہے، یہاں غلامی کا راج اس قدر بالا ہے کہ یہاں کی ہوا، یہاں کی پہاڑیاں تک غلام ہیں۔ یہاں سانس غلام، تو یہاں آواز غلام ہے، یہاں چرواہے کے بے زبان ریوڑ غلام، تو پیٹ میں پلتا ننھے معصوم غلام ہیں۔ یہاں استاد غلام، یہاں طالب غلام ہیں۔ یہاں ملا غلام، یہاں فقیر غلام ہیں۔ یہاں سفر خان و بابو کے قبروں کی مٹی غلام، یہاں خاندان و یتیم غلام۔ یہاں ہر وہ شہ جو سانس رکھتی ہو یا وجود رکھتی ہو غلام ہے۔ یہاں گنگناتی سوہند و مولہ غلام ہیں، کھیل کے میدان سے لیکر سردیوں میں ایک بار آنے والا گونشاب(پرندہ) غلام ہیں۔ سنو بیٹے! تمہیں نہیں جانا ہے یہاں سے، یہاں تو ماں غلام ہیں۔”

امید مسکرا کر سب باتین سن رہا تھا، نہ جانے کس قدر درد سہا تھا امید نے کہ اتنا درس سننے کے بعد بھی مسکرا کر کہنے لگا
“یہاں سے اب نہیں جانا مجھے، یہاں اب اس ماں کی آغوش میں رہنا ہے، اب مجھے یہاں کے ہواؤں کو سمت دِکھانی ہے، یہاں کے پہاڑوں کے سینوں میں امید جگانی ہے، یہاں مولہ و سوہندہ کے گیت کو زندہ رکھنا ہے، یہاں نسلوں کی سوچ و خیال کو بدلنا ہے مجھے۔ میں اپنے گاؤں میں انجان رہ کر، انجان بن کر، انکو اپنا بناؤنگا۔ ان کو آپ کی حالت دیکھاؤنگا، سانس لینے کی آزادی کیا ہے، انہیں سمجھاؤنگا۔ میرا وعدہ ہے آپ سے میں یہاں سے کبھی نہ جاؤنگا۔”

پھر امید وہاں سے اٹھ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ غلامی کے دلدل میں اسے آزاد کرانے اتر گیا، وہ سالوں کی مسافت طے کرنے کے بعد بھی کبھی تھکا نہیں تھا، بس کبھی اسے ذرا سی آرام کرنے کا من کرتا تو گاؤں کے پہلو میں سر رکھ کر سو جایا کرتا تھا. کبھی کسی خوشک میدان پر تو کبھی سوہندہ مولہ کے نم پتھروں پر کبھی کسی درخت کے سائے میں تو کبھی کہیں خوشک فصل میں تھوڑی دیر آرام کرتا اور پھر نکل جاتا اپنے لوگوں میں انہیں آزادی سے سانس لینے کا درس دینے۔ وہ دن رات بس بھاگ دوڑ ہی کرتا رہا، کبھی اسکا جسمانی بیماری اس پر حاوی ہوجاتا، تو گاؤں کے پہلو میں لیٹ کر اسکے درد کو محسوس کرتا۔ جب گاؤں کے درد کے سامنے اسکا درد کمزور پڑ جاتا، تو وہ پھر سے نکل پڑتا ماں کے سر زمین پر بے سرو آسرا لوگوں سے ملنے، جنکا میراث نسلوں سے غلامی تھا۔ ہر ایک سے مسکرا کر ملنا اپنے درد کو بھول کر ماں کی سینے میں لگی آگ کو، ماں کے پیغام کو ان تک پہنچانے کیلئے ہر وقت مجلس میں لگا رہتا۔ نا مسجد چھوڑا، نا اسکول، نا میدان چھوڑے نا پہاڑ، نا نہر چھوڑے، نہ باغات، نا گھر چھوڑے، نا دکان۔ ہر سمت نکل پڑتا اپنی ماں کی پکار کو اسکے بیٹوں تک پہنچانے کے لیئے وہ دن رات کام کرتا رہا، شعور بانٹتا رہا، امید جگاتا رہا، روشنیوں کا چراغ جلاتا رہا۔

جب وہ اس قدر کامیاب ہوا کہ سالوں سے بے خبر ماں کے بیٹوں کو ماں کا پیغام سنانے میں، تو اپنے کام کو یک مشت پھیلانے اس پیغام کو ہر زبان زد عام کرنے کیلئے اسے اپنا جان تک قربان کرنا پڑا۔ وہ تراسانی کے میدان میں مادر وطن کے پیغام کو آواز بخشتا ہوا، لوگوں کو ایک ساتھ آگاہ کر دیا کہ ماں کے تڑپتی آنکھوں کے درد سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ امید جگا کر گزان کے پہلو میں اپنے ماں کی آغوش میں سو گیا، گاؤں کے اس امید کو اگر دشمن کی گولی لگ جاتی، تو ماں سوچتی کہ کاش اسے میں جانے دیتی مگر ماں کا یہ لال آخری لمحے بھی اپنے گاؤں، اپنے وطن مادر کو افسوس کرنے نہ دیتے ہوئے اپنے ساتھی سمت خود کو خود ہی قربان کر چلے۔

ماں سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا کہ وہ اسے کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا، اور وہ قائم رہا اپنے اس وعدے پر، اس نے جس سحر اس دھرتی پر قدم رکھا تھا، اسکے بعد پھر کبھی نہ گیا اور اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے وعدے سے جڑ کر ماں کے آغوش میں آسودہ خاک ہوا۔

آج سوچتی ہوں، امید شاہموز کی پہاڑی سے اتر کر میری گاؤں کے گھپ اندھیرے میں روشنی بخشتے ہوئے خود کو فنا کر چلا، مگر گاؤں پھر بھی مسکراتے ہوئے بیٹھی ہے، اسے مسکراتی دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ امید اتنے دیئے روشن کر کے گیا ہے کہ گاؤں انکی روشنی میں بیٹھ کر، امید کے مشن کو گفتگو ہوتے ہوئے سن رہی ہے اور شام ہوتے ہی وہ چراغ اپنے اپنے سمت، امید کے پیغام کو خود کی روشنی میں اور کئی چراغوں میں روشن کر رہے ہونگے، وہ امید کے کاروان کے وہ چراغ ہیں، جو امید کو زندہ رکھ کر اسکے سفر پر جل رہے ہیں۔
وہ میرے گاؤں کی امید ہے، وہ میرے گاؤں کا ضیاء الرحمن ہے، وہ چراغیں دلجان و بارگ جان ہیں، وہ روشنی بخشتی چراغیں، مجھ جیسی بہن کا شال ہیں