خواتین قومی تحریکوں میں – ذاکر بلوچ

412

خواتین قومی تحریکوں میں
ذاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

تاریخ عالم کا اگر جائزہ لیا جائے معلوم ہوگا کہ آج سے قبل جتنے بھی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں تو ان تحریکوں میں مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، اگر ہم الجزائر کی تحریک آزادی کو دیکھیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ الجزائر کی تحریک آزادی میں خواتین کا کرادار اہم تھا، مثال کے طور جب الجزائر کی جنگ شروع ہوئی تو خواتین کی شرح بہت کم تھی، وہ الجزائری معاشرے کے فرسودہ نظام میں بری طرح جکڑی ہوئی تھی اور خواتین کا دائرہ اثر گھر کی چار دیواری تک محدود تھی لیکن پارٹی مینجمنٹ کی بہترین حکمت عملی نے صرف تحریک آزادی کے دو سالوں میں خواتین کی شرح کو 60% تک کی بلند سطح پر پہنچا دیا۔

پارٹی و تنظمیوں نے فرسودہ نظام کو تبدیل کرکے خواتین کو تحریک آزاری میں متحرک کرکے فرسودہ نظام کو شکست دیکر پارٹی کا حصہ بنایا اور انہی خواتین نے پارٹی پالیسیوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔ الجزائری خواتین نے نہ صرف سیاسی محاذ پر بلکہ مسلح محاذ پر بھی الجزائری تحریک میں اہم کردار ادا کرکے، اپنی آزادی حاصل کی اسی طرح ویتنام پر جب چینی شہنشاہوں کا تسلط تھا، تو ویت نام کی جدوجہد میں ہمیں دو ترنگ بہنوں کا ایک اہم کردار نظر آتا ہے، ان بہنوں نے نہ صرف آزادی کی تحریک میں ایک رہنما کا کردار ادا کیا بلکہ اپنے ریاست کی بنیاد رکھ کر اس پر حکومت کی ۔ لیکن یہ ریاست زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا43 عیسوئی میں جب چین نے دوبارہ ویتنام پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تو دونوں ترنگ بہنوں نے غلام کی ذلت سے بچنے کے لیئے خودکشی کرلی، ویتنامی خواتین کی آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت اور ویتنام و دیگر مظلوم اقوام کے لئے ایک مثال تھی۔
اسی جدوجہد کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے ویتنامیوں نے امریکہ جیسے سپر پاور ملک کو شکست دے کر آزادی جیسے نعمت سے بہرہ ور ہوئے۔

کرد قومی تحریک کا اگر مختصر جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ کرد سماج ایک قبائلی سماج تھا، جہاں عورت گھر کی چار دیواری تک محدود تھی لیکن تحریک آزادی کے رہنماوں نے بہترین حکمت عملی اور پالیسیوں سے خواتین کو تحریک آزادی کا حصہ بنایا۔ تحریک کے بانی عبداللہ اوجلان کا موقف تھا کہ کردش سماج میں خواتین کی آزادی ہی دراصل کردستان کی آزادی ہے، اسی بات کو مد نظر رکھ کر پارٹی حکمت عملی بنائی گئی اور بڑی تعداد میں عورتوں کو متحرک کیا گیا ہزاروں کی تعداد میں عورتوں نے مسلح محاذ میں حصہ لیا ماضی کی نسبت آج کرد تحریک میں عورتوں کی تعداد مردوں کے برابر ہے. آج کرد قومی تحریک میں خواتین کی بڑی تعداد کی شمولیت کا اندازہ، ان کی قائم کردہ تنظمیوں سے لگایا جاسکتا ہے جو آزادی کی جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ جہد کررہی ہیں ان تنظمیوں میں Patriotic women from Kurdistan ,First Free Women Union , Kurdistan Working Women Party قابل ذکر کارنامہ سر انجام دے رہی ہیں۔ اگر ہم ان تحریکوں کا موازنہ بلوچ قومی تحریک سے کریں تو کئی سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں ۔

پہلا سوال بلوچ قومی تحریک میں عورتوں کا کردار محدود کیوں ؟ اور دوسرا سوال عورتوں کو تحریک کی طرف راغب کرنے کے لیئے پارٹی حکمت عملی اور لیڈر شپ کا کیا کردار ہونا چاہیئے؟

اگر ہم پہلے سوال کی طرف غور کریں تو یہ بات ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک میں عورتوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ماضی کی نسبت عورتوں کی تحریک آزادی میں کچھ کردار ضرور ہے لیکن یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ بلوچ سماج میں عورتوں کی آبادی 50% ہیں لیکن تحریک میں عورتوں کی تعداد 1٪. سے بھی کم ہے، جو ہماری کمزوری کا سب سے بڑا سبب ہے کیونکہ گذشتہ 70 سالوں میں ہماری جو چار انسرجنسی ناکام ہو گئی تھیں، انکی ایک اہم وجہ تحریک میں عورتوں کی عدم شمولیت تھی، اگر عورتیں اس میدان عمل کا حصہ ہوتیں، تو بلوچ قومی تحریک کی صورتحال مختلف ہوتی کیونکہ عورتوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ عورت وہ ذات ہے جو اپنے بچوں کی بہترین پرورش کرتی ہے اور ایک ماں کی تحریک میں شمولیت پورے خاندان کی تحریک میں شمولیت ہے۔

اسی لیئے سھباش چندر بوس کہتے ہیں کہ تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو میں تمہیں پڑھا لکھا قوم دونگا اور تم مجھے بہادر ماں دو میں تمہیں ایک بہادر قوم دونگا۔ بلوچ قوم کی بد قسمتی کہیں یا سرداروں کی ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کہ انہوں نے تنظیم کی اہمیت کو ہمیشہ ماننے سے انکار کیا اور عورتوں کو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھنے کو مناسب سمجھا منظم پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک میں عورتوں کی تعداد مردوں کے نسبت نہ ہونے کے برابر ہے، جو پارٹی کی کمزوری کو عیاں کرتی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بلوچ سماج میں پارٹی کا وجود تو ہے لیکن یہ پارٹی وجود سماج میں منظم شکل میں موجود نہیں ۔
دوسرے سوال کی طرف جانے سے پہلے اس حقیقت پر غور کریں کہ دنیا کی تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں پارٹیوں کا اہم کردار رہا ہے اور بلوچ لیڈر شپ کے سامنے یہ سوال کہ بلوچ پارٹی کو بلوچ سماج میں کیسے منظم کیا جائے؟ اگر پارٹی لیڈر شپ بلوچ قومی پارٹی کو منظم کرنے اور عورتوں کو تحریک میں شامل کرنے سے قاصر رہی، تو ایک اور سوال یہ جنم لے گا کہ بلوچ تحریک کا مستقبل کیا ہوگا؟ الجزائر، ویتنام ، کردستان اور دیگر اقوام کی تحریک آزادی میں عورتوں کا ایک منظم و مثالی کردار تھا اور ان تحریکوں میں عورتوں کو منظم اور فعال کرنے میں پارٹی لیڈر شپ کا ایک اہم کردار تھا جس طرح الجزائر اور کردستان کی تحریک آزادی میں لیڈر شپ نے عورتوں کو تحریک آزادی میں شامل کیا، انکی تربیت کی اور انہیں ہر مشکل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے مالا مال کیا، اسی طرح بلوچ سماج میں موجود قومی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ سماج میں عورتوں کو متحرک کرکے، تحریک کا حصہ بنائیں کیونکہ بغیر عورتوں کے شرکت کے قومی تحریک کی کامیابی ایک خواب ہوگا۔

قومی پارٹیوں اور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسکول لیول سے گرلز ممبر شپ کے لیئے کام کریں ان کی تربیت کریں، انہیں بلوچ تحریک کے بارے میں آگاہی فراہم کریں اور انہیں بلوچ سماج کے فرسودہ نظام کے بارے میں آگاہی فراہم کریں، جب بچیوں کو اس عمر میں تربیت دی جائیگی تو سن بلوغت میں قدم رکھتے ہی وہ قومی تحریک کے لئے تیار ہونگی اور قومی تحریک کے لئے پارٹی پلیٹ فارم سے اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہونگے اور اگر ہم نے عورتوں کو قومی تحریک میں شامل کرنے کی پالیسی نہیں بنائی اور پارٹی کو منظم نہیں کیا تو ہماری آزادی ایک ایسا خواب ہوگا جس کی کوئی تعبیر نہیں۔