صغیر بلوچ: کراچی سے لاپتہ بلوچ طلبہ میں ایک اور نام کا اضافہ

508

صغیر بلوچ: کراچی سے لاپتہ بلوچ طلبہ میں ایک اور نام کا اضافہ

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

چاکر سالار

بلوچستان میں عموماً گذشتہ ستر سالوں سے اور گذشتہ دو دہائیوں سے بالخصوص انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اس پورے خطے میں سر فہرست ہیں۔ ہر آنے والا دن، کسی نا کسی بلوچ کے اغواء نما گرفتاری کی خبر لیکر آتا ہے اور ہمیں ایک نئی تصویر اور ایک نیا نام سوشل میڈیا میں گردش کرتی نظر آتی ہے۔

انہی لاپتہ بلوچوں کی فہرست میں ایک نئے نام کا اضافہ صغیر بلوچ کی صورت میں ہوا ہے- جنہیں جامعہ کراچی سے 20 نومبر 2017 کو شام پانچ سے چھ بجے کے بیچ سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس وقت اغوا کیا، جب وہ یونیورسٹی کے کینٹین میں موجود تھے۔ صغیراحمد جامعہ کراچی میں پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم تھے- ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے تیرتیج سے ہے۔

گذشتہ کچھ عرصے سے دیکھا گیا ہے کہ کراچی میں زیرِ تعلیم بلوچ طلبہ کو ایک سلسلہ وار طریقے سے اغواء کرکے لاپتہ کیا جارہا ہے، ان طلبہ میں صرف یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ ہی نہیں بلکہ آفتاب بلوچ و عاصم بلوچ جیسے زیر سن طلبہ بھی شامل ہیں، جن کی عمریں بالترتیب 10 اور 14 سال ہیں۔

ویسے صغیر بلوچ، وہ پہلے طالب علم نہیں جو بلوچ لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوا ہو اور شاہد صغیر آخری بھی نا ہو- اس سے پہلے بھی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ طالب علموں کو مختلف جامعات سے سے اغواء کیا جا چکا ہے- جن  میں سے بعض طالب علموں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔

بلوچستان میں آئے روز اسطرح کی ماورائے عدالت گرفتاریوں اور لاپتہ کیئے جانے کے خلاف لواحقین بھی سراپا احتجاج ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، جو اپنے عزیزوں کی بازیابی کے لیئے روایات کی پرواہ کیئے بغیر پریس کلبوں اور سڑکوں پر سراپا احتجاج رہتی ہیں۔

 

اسی احتجاج میں ایک آواز صغیر بلوچ کی بہن حمیدہ بلوچ کی بھی شامل ہے، جو گذشتہ کئی ماہ سے اپنے بھائی کے اغواء ہونے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ حمیدہ احتجاج کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اپنے بھائی کے بازیابی کےلیئے کمپین چلارہی ہے۔

حمیدہ بلوچ  نے گذشتہ روز اپنے twitter  اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ “ان کے بھائی کو بیس نومبر 2017 کو کراچی یونیورسٹی سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا، اس وقت وہ خود ہاسٹل میں موجود تھی۔ جبکہ تب سے لیکرآج تک ہر روز ان پر قیامت کی طرح گذر رہی ہے۔”

حمیدہ بلوچ اپنے ویڈیو پیغام میں مزید کہتی ہیں کہ “صغیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی بازیابی کے لیئے انہوں نے اپنی تعلیم چھوڑ دی ہے، اور اپنے بھائی کے بازیابی کے لیئے ہر ممکن کوششیں کررہی ہے۔ احتجاجی مظاہرے، پریس کانفرنس اور عدالت میں پٹیشن دائر کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف طریقے اپنائے لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔”

حمیدہ بلوچ اپنے خاندان پر بھائی کے گمشدگی کی وجہ سے ہونے والے نفسیاتی اثرات کے بابت کہتی ہے کہ” بھائی کی جبری گمشدگی کے بعد ہمارے گھر والے شدید پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور اندر سے ٹوٹ چکے ہیں کیونکہ صغیر کے رہائی کے لیئے وہ کچھ نہیں کر پارہے۔  مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ کراچی میں میرے بھائی کو اغوا کیا جائے گا، کیونکہ وہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا۔”

وہ اپنے پیغام میں ان الفاظ کے ساتھ مدد کیلئے اپیل کرتی ہے کہ ” میں نے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے تمام تر کوششیں کرچکی ہوں لیکن ہمیں اب تک کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ میں تمام انسان دوستوں سے درخواست کرتی ہوں کہ صغیر کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔”

حمیدہ بلوچ درج ذیل فیسبک صفحے، ٹوئیٹر ہیش ٹیگ و ہینڈل سے صغیر بلوچ کی بحفاظت بازیابی کیلئے سماجی رابطے کے ویب سائٹوں پر مہم چلارہی ہے۔

Facebook: Save Sagheer Ahmed Baloch

Twitter hashtag: #SaveSagheerBaloch

Twitter Handle: @HameedaBaluch