پاکستان میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا اختیارخطے میں کمانڈرز کو دے دیا: وائٹ ہاوس

342

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیائی پالیسی کے تحت پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے نمٹنے کے لیے خطے میں موجود امریکی کمانڈرز کو ضروری وسائل اور اختیارات دے دیے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے گزشتہ سال اگست میں اعلان کی گئی افغان پالیسی کا مقصد طالبان کو شکست دینا اور کابل میں موجودہ انتظامیہ کے نظام کو قبول کرانا تھا۔

واضح رہے کہ نئی افغان پالیسی کے تحت امریکا کی جانب سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہوں پر ڈرون حملوں میں اضافہ کیا گیا اور ان حملوں میں حقانی نیٹ ورک کے کئی کمانڈرز کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی سامنے آیا تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کبھی یہ بیان سامنے نہیں آیا تھا کہ امریکی کمانڈرز کو پاکستان میں موجود مبینہ محفوظ پناہ گاہوں سے نمٹنے کے لیے اختیارات دیں گے۔

تاہم گزشتہ شب وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس بات کا اشارہ کیا گیا کہ خطے میں موجود امریکی کمانڈرز کو پاکستان میں موجود مبینہ محفوظ پناہ گاہوں سے نمٹنے کے لیے تمام اختیارات ہوں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ ٹرمپ انتطامیہ کی مشروط جنوبی ایشیائی پالیسی کے تحت پاکستان اور افغانستان میں دہشتگردوں اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے وہ تمام وسائل فراہم کیے جائیں گے جو امریکی کمانڈرز کو ضروری ہوں گے۔

امریکی صدر نے اپنے اتحادیوں کو یہ بات واضح کی کہ دہشت گردی کی حمایت یا ان کی معاونت کرنے والے امریکا کے دوست نہیں ہوسکتے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ امریکا صدر کی جانب سے پاکستان مخالف ایک ٹوئٹ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہم پاکستان کی سیکیورٹی امداد بند کردیں گے، بعد ازاں وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک حکم جاری کیا گیا تھا،جس میں پاکستان کی سیکیورٹی امداد معطل کردی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آج میں کانگریس سے مطالبہ کررہا ہوں کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ امریکی غیر ملکی امداد صرف امریکی مفادات کے لیے استعمال ہو اور یہ صرف دوستوں کو فراہم کی جائے نہ کہ امریکا کے دشمنوں کو اس کی رقم ملے۔

امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے افغانستان میں موجود کمانڈرز کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ جو امریکا اور افغان فورسز پر حملہ کرے اس سے براہ راست خود نمٹا جائے تاہم انہوں نے پاکستان کو مخاطب نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ ماہ قبل افغانستان میں موجود ہمارے جنگجوؤں نے نئی حکمت عملی اپنائی ہے اور ہمارے بہادر افغان ساتھیوں اور ہمارے فوجیوں پر اب کوئی مصنوعی ٹائم لائن کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی دشمن ہمارے منصوبوں کو جان سکتے ہیں۔

دوسری طرف امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ جوہن جے سلیوان نے ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی اشیائی پالیسی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے واشنگٹن پاکستان کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہے۔

کابل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی افغانستان میں موجود طالبان، انتہا پسند عناصر اور دہشت گرد گروپوں سے ہے اور نئی ایشیائی حمکت عملی خطے کی پالیسی ہے ، جس کی توجہ افغانستان میں حالات کی بہتری ہے لیکن اس یہ پالیسی وسیع علاقائی نقطہ نظر رکھتی ہے، جس میں پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ علاقائی تعاون شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھیں گے اور ہماری اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی اشیائی پالیسی کے تحت پاکستان کے بارے میں توقعات واضح ہیں۔

امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ ہم افغان حکومت کے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات جاری رکھنے کے عمل کی تائید کرتے ہیں اور پاکستان کو مسئلے کے حل کا حصہ بننا ضروری ہے اور یہی ہماری جنوبی ایشائی پالیسی کا مرکز ہے۔