سُلگتا فلسطین – صدف گمشادزئی

198

سُلگتا فلسطین

تحریر: صدف گمشادزئی

صبح کی اذان سن کر ناکو علی محمد نیند سے اُٹھا تاکہ وضو کرکے نماز کی تیاری کرے، ابھی کمرے سے باہر ہی نکلا تھا کہ اسے ساتھ والے گھر سے شور کی آواز سنائی دی، کوئی زور زور سے چلا کر کہہ رہا تھا کہ” تمہارا بیٹا کہاں ہے؟ اسے ہمارے حوالے کردو نہیں تو پورے کے پورے گاؤں کو آگ لگا دینگے،عورتوں اور بچوں کو اغواء کرکے لاپتہ کردینگے”.

ابھی ناکو علی محمد دو ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ اسے حاجی گہرام کی بیوی آئی صدگنج کی آواز سنائی دی، جو رو رو کر کہہ رہی تھی کہ میرا بیٹا یہاں نہیں بلکہ روزگار کے لیے باہر گیا ہوا ہے، میرے شوہر کو چھوڑ دو میرا شوہر بے قصور ہے مگر کوئی زور زور سے چلاکر کہہ رہا تھا کہ تمہارا بیٹا جہاں بھی ہے اسے ہمارے حوالے کرو۔

وہ روزگار کے لیے باہر نہیں بلکہ ملک میں دہشتگردی پھیلانے کے لیے بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ پہاڑوں پر گیا ہوا ہے اور روز ہمارے تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں پر حملے کرکے بلوچستان اور ملک کو نقصان دے رہا ہے. آج اگر اسے ہمارے حوالے نہیں کروگے تو ہم اسکی سزا پورے گاؤں کو دینگے. یہ سن کر ناکو علی محمد چونک گیا اور خوف کے عالم میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے، اسی عالم میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا کہ فوج نے گاؤں کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا ہے، کوئی اپنے گھر سے باہر نہ نکلے اور بھاگنے کی کوشش کرنے والوں کو گولی مار دی جائیگی. یہ اعلان سُن کر ناکو واپس اپنے کمرے میں چلا گیا اسے سارا معاملہ سمجھ آگیا تھا، مگر وقت کا تقاضا ایسا تھا کہ اسے خاموش رہنا پڑا.

آئی صدگنج کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی جو التجاء کررہی تھی کہ میرا شوہر ضعیف اور کمزور ہے، اسے مت مارو جبکہ گھر سے بچوں کے رونے کی آوازیں بھی آنا شروع ہوگئی تھیں. ایک فوجی آفیسر کہہ رہا تھا کہ گھر کی تمام چیزوں کی تلاشی لے لو یہ حرامی کی اولاد کہیں بچ کر نہ جائے. جبکہ کچھ فوجی ضعیف العمر حاجی گہرام پر تشدد کرکے اسکے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور مُنہ میں کپڑا ٹھونس کر اسے ایک فوجی گاڑی میں پھینک کر آگئے، اسی اثناء میں ایک فوجی آفیسر نے اعلان کیا کہ تمام گھروں کی تلاشی لی جائیگی، یہاں کچھ شرپسند چھپے ہوئے ہیں، انکو ہر حال میں گرفتار کرنا ہے، اگر کسی نے مزاحمت کی کوشش کی تو اسکا انجام برا ہوگا.

اس اعلان کے بعد فوجیوں نے باری باری تمام گھروں کی تلاشی لینی شروع کردی، کچھ فوجی ناکو علی محمد کے گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے، ایک فوجی نے ناکو علی محمد کو تھپڑ مار کر منہ دیوار کی طرف کرکے کھڑا کر دیا جبکہ دوسرے فوجی، کمروں میں داخل ہوکر تمام چیزوں کی تلاشی لینے لگے اور توڑ پھوڑ کرنے لگے جبکہ کچھ فوجیوں نے توڑ پھوڑ کے دوران ملنے والے زیورات اور دوسری قیمتی چیزیں اٹھانے لگے. ساتھ میں حال ہی میں کوئٹہ سے آئے ہوئے ناکو کے چھوٹے بیٹے بجار کو بھی سپاہی آنکھوں پر پٹی باندھ کر باہر لے گئے جبکہ ایک فوجی نے ناکو علی محمد سے حاجی گہرام کے بیٹے کے بارے میں پوچھنے لگا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کام کرتا ہے، کتنے کتنے دن بعد گھر آتا ہے اسکا بلوچ سرمچاروں سے کیا تعلق ہے تعمیراتی کاموں پر کون حملے کرتا ہے، گاؤں میں کون آکر گوادر کے خلاف پروپگنڈے کرتا ہے. گاؤں والوں میں سے کون کون مزاحمت کاروں سے ہمدردی کرتا ہے، ناکو علی محمد نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں بذات خود پچھلے بیس سالوں سے خلیج میں اونٹوں پر کام کرتا ہوں، مجھے ان چیزوں کا علم نہیں ہے. بس دو سال بعد دو مہینے کے لیے بچوں سے ملنے آتا ہوں. یہ سننا تھا کہ ایک فوجی جو شاید آفیسر تھا کہنے لگا کہ اگر ہمیں نہیں بتاؤگے تو تمہارے بیٹے کی لاش تمہیں ملے گی، پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ سرمچاروں سے ہمدردی کیا ہے. مگر ناکو بتاتا بھی تو کیا بتاتا جو خود ان چیزوں سے لاعلم تھا. یہ کہہ کر فوجی باہر چلے گئے.

باری باری گاؤں کے تمام گھروں کی تلاشی لی گئی بوڑھے لوگوں کو تشدد کا نشانا بنایا گیا جبکہ گھروں سے قیمتی سامان لوٹے گئے. نوجوانوں کے آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں گھروں سے باہر نکالا گیا. صبح کے ہوتے ہی کچھ کم عمر لڑکوں کو چھوڑا گیا. جبکہ حاجی گہرام کے ساتھ باقی بیس اور نوجوانوں کو ٹرکوں میں ڈال کر فوجی کیمپ لے جایا گیا فوجیوں نے جاتے جاتے حاجی گہرام اور ماما مزار جس کا ایک بیٹا پہلے سے لاپتہ اور ایک بیٹے کی مسخ شدہ لاش ملی تھی کے گھروں کو آگ لگادی جبکہ ایک فوجی ٹرک میں غریب لوگوں کی مال مویشی بھی ڈال کر مال غنیمت کی مانند اپنے ساتھ لے گئے، فوجیوں کے جاتے ہی گاؤں میں ماتم برپا ہوگیا، ہر طرف عورتوں کی رونے اور بچوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھی۔ سبھی بے بس اور بتوں کی مانند تھے مائیں اپنے بچوں اور بہنیں اپنے بھائیوں کے لیے ماتم کناں تھے، جنہیں فوجی کیمپ منتقل کیا گیا تھا. جبکہ کچھ ضعیف العمر لوگوں کو فوجیوں نے پوچھ گچھ کر دروان تشدد کا نشانہ بنایا ہوا تھا، جنہیں گاؤں کے ڈسپنسری لے جایا گیا.

شام تک گاؤں میں قیامت صغریٰ کا منظر رہا. مغرب کی نماز کے بعد گاؤں کے مسجد میں اعلان ہوا کہ ایک لاش قریبی تحصیل کے سول میں ہسپتال لایا گیا ہے لہذا شناخت کے لیے آپ لوگ جا سکتے ہو. یہ سن کر مسجد میں سکوت طاری ہوگیا، سبھی پر خوف طاری ہوا کہ کہیں یہ لاش انکے کسی پیارے کی نا ہو. نماز کے بعد گاؤں کے کچھ لوگ لاش کی شناخت کرنے کے لیے قریبی تحصیل کے ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے، جیسے ہی وہاں پہنچے تو پتہ چلاکہ لاش حاجی گہرام کی ہے، جس کے جسم پر تشدد کے لاتعداد نشانات تھے، یہ دیکھ کر گاؤں والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی. بڑی مشکل سے حوصلہ و ہمت کرکے لاش گاؤں لے آئے رات کافی ہوچکی تھی اس وقت دفنانا مناسب نہیں تھا. دوسرے دن جمعہ تھا، گاؤں کے مولوی مولانا ابو معاویہ نے مشورہ دیا کہ کل جمعہ کی نماز سے پہلے تدفین کرینگے. رات بھر آہ و زاری ہوتی رہی، عورتیں بین کرتی رہیں، بچے روتے رہے جن نوجوانوں کو اٹھایا گیا انکے والدین کو انکی سلامتی کی فکر کھائے جارہی تھی.

دوسرے دن دوپہر سے پہلے پہلے حاجی گہرام کی تدفین کی گئی پھر گاؤں کے لوگ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد چلے گئے جہاں مولوی صاحب نے دین اسلام کی حقانیت و وحدانیت اور بھائی چارے پر تقریر کی ظلم کو طاقت سے روکنے کی بات باربار دہرائی خطبہ پڑھ کر نماز پڑھائی نماز کے بعد دعاکی اور تمام لوگوں سے التجاء کی کہ فلسطین اور کشمیر کی مظلوم مسلمانوں کے لیے دعا کریں تاکہ اللہ پاک ان پر رحم فرمائے. سبھی لوگوں نے آمین کہی نماز کے بعد مولانا صاحب کا رخ مُرید کے گھر کی طرف تھا جس نے حاجی گہرام کے گھر والوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا تھا.