روشنیوں کے مسافر __شہیک بلوچ

280

زندگی اور موت ایک ہی سلسلے کے دو انتہائیں ہیں۔ زندگی کا سفر موت کی جانب جاتا ہے لیکن موت سے خوفزدہ رہنے والے زندگی کے سفر کا کبھی لطف نہیں اٹھا سکتے۔ خوف انسان کو کھوکھلا کردیتا ہے اور جو انسان کھوکھلا ہو وہ کیا سفر کرے گا وہ تو بس ہوا کے جھونکوں کے رحم و کرم پر ہوگا۔ یہ زندگی ہے موجودہ لمحے میں ہم اسے محسوس کررہے ہیں لیکن زندگی صرف میری ہی ہے؟ اگر میں صرف اپنی ذات تک سوچوں اور اپنے فنا ہونے کے بعد سب کچھ ختم ہونے کا تصور کروں تو پھر کیا ضرورت ہے جدوجہد کی مجھے تو خود کو آسودہ کرنا چاہیے؟ لیکن نہیں شعور اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ زندگی زندگی سے وابستہ ہے، انفرادی زندگی اجتماعی سے، نسل انسانی کی زندگی ایک خوبصورت تسلسل ہے جس کی محدود مدت کڑی ہم بنے ہیں تو پھر کیوں نہ آنے والے نسلوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ ہم جس جبر میں جی رہے ہیں وہ تو ایک حقیقت ہے، اپنی ہی گلزمین پر غلام بن کر رہنا کیا موت سے بدتر نہیں؟

اپنے ہی ہم فکر سنگتوں کو لاپتہ اور پھر مسخ شدہ لاش بن کر دیکھنا کیا ایسے میں ہم زندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں؟
یہ جذباتی باتیں نہیں بلکہ سادہ حقیقتیں ہیں شعور کی پکار ہے جو زندگی کو اجتماعی مقصد کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ہدایت دے رہی ہے۔ زندگی جیسی بھی ہے خوبصورت ہے لیکن اس کی اصل خوبصورتی آزادی سے جڑی ہے وگرنہ آزادی کی جڑیں کاٹ دی جائیں تب یہ ایک سوکھا لکڑی کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ موت ایک حقیقت ہے اسے مسکرا کر تسلیم کرلینا ہی بہتر ہے لیکن اپنے اجتماعی فکر کو نئی نسلوں تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ وہ مصنوعی کردار بننے کی بجائے تخلیق کار بنیں اور اپنی زندگی آزادی کے ساتھ گذار سکیں۔

زندگی تو دیگر جاندار بھی جیتے ہیں لیکن ان کے اور انسان کی زندگی میں فرق ہونا چاہیے اور یہ فرق شعور پیدا کرتا ہے۔ خوراک اور تولید دیگر جاندار بھی کرتے ہیں کیونکہ بقاء کی چاہ ہر جاندار کی سرشت میں شامل ہے اور یہ ایک فطری خواہش ہے لیکن فطرت کے کچھ اپنے اصول ہیں جو خواہشات سے بالاتر ہیں، ایسے میں انسان بھی دیگر جانداروں کی طرح محض جبلی خواہشات تک محدود ہوجائے تو کیا انسان اپنا وہ کردار نبھا سکتا ہے جو دیگر جانداروں سے اسے ممتاز کرتا ہے۔

زندگی میں جو جدوجہد کرتے وہ ہرگز زندگی سے بیزار نہیں ہوتے نہ ہی انہیں موت کی خواہش ہوتی ہے وہ زندگی سے دوسروں کی نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں اس لیے وہ اسے بہتر بنانے کے لیے خود خاردار راہ پر چلتے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ سب کچھ جھیلنا نہ پڑے اور ان کی معیار زندگی ایک آزاد انسان کی ہو، وہ جبر کے سائے سے دور ہوں۔ جہاں تک موت کی بات ہے وہ موت کی حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں لیکن خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن وہ نظریے کی قربانی کسی صورت نہیں دیتے کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی نظریہ میں ہے اور اگر وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر ان کا زندہ رہنا بے معنی ہوجاتا ہے یوں وہ موت سے پہلے ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ذرا یاد کیجیے جب کرائٹو سقراط سے کہتا ہے کہ آپ زہر کا پیالہ دیر سے پیے اکثر لوگ یہی کرتے ہیں تو جوابا سقراط کہتا ہے جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں اور میں جلدی کررہا ہوں تو میں بھی حق بجانب ہوں کیونکہ میں ایسی زندگی کو مہلت کیونکر دوں جو پہلے ہی ختم ہوچکی ہے؟
کورامیسن لکھتا ہے کہ “اس پیالے میں زہر نہ تھا وگرنہ سقراط مر گیا ہوتا۔” سقراط کیوں زندہ ہے؟ اس نے اگر زہر نہ پی ہوتی تو کیا آج فلسفہ اس مقام تک پہنچ پاتا؟

آج جب بھی کلاسیکل فلسفے کی بات ہوتی ہے تب سقراط سرفہرست نظرآتا ہے یہ وہ روشنی کا سفر ہے جو جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہیگا، کہیں اسپارٹیکس بن کر، کہیں چے گویرا تو کہیں بلوچ جہدکاروں کی صورت میں روشنی کا یہ سفر۔۔۔۔
آنے والی نسلوں کو جینے کا سلیقہ سکھانے کے لیے یہ جدوجہد لازم ہے تبھی وہ فطرت کو سمجھیں گے اور ایک بہتر سماج قائم کرینگے اور نسل انسانی کے لیے ایک مثال قائم کرینگے اور روشنی کے لیے مزید راہ فراہم کرینگے۔