بی ایم سی کا متنازعہ ٹیسٹ اور سراپا احتجاج طلبہ – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

342

بی ایم سی کا متنازعہ ٹیسٹ اور سراپا احتجاج طلبہ
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ

بلوچستان یقینی طور پر تعلیمی لحاظ سے ایک پسماندہ خطہ ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ بلوچستان کے انتظامی فیصلوں پر بلوچوں کا اختیار نا ہونا اور طویل معاشی استحصال اور جنگ کی وجہ سے معاشی ابتر صورتحال ہے، جس کی وجہ سے بہت سے بلوچ طلباء کیلئے کاروبارِ زندگی سے بے فکر ہوکر سالوں تعلیم کیلئے وقف کردینا ناممکن ہوجاتا ہے، لیکن اس ابتر صورتحال کے باوجود بہت سے طلبہ ان سخت حالات و تنگدستی اور وسائل کی کمیابی کے باوجود شبینہ روز محنت کرکے پڑھتے ہیں۔

اس شب و روز محنت کے باوجود ایک المیہ یہ رہتا ہے کہ بلوچستان میں پروفیشنل تعلیمی اداروں کی تعداد اتنی کم ہے کہ بارہویں جماعت کے بعد انہیں ایک میڈیکل یا انجنیئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کیلئے سخت سے سخت محنت اور مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جس کی تیاری یہ طلبہ مہینوں، کبھی کبھی سالوں کرتے ہیں۔ اس مقابلے میں میرٹ پر آنے کے بعد ہی انکا ڈاکٹر یا انجنیئر یا کوئی اور پروفیشنل ڈگری لینے کا خواب شرمندہ تعبیر بن سکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پورے عمل سے گذرنے کے باوجود، شب و روز محنت کے بعد اگر ایک طالبعلم کو لگے کہ انٹری ٹیسٹ میں مقابلہ انصاف پر مبنی نہیں تھا، تو یہ کسی ایک طالبعلم کے پوری زندگی کے محنت اور خوابوں کے ساتھ نا صرف مذاق ہے بلکہ اسکے حوصلوں کو توڑنا بھی ہے۔ اب یہی مسئلہ بولان میڈیکل کالج میں ایک نہیں بلکہ سینکڑوں طالبعلم علموں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ جو گذشتہ تین ہفتوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔

تین ہفتوں سے جاری اس احتجاج کا مقصد بولان میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹ میں بے ضابطگیوں کے خلاف بتایا جاتا ہے، طلبہ یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ٹیسٹ دوبارہ لیئے جائیں۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں طلبہ نے ایک احتجاجی ریلی نکالی تھی اور گورنر و وزیر اعلیٰ ہاوس جانے کی کوشش کی تھی تاکہ اپنا احتجاج ریکارڈ کیا جاسکے لیکن راستے میں ہی پولیس نے نا صرف انہیں روک لیا بلکہ ان پر شدید لاٹھی چارج کی گئی اور آنسو گیسوں سے شیلنگ بھی کی اور آٹھ طلباء کو گرفتار کرلیا گیا۔

اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے ایک زخمی طالبعلم سے ملاقات کی اور اس احتجاج کے بارے میں دریافت کیا، تو نام ظاھر نا کرنے کے شرط پر اس نے کہا کہ ” ہم احتجاج اس لیئے نہیں کررہے تھے یا کررہے ہیں کہ ہمیں تیار تیار داخلہ دیا جائے، ہم صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ انصاف پر مبنی دوبارہ ٹیسٹ ہو جو مکمل شفاف ہو تاکہ صرف اہل طلبہ کو داخلہ مل سکے، کیا یہ اتنا نا جائز مطالبہ ہے کہ طالبعلموں کو حوالات میں بند کیا جائے اور لاٹھی چارج کرکے انکے ہاتھ توڑ دیئے جائیں؟”

جب دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے اس سے دریافت کی کے بی ایم سی کے داخلہ ٹیسٹوں سے متعلق پہلے اس طرح کے مسئلے نہیں ہوئے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ اس سال اتنے ہنگامے ہورہے ہیں تو طالبعلم کا کہنا تھا کہ ” یہ سال پچھلے سالوں سے مختلف ہے، پہلے ٹیسٹ این ٹی ایس لیا کرتی تھی جبکہ اس سال ٹیسٹ ایچ ای سی کے زیر نگرانی ہوئی، اس سال ٹیسٹ کے دوران واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ کچھ طلباء کو مراعات دی جارہی تھیں، وہ مبائل فون کا آزادانہ استعمال کررہے تھے، ان کے بارے میں الزام ہے کہ وہ حاضر سروس سینئر ڈاکٹروں کے بچے تھے، اس حوالے حالانکہ ڈپٹی کمشنر کی اپنی رپورٹ ہے کہ کمرہ امتحان سے دو مبائل فون برآمد ہوئے، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ٹیسٹ شفاف نہیں تھے”

ایک شفاف مقابلے اور امتحان کا مطالبہ کسی بھی طالبعلم کا بنیادی حق ہے، اگر اس حق کیلئے طلبہ کو تین ہفتوں سے زائد عرصہ پریس کلبوں کے باہر بیٹھنا پڑے تو یہ کسی ریاست کے کھوکھلے بنیادی کی عکاسی کرتا ہے۔