بدعنوانی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا بدتر ملک ہے : ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل

222

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے بدھ کو جاری کی گئی 2017ء کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ دنیا بھر کے ایک تہائی ملکوں میں بدعنوانی کے تدارک کی کوششیں جاری ہیں۔ لیکن، ان کی رفتار انتہائی سست ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بدعنوانی کےتدارک کے کام میں وقت لگتا ہے؛ لیکن، یہ رفتار اس حد تک سست ہے کہ گذشتہ چھ برس میں کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی‘‘۔

بدعنوانی کے لحاظ سے، رپورٹ میں پاکستان کو ’’بدتر ملک‘‘ قرار دیا گیا ہے، جہاں رشوت ستانی ہر سطح پر موجود ہے۔ یہاں تک کہ ایک سے 100 کے اسکیل پر پاکستان کی سطح 98 جب کہ بنگلہ دیش 93 کی سطح پر ہے۔ ’’ایشیائی ملکوں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، قرغیزستان، میانمار، نیپال، اور تاجکستان میں انتہائی درجے کی بدعنوانی ہے، جس کے نتیجے میں وسیع شعبہ جات اور ادارے متاثر ہو رہے ہیں‘‘۔

’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق، بدعنوانی میں پاکستان ایک سے 100 کے اسکیل پر 30؛ بنگلہ دیش 28؛ بھارت 40؛ افغانستان 15 جب کہ چین 41 نمبر پر ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ’’ان ملکوں میں بدعنوانی کے خلاف کوششوں میں محدود پیش رفت حاصل ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی، اِن ممالک میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے کا ریکارڈ خاطر خواہ نہیں ہے‘‘۔

پاکستان کے حوالے سے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’زیادہ تر کمپنیاں رشوت ستانی کو اِن ملکوں میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں، عمل داری کے ضمن میں منی لانڈرنگ خطے کا ایک باعث تشویش معاملہ ہے؛ جب کہ زیادہ تر ملکوں میں منی لانڈرنگ سے نبردآزما ہونے کے سلسلے میں ضابطے غیر تسلی بخش ہیں‘‘۔

دوسری جانب، ’’ان ملکوں میں سرکاری رقوم کے انتظام میں عدم شفافیت کا عنصر عام ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجٹ کے لیے مختص رقوم بہتر طور پر خرچ کی جائیں اور اسے ضایع ہونے سے بچانے کی حتی الوسع ضمانت موجود ہو‘‘۔

رپورٹ کے مطابق، ’’پاکستان میں 75 فی صد لوگ جن کا زمین سے متعلق امور سے واسطہ پڑتا ہے، جب کہ پولیس سے تعلق میں آنے والے 65 فی صد حضرات کو رشوت ستانی کی شکایت ہے؛ یہاں تک کہ ٹیکس آمدن، سرکاری اہل کار اور سیاسی پارٹیوں تک میں انتہائی بدعنوانی کی شکایات عام ہیں‘‘۔

’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ نے کہا ہے کہ ’’گذشتہ عشرے کے دوران بھارت کے دفاعی اخراجات میں 147فی صد کا اضافہ دیکھا گیا؛ اور پاکستان میں 107 فی صد جب کہ بنگلہ دیش میں 202 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا‘‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’فوجی کاروبار کے حوالے سے غیر شفافیت برتی جا رہی ہے، جب کہ 2007ء میں فوجی کاروبار کی مالیت اندازاً 10 ارب ڈالر تھی۔ ادھر بھارت میں 2013ء میں فوج غیرقانونی طور پر گالف کورس چلا رہی تھی، جو سرکاری زمین پر واقع ہیں؛ جب کہ بھارت کی فضائیہ کے اہل کار ناجائز شاپنگ مالز اور سنیما ہال چلارہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ فوج ملک کے قدرتی وسائل کا ناجائز اور بے دریغ استعمال کرتی ہے‘‘۔

’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ کا کہنا ہے کہ حاصل شدہ تجزئے اور انڈیکس کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ملک جہاں صحافتی آزادی اور غیر سرکاری تنظیموں کے تحفظ کا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے، وہاں رشوت ستانی کی شرح بدترین صورت حال اختیار کر چکی ہے‘‘۔

’کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے اعدا و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے ملکوں میں جہاں بدعنوانی کی صورت حال ’’بدترین ہے‘‘ وہاں گذشتہ چھ برسوں کے دوران مجموعی طور پر ہر ہفتے ایک صحافی ہلاک ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پانچ میں سے ایک صحافی بدعنوانی کی خبریں دینے کی پاداش میں ہلاک کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ ایسے ملکوں میں اکثریتی معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

اس سلسلے میں، 100 ملکوں میں سے برازیل کا نام لیا گیا ہے، جہاں گذشتہ چھ برسوں کے دوران 20 صحافی ہلاک ہوئے، جہاں بلدیاتی حکومت اور منشیات کے کاروبار کے جرائم عام ہیں۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل عالمی متمدن معاشرے کی تنظیم ہے جو بدعنوانی کے خلاف صف آرا ہے۔

ادھر ’فریڈم ہاؤس‘ کی 2016ء کی عالمی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کی صورت حال ابتر ہے۔ رپورٹ میں 180 ملکوں کو ’مبرا‘، جزوی طور پر مبرا‘ اور ’غیر مبرا‘ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش اور تاجکستان کو ابتری کی مثال قرار دیا گیا ہے؛ جب کہ قرغیزستان، نیپال اور پاکستان کو ’جزوی طور پر مبرا‘ جب کہ افغانستان اور میانمار کو ’غیر مبرا‘ درجے میں رکھا گیا ہے۔