گوادر ایکسپو اور ہم __ ابو محمد گوادر

492

دنیا بھر میں تجارت کی تشہیر کے لیے مختلف نمائشی میلے سجائے جاتے ہیں جنہیں عالمی ایکسپو یا پھر مقامی ایکسپو کہا جاتا ہے،
یہ ایکسپو مختلف النوع تجارتی اشیاء کی تشہیر کے لیے منعقد کی جاتی ہے مثلا مختلف ممالک یا مختلف انٹرنیشنل اور مقامی کمپنیوں کی تیار کردہ اشیاء کی نمائش یا پھر مقامی سطح پر پراپرٹی کی نمائش، جسے پراپرٹی ایکسپو کہتے ہیں،
ایکسپو کی تقریب میں مختلف ممالک اور مختلف کمپنیاں اپنی تیار کردہ اشیاء نمائش کے لیےپیش کرتی ہیں یا پراپرٹی ڈیلرز مختلف زمینیں خرید و فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں،
خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ باہمی تجارتی روابط بڑھانے کے لیے بھی یہ ایک بہترین فورم کی حیثیت رکھتی ہے،
پاک چائنا اقتصادی راہ داری اور گوادر پورٹ منصوبوں پر کام جاری ہے اور پوری دنیا کو ادھر متوجہ کرنے کے لیے، اس بڑے اور معاشی انقلابی(ان کی نظر میں) منصوبے میں دلچسپی لینے، اس میں حصہ دار بننے اور اس تجارتی مرکز کو فعال اور کامیاب بنانے کے لیے پاکستان اور چین کے مشترکہ تعاون سے گزشتہ دنوں گوادر میں دو روزہ عالمی ایکسپو کا انعقاد کیا گیا،
یہ الگ بحث ہے کہ یہ ایکسپو اس طرح سے کامیاب نہ ہوسکی جس طرح کی امیدیں منعقد کرنے والے لگائے بیٹھے تھے چین کے علاوہ کسی بھی ملک نے خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا یوں یہ عالمی ایکسپو کی حیثیت حاصل نہ کرسکی،
ایکسپو کا بنیادی مقصد یہی ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ گوادر ایکسپو میں مقاصد سے ہٹ کر غیر اہم چیزوں کو بڑی اہمیت حاصل رہی لوگوں نے ناچ گانے اور چینی مہمانوں کے ساتھ سیلفیاں لینے میں بڑی دلچسپی دکھائی،
نوجوانوں کی تو خیر کیا بات کریں بڑے بڑے ذمے دار لوگ بھی ڈھول کی تھاپ پر ناچتے رہے،
اور نوجوانوں نے موقع سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک غیر مسلم چینی مہمان لڑکی کے ساتھ کھڑے ہوکر مختلف زاویوں سے سیلفیاں لینے کو اپنے لیے فخر سمجھا اور اسی میں لگے رہے،
بڑا افسوس ہوا کہ ایکسپو کے انعقاد کا مقصد کیا تھا اور ہمارے لوگ کیا کرتے رہے یقین کیجیئے ان چیزوں کا ایکسپو کے انعقاد اور مقاصد سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بھلا ناچ گانے سے کس چیز کی تشہیر ہوسکتی ہے ہاں البتہ ان چیزوں کے ذریعے دوسروں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ ہمیں اصل ترقی سے کوئی سروکار نہیں بس ہمیں ایک عدد سیلفی اسٹک اور ناچنے کے لیے تھیڑ سجاکر دیجیئے بس پھر چاہے یہاں کے بنیادی مسائل حل کریں یا نہ کریں،ہماری تہذیب پر ڈاکہ ڈالیں یا ہمارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،
یاد رکھیے!
ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں اور پھر بلوچ ہیں ہماری غیرت اور ہماری تھذیب ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم مسلمان اور بلوچ ہوکر بھی ایسی حرکتوں میں ملوث رہیں، آخر وہ ہم مسلمانوں اور مقامی باعزت بلوچوں کے بارے میں کیا سوچیں گے،
یہ اس طوفان کی ابتداء ہے اور ہم خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے تو آگے ہم کیسے ٹک سکیں گے جب پورے گوادر پر چائنیز اور غیرملکیوں کا راج ہوگا،جب یہاں بدتہذیب اور لادین روڈوں پر دھندناتے پھریں گے جب یہاں پوری پوری بستیاں اور پورے پورے خاندان آکر بسیں گے،
میری تمام نوجوانوں،جوانوں اور پوری برادری سے دردمندانی اپیل ہے کہ خدارا اپنی حیثیت اور مقام کی لاج رکھیں
یہ بہت بڑا طوفان آنے والا ہے ہمیں اپنے آپ، اپنا ایمان اور اپنی تھذیب کی حفاظت کے لیے ایسی کسی بھی غیر مہذب حرکت سے دور رہنا ہوگا کہ جس کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہماری اپنی تہذیب،