چاغی میں مسائل کا انبار اور ہمارا رویہ ـــ حفیظ شہی بلوچ

672

ضلع چاغی میں جس بھی شعبے کی طرف نگاہ ڈالی جائے مسائل کے انبار ہی نظر آتے ہیں۔ مسائل کو سمجھنے اور اس کی وجوہات جاننے بغیر لوگ روایتی تنقیدی الفاظ دہرا کر اپنے آپ کو بری الزمہ ٹھہرانے میں تاخیر نہیں کرتے۔
مختلف این جی اوز اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے “چاغی کی پسماندگی” جیسے موضوعات پر متعدد سیمنارز اور تقاریب منعقد ہوچکے ہیں۔ لیکن مقررین کی جانب سے ہاتھوں کا نئے انداز سے لہرانا اور آواز بلند کرنے کے علاوہ وہی پرانی سیاسی باتیں، وہی ایک دوسرے پر الزامات سن کر لوگ بھی بیزار ہوچکے ہیں۔
بچپن سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ ہماری پسماندگی کے اہم وجوہات میں
۔ ہمارا تعلیمی نظام
۔ شعبوں میں سیاسی عمل دخل
۔ کرپشن
۔ میرٹ کی پامالی
۔ پنجاب/ شہباز شریف وغیرہ وغیرہ سرفہرست ہیں

اگر صرف تعلیمی شعبے کو سنجیدگی سے لے کر اس کی بہتری کےلیے ٹھوس اقدامات کیے جاہیں تو باقی تمام شعبے خود بخود ٹھیک ہو جاییں گے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔۔۔۔ اور اساتذہ کے نام نہاد یونین سازی نے اس بگاڑ میں تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں بیشتر اداروں میں یونین سازی فرائض منصبی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ہی کی جاتی ہے اور یونین عہدیداروں میں ہمیشہ نکمے، نالائق، دھوکے باز اور نااہل کثرت سے پائے جاتےہیں۔ اور ڈیوٹیز میں سب سے کم حاضری انہی نکمے اور نااہل عہدیداروں کی ہی ہوتی ہے۔

اسکول میں ہفتہ وار ٹیسٹ کے دوران استاد صاحب ڈنڈا ہاتھ میں لیے اسٹوڈنٹ سےہمیشہ H2O کی تعریف پوچھتے۔ درست جواب ملنے پر اسے بٹھا کر دوسرے سے پوچھتے کہ پانی کا فارمولہ کیا ہے۔ تیسرے کو کھڑا کرکے ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مخفف پوچھتے۔ اور یہی عمل پورے دن کی ٹیسٹ میں دہرایا جاتا، اور شاید ضلع کے بیشتر اسکولوں میں ٹیسٹ کا یہ طریقہ یکساں ہو۔۔۔
بلاشبہ اسکولوں میں قابل اور محنتی اساتذہ کی کمی نہیں جن کی بدولت آج ہم تھوڑی بہت لکھنے اور پڑھنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ لیکن غیر معیاری تعلیم اور سفارش پر تعینات کئے گئے ناقابل اور ناتجربہ کار اساتذہ کی بدولت ہمارے درسگائیں جاہل، بے شعور اور بغیر وژن کے نسل بنانے کی نرسری بن گئے ہیں ۔ جو پڑھے لکھے جاہل تو کثرت میں لیکن تعلیم یافتہ بہت کم پیدا کرسکے ۔ اور یہی جاہل اور ڈگری یافتہ طبقہ مختلف اداروں میں تعینات ہو کر یا سیاسی لیڈر بن کر علاقے کی پسماندگی اور تباہی کا سبب بنتے ہیں۔۔
تعلیمی شعبے کو بہتر کرکے ہی ضلع کی پسماندگی دور کیا جاسکتا ہے جس کےلیے ہمیں طویل مدتی منصوبہ بندی کےساتھ ساتھ ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے۔
ہنگامی طور پر اساتذہ کرام کوپڑھانے کے روایتی طریقہ کار ترک کرکے جدید طریقوں کو اپنانا ہوگا۔ بچے کو سبق طوطے کی طرح رٹا لگانے کی بجائے زہین نشین کروانا ہوگا۔۔ نقل پر مکمل پابندی لگانا ہوگا خواہ کوئی بچہ ایک کلاس میں دو سال تک ہی کیوں نہ رہے۔۔ اور اس کا پھل ہمیں پندرہ بیس سال بعد تعلیم یافتہ اور قابل اساتذہ، افیسرز، والدین اور سیاسی لیڈرز کی شکل میں ملے گا جو آئندہ نسلوں کی بہتر تربیت کرکے معاشرے کی بہتری کے تسلسل کو برقرار رکھیں گے۔
یہ تجاویز اپنی جگہ مشکل سہی مگر ناممکن بلکل نہیں۔ آسانی تو کچھ نہ کرنے میں ہے کچھ کرنے میں تو محنت اور لگن درکار ہے۔…