شہید فاضل بلوچ عرف گہرام بلوچ کی زندگی اور جدوجہد – اسماعیل بلوچ

566

شہید فاضل بلوچ عرف گہرام بلوچ کی زندگی اور جدوجہد

‏‎تحریر : اسماعیل بلوچ

‏‎شہید فاضل بلوچ عرف گہرام بلوچ یکم مارچ 1994 ء کو بلوچستان کے علاقے مند گیاب میں واجہ محمد عمر کے گھر پیدا ہوئے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلم گیاب پرائمری اسکول میں حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہائی سکول مند سورو میں داخلہ لیا۔آپ نے میٹرک تک کی تعلیم ہائی اسکول مند سورو میں مکمل کی ۔شہید ایک انتہائی زہین، خوش اخلاق اور ہونہار انسان تھے ۔آپ فٹبال کھیلنے کے انتہائی شوقین تھے اور ایک بہترین گول کیپر بھی تھے ۔

‏‎شھید فاضل بلوچ نے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز ۲۰۰۸ میں بلوچ طلبہ تنظیم بی آر ایس او کے فلیٹ فارم سے کیا۔ مگر اپنے انتھک محنت اور سر زمین سے سچی محبت اور جنونانہ سیاسی سرگرمیوں کے سبب کچھ وقت کے بعد شھید فاضل بلوچ بی آر ایس او مند گیاب زون کے جنرل سیکریٹری تعینات کیے گئے۔اور اس دوران شہید نے سیاسی سرگرمیوں کو متحرک کیا، سیاسی سرکلز ، بلوچی ادب اور تاریخ کا مطالعہ کیا ۔ ساتھ ہی مختلف یونٹوں میں سیاسی سر کلز کا انعقاد بھی کیا ،یاد رہے کہ اُس وقت مند میں سیاسی سرگرمیاں انتہائی محدودسطح تک پہنچ چکے تھے ۔

‏‎بلوچستان کے موجودہ حالات اُس وقت سیاسی سرگرمیوں کے لیے انتہائی نا موزوع اور پر خطر تھے اورسیاسی لیڈران و سیاسی کارکنوں کا پاکستان فوج کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پراغواہ اور مسخ شدہ لاشوں کا پھینکنا روز کا معمول بن چکا تھا ، پُرامن جلسہ جلوسوں پر قدغن اور فوج کا سیاسی سر گرمیوں پرحملہ کرنا معمول کی بات بن چکا تھا ۔ایسے حالات میں پُرامن سیاست کرنا یقیناً شہید فاضل بلوچ کے لیےبھی انتہائی مشکل ہوا ہوگا۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر شہید فاضل بلوچ نے اپنی نزدیکیاں بلوچ مسلح تنظیموں سے استوار کرنا شروع کی اور بلوچ آزادی پسندمسلح تنظیم بی آر اے میں شمولیت اختیار کی اور 2010 میں شہید فاضل بلوچ نے اپنے دو مہینے کی گوریلہ جنگی ٹریننگ بی آر اے کی منگوچر (مستونگ) کیمپ میں مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے علاقے مند میں بلوچ سر زمین کی آزادی کی خاطر مسلح محاز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں مگر کچھ وقت گزر جانے کے بعد شہید فاضل بلوچ نے بی آر اے چھوڑ کر بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور بی ایل ایف کی پلیٹ فارم سے شہری زمہ داریاں سنبھال لیں جب شہید فاضل بلوچ کے قریبی ساتھی شہید زبیر بلوچ کو پاکستانی فوج نے 2011 میں اغواہ کرکے اُس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی تواس صورت حال کی وجہ سے وہ مزید شہروں میں رہکر جہد و جہد نہ کرسکے اور دوستوں کے مشورے کے مطابق کچھ تنظیمی زمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے وہ مختصر عرصے کے لیے بیرون ملک چلا گیا ۔اسی اثنا میں شہید فاضل بلوچ کے بھائی حیام بلوچ اور کزن گہرام بلوچ کو پاکستانی فوج نے مند گیاب کے ایک ہوٹل سے اغوا کرکے کچھ دنوں بعد دونوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی۔بیرون ملک شہید دو لاکھ کے تنخواہ کی ایک پر کشش نوکری پر تعینات ہوگئے تھے مگر مختصر عرصے کے بعد جب شہید کو احساس ہوا کہ وہ یہاں بیرون ملک اپنا تنظیمی زمہ داریاں مکمل کرچکے ہیں تو واپس بلوچستان (جنگی محاز پر) چلےگئے ۔

‏‎شہید فاضل بلوچ نے اپنے زاتی پیسوں سے ایک کروزر پِک اپ گاڈی ، دو موٹر سا ئیکل اور ایک قیمتی اسنائپر رائفل اپنے تنظیم کو خرید کر دی تھیں ۔ حالانکہ‏‎شہید کے بیرون ملک پُر کشش نوکری کے چھوڑنے کے عمل سے شہید کےرشتہ داروں نے شہید فاضل بلوچ پر شدید تنقید کی تھی کسی نے کہا وہ دیوانہ و پاگل ہے جو ایسے پُر مراعات نوکری کو چھوڑ کر واپس بلوچستان چلا آیاہے کسی نے اسےنادان کہا اور کسی نے کچھ اور طنزیہ الفاظ ۔مگر چونکہ شہید کے سامنے ایک عظیم سے عظیم تر مقصد تھا اس لیے شہید نے اپنے نظریہ ، اپنے آدرش اور قومی جہد و جہدسے سمجھوتہ نہیں کیا اور تمام باتوں کو نظر انداز کرکے وہ محاز پر اپنے قومی فرائض کی انجام دہی میں مگن رہے یقیناً ایسے ہی انسانوں کو عظیم کہتے ہیں جو کسی بھی قسم کی مراعات و پُرامن ممالک میں تمام سہولیات سے اپنے قومی تحریک اور ایسے پُر گٹھن راستوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جو ہر لمحہ تکلیف سے برے ہوتے ہیں اوروہ قوم کے آنے والے روشن کل (مستقبل) کے لیے اپنے آج کو قربان کرتے ہیں ویسے رشتہ داروں نے سچ کہا تھاوہ دیوانہ ہی تھا یقیناًاپنے قوم اپنے مادر وطن کی آزادی کی خاطر وہ مکمل دیوانہ ہی تھا ۔

‏‎ دوران محاز شہید فاضل بلوچ نے انتہائی محنت کی دن رات اپنے دوستوں کے ہمراہ دشمن کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے رہکر دشمن کا مقابلہ کیا شہید فاضل بلوچ کی صلاحیت کو دیکھ کر اس کی تنظیم نے شہید فاضل بلوچ کو اپنے مند کے نیٹ ورک کا ڈپٹی کمانڈر منتخب کیا یقیناً شہید فاضل بلوچ کو ایک ہی رات میں یہ عہدہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ ایک طویل جدوجہد ، محنت ،مختلف حالات و واقعیات و مصائب کے مراحل سے گزر کر اپنے صلاحیتوں کی بنا پر وہ اس مقام تک پہنچ گیا تھا۔

‏‎میں یہاں یہ زکر کرنا ضروری سمجھوں گا اور یقیناً تمام دوستوں کو بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب بلوچستان لبریشن فرنٹ نے منشیات سے متاثرہ نوجوانوں کی ری ایبلیٹیشن کے لیے ایک ادارہ تشکیل دیاتھا ‏‎تو پس منظر میں اس ادارے کے روح روان شہید فاضل بلوچ ہی تھے۔کہ جہاں شہید متاثرین کی نہ خالی علاج بلکہ تمام ضروریات کے زمہ دار تھے ۔

‏‎جیسا کہ ہمیں معلوم ہے آج بلوچستان کا کوئی بھی علاقہ پاکستانی ریاستی دہشتگرد ی وفوج کے شر سے محفوظ نہیں ہے اور بلوچستان بھر میں فوجی آپریشنز شدت سے جاری ہیں اس حالات میں بلوچ قوم کی کثیر تعداد اپنے گھر بار چھوڑ کر در بدر ی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کچھ اندرون سندھ ، کچھ کراچی اور کچھ مغربی بلوچستان اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئےہیں میں یہاں یہ واضح کروں کہ پاکستانی ریاستی جبر سےبچنے کے لیےمغربی سرحدی علاقاجات کے لوگ اکثر یت مغربی بلوچستان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس پناہ لینے میں مجبور ہیں اوران میں سے ایک خاندان شہید فاضل بلوچ کا بھی تھا ۔شہید کے کچھ رشتہ دار بھی مشرقی بلوچستان میں فوجی بربریت کے نتیجے میں ہجرت کرکےمغربی بلوچستان میں رہائش پزیر ہیں ۔

‏‎شہید فاضل بلوچ 5 جنوری 2018 کو اپنے رشتہ داروں سے ملنے مغربی بلوچستان گئے ہوئے تھے اور 8/ 9 جنوری 2018 کی درمیانی شب کو وہ واپس اپنے علاقے روانہ ہوئے مگر جب باڈر پار کرنے کی کوشش کی تو قابض ایرانی سرحدی فورسز نے اُسے فائرنگ کرکے شدید زخمی اور گرفتار کرکے اُسے اپنے ساتھ لے گئے اس وقت اُس کے ساتھ اسکے مغربی بلوچستان کے ایک رشتہ دار بھی ساتھ تھا جب شہید کے قریبی رشتہ داروں کو شہید کی زخمی حالت میں گرفتاری کی اطلاع موصول ہوئی تو انہوں نے مداخلت کرکے شہید کو علاج کے لیے ایک مقامی اسپتال میں داخل کردیا مگر 13 جنوری 2018 کو بد قسمتی سے شہید زخموں کی تاب نہ لاکر شہادت کی عالٰی رتبے پر فائز ہوئے۔

‏‎شہید فاضل بلوچ عرف گہرام بلوچ ہم سے جسمانی طور سے یقیناً ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے مگر وہ تاریخ کے انمٹ نقوش میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے جسے بلوچ قوم اور تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔