سرنڈر ڈرامے چین کو طفل تسلیاں دینے سے زیادہ کچھ نہیں – بی ایل ایف

632

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے کٹھ پتلی حکومت اورفوج کی جانب سے سرنڈر ڈرامے کے حوالے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ قابض ریاست پاکستان آئے روز سرنڈر ڈرامے رچا کر اپنی شکست خوردہ فوج کو حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے کہ بلوچ مزاحمت کار ہتھیارپھینک کرقابض کے نام نہاد ’’قومی دھارے ‘‘میں شامل ہورہے ہیں ۔ یہ چین اور دوسرے سرمایہ کاروں کو طفل تسلیاں دینے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔نیشنل پارٹی سمیت مختلف ڈیتھ اسکواڈزکے لوگوں کو جمع کرکے ہرچند ماہ بعد ایسے ڈرامے رچائے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسے ڈراموں کی حقیقت سے دنیا آگاہ ہوچکاہے۔ اس سے بلوچ قومی تحریک پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا بلکہ عالمی دنیا میں پاکستانی دوغلاپن ،ڈھکوسلے اوردھوکہ دہی مزید نمایاں ہوجائیں گی۔

گہرام بلوچ نے کہا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ سمیت آزادی پسند تنظیموں کے سرمچار گوریلامحاذپر پاکستانی فوج کو شکست سے دوچارکرچکے ہیں۔ اس کا ثبوت بلوچستان بھر میں فوج کے پھیلاؤاورنہتے لوگوں سے اپنی شکست کا انتقام اوراپنی جنگی جنون کی تسکین کرنے سے نمایاں ہے۔ آج جب کیچ کے فوجی کیمپ میں سرنڈرڈرامہ رچایا جارہاتھا تو چند ہی کلومیٹر دوربلیدہ اورکولواہ کے علاقوں میں فوج پر شدید حملے کئے گئے۔ یہ حملے اتنے شدیدتھے کہ زخمیوں اورہلاک شدگان کو لے جانے کے لئے تازہ دم فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ رات کے اندھیرے میں ہیلی کاپٹر بھی اتارے گئے۔ لیکن ایسی خبریں دنیا تک نہیں پہنچتے کیونکہ آزادمیڈیا کا وجود ہی عنقاہے مگر حقیقت کو کسی صورت میں چھپایانہیں جاسکتاہے۔

گہرام بلوچ نے کہا کہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ قدوس بزنجوکی موجودگی میںآج سرنڈرکاجوتماشہ دکھایاگیااس میں نیاکچھ نہیں تھا۔ جن لوگوں کو سرمچار ظاہرکیاگیاہے، ان میں سے صرف چند سابقہ سرنڈر کردہ ہیں جنکو کئی بار میڈیا میں ظاہر کیا گیا جو سرکاری جاری کردہ تصاویر و ویڈیو میں صاف ظاہر ہیں۔ دوسرے انکے اپنے کارندے ہیں۔ قدوس بزنجوکی اپنی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں ہے وہ فوج کاایجنٹ ہے جن کے لئے تمام تر فوجی ٹھپہ ماری کے باوجود محض چندسوووٹ ہی کاسٹ ہوسکے ۔ثناء زہری کو منصبِ کٹھ پتلی پر بٹھانے کے وقت ایسے ہی ڈرامے رچائے گئے مگرحیرت تواس بات پر ہے کہ انھیں فوج نے اس لئے ہٹایاکہ وہ قومی تحریک کو کچلنے میں مفیدثابت نہیں ہوئے اب قدوس کی ابتدائی پارٹی بھی اس قسم کے ڈراموں سے شروع کی گئی ہے۔

قدوس سمیت آج اس ڈرامے میں بی این پی عوامی احسان شاہ،غفور، اکبر آسکانی، ظہور بلیدئی ، اسماعیل بلیدئی ،و انکے دیگر کاندوں سمیت ،ڈرگ مافیا کے کارندے ہوتمان،مذہبی دہشت گرداور پارلیمانی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے مختلف قومی اورسماجی برائیوں میں ملوث جتنے بھی لوگ شامل تھے،تمام تر فوجی طاقت سے بلوچ نسل کشی ،جبر ودہشت گردی اورڈیتھ سکواڈزکی بھرپوراستعمال کے باوجود یہ نام نہاد نمائندے دن کی روشنی میں اپنے آبائی علاقوں میں نہیں جا سکتے ہیں۔ کبھی رات کے اندھیرے میں اور کبھی فوج کی بڑے بڑے قافلوں کے جلو ہ میں نمودارہوتے ہیں اورجلد ہی غائب ہوجاتے ہیں۔ ان سب کے ہاتھ بلوچ لہو سے رنگین ہیں یہ ان لوگوں کا پیشہ اورنوکریوں کا تقاضاہے ،مگر بلوچ قوم ان سے ہرجرم کا ضرور حساب لے گا۔

گہرام بلوچ نے کہا کہ صرف مکران،آواران،واشک ،خاران میں ایک ملٹری کور 60۔ ہزار سے زائداہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔تیس ہزار سے زائد لیویز،پولیس،و دیگر فورسز ہیں۔مکران،خاران،واشک، آواران میں پاکستانی ریگولر آرمی سمیت دیگر فورسز کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے، جو اس وقت بلوچ نسل کشی میں اپنی پوری قوت لگائے ہوئے ہیں۔

گہرام بلوچ نے کہاکہ ہمیں پاکستانی میڈیا سے کوئی توقع تو نہیں لیکن عالمی میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ ایسے ڈراموں کی کوریج سے پہلے حقیقت کو ضرورمدنظر رکھیں کیونکہ پاکستانی ریاست اور پاکستانی میڈیاحقائق چھپارہے ہیں۔ ریاست اورریاستی میڈیا کسی طرح نہیں چاہتے کہ حقائق دنیاکے سامنے آئیں۔ ایسے حالات میں آزادعالمی میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے غیرجانبدار ذرائع سے ایسے خبروں کی تصدیق کرائیں۔کیونکہ بلوچ قوم نے پاکستانی قبضہ کو پہلے ہی دن نامنظور کرکے مزاحمت شروع کی ہے۔ مورخ اس جد وجہد کو 1948 سے لکھیں گے۔ ستر سالہ طویل جنگ میں بلوچ قوم نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ بلوچ مزاحمت کاروں کو مٹھی بھر کہلانے والے ہر چند مہینے میں دو سو افراد کو میڈیا کے سامنے پیش کرکے شرمندہ بھی نہیں ہوتے ۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ سامنے بیٹھے صحافیوں میں یہ جرات نہیں کہ وہ ان افراد کی تصدیق کیلئے سوال کرے۔ ایسے جتنے ڈرامے رچائے گئے ہیں، ان میں چند کے علاوہ کسی کا نام آج تک میڈیا میں نہیں آیا ہے۔ اس سے صورتحال مزید واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان اپنے عوام اور فوج کو حوصلہ دینے کیلئے مزکورہ حرکات کو دُہرا ہی ہے۔