گوادر تا بولان ۔۔۔ لہو لہو بلوچستان – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

995

گوادر تا بولان ۔۔۔ لہو لہو بلوچستان
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ 

اس وقت دنیا میں پہلی دنیا کے چند ایک ممالک کے علاوہ خاص طور پر تیسری دنیا کے تمام ممالک میں کسی نا کسی صورت ایک جنگ چھِڑی ہوئی ہے، آزادی کے بحالی کے ستر سالہ تحریک کو لیئے، تین جنگ زدہ ممالک کے بیچ بَٹا بلوچستان اس لحاظ سے باقی جنگ زدہ خطوں سے مختلف اور زیادہ بد نصیب ہے کہ یہاں بہتا خون اور گرتی لاشیں کبھی مہذب اقوام، عالمی میڈیا یا اقوام متحدہ کا ضمیر جنجھوڑ نہیں سکے، گوکہ بلوچستان میں جاری بتدریج قتل عام صاف طور پر نسل کشی ہے اور اسکی شدت کسی طور سرخیوں میں جگہ پانے والے باقی خطوں کے شدت سے کم نہیں، لیکن عالمی مفادات کے منڈی میں بلوچ جانوں کے بھاو میں مندی کی وجہ سے یہ مسئلہ درخور اعتناء نا ٹہر سکا ہے۔

یوں تو بلوچستان میں مقتل بلا تعطل و بلا ناغہ ہمیشہ سے سجا ہے، لیکن جب پاکستانی سیاست میں اونچ نیچیں آتی ہیں اور بلوچستان میں نئے مواقعوں کو بھانپنتے ہوئے نئے مہرے حرکت میں آتے ہیں، تو ان مواقعوں سے فیضیاب ہونے کیلئے انہیں خاکی وردی والوں کے سامنے وفاداری و جانفشانی اور گذشتہ مہروں سے زیادہ پھرتیلا پَن ثابت کرنا ہوتا ہے، کیونکہ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست سرچشمہ چھاونیوں سے پھوٹتا ہے۔ یہ وفاداری ثابت کرنے کا واحد ذریعہ بلوچوں کے سروں کا مینار کھڑا کرنا ہوتا ہے، جس کا جتنا بڑا مینار، اتنی چوڑی کرسی۔

یہی کچھ ہمیں دوبارہ بلوچستان میں ایک نئے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کے آنے کے بعد دیکھنے کو مِل رہا ہے، موصوف اپنے گذشتہ کارکردگی کے بدولت جس میں کئی بلوچ بستیوں کو جلانے اور سینکڑوں بلوچ لاپتہ کرنے کے اکرام کی صورت پانچ سو اور کچھ ووٹ لیکر وزیر اعلیٰ بنے تھے، اب یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ باقی ہم عصروں و اکابرین سے بہتر خون آلود قدموں کے نشان صاف کرسکتے ہیں اور لگے ہاتھوں خود بھی کارکردگی دِکھاسکتے ہیں، انہوں نے بلوچستان میں خون کی ہولی کا بہت خوب بندوبست کیا ہوا ہے۔

بزنجو صاحب نے بھی پیشرووں کے سنت پر عمل کرکے سب سے پہلے سینکڑوں کو سرنڈر کروادیا، اب اتفاق سے یہ وہی سینکڑوں تھے جنہیں ثناء اللہ زھری، ڈاکٹر مالک اور پتہ نہیں کس کس نے سرنڈر کروایا تھا، لیکن اور کچھ نہیں کم از کم سرنڈر کیلئے تصویر کھنچوانے کے بہانے چند ایک بلوچوں کو چند ہزار کا لفافہ اور ظہرانہ مفت کا مل جاتا ہے۔ سرینڈر کے ساتھ ہی خاص طور پر گذشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان میں گوادر سے لیکر بولان تک ایک انتہائی وسیع پیمانے کا فوجی آپریشن شروع ہوچکا ہے، جس کے دوران اب تک درجنوں بلوچ جانبحق اور سینکڑوں لاپتہ کیئے جاچکے ہیں۔

بلوچستان سے پوری خبر اور مکمل اعدادو شمار لانا ناممکنات میں شامل ہے، لیکن گذشتہ ایک ہفتے سے جاری ان فوجی جارحیتوں کے ان معلوم اعدادو شمار پر ایک نظر دوڑائی جائے تو ایک بات واضح دِکھائی دیتی ہے کہ اب بلوچستان جیسے بڑے خطے میں اتنے وسیع پیمانے کا آپریشن شروع کرنا، چین کی بلوچ انسرجنسی کو ختم کرنے کیلئے پاکستانی فوج کو براہ راست مالی اور عسکری کمک فراہم کرنے کی نشانی ہے۔

بولان:۔
23 جنوری سے بلوچستان بولان کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز کیجانب سے فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا، جو تادم تحریر شدت کے ساتھ جاری ہے، اس دوران گن شپ ہیلی کاپٹروں کا آزادانہ استعمال ہورہا ہے، اس آپریشن کا آغاز سانگان،کمان، کٹ، سنجاول اور غربوغ کے علاقوں سے کیا گیا۔

24 جنوری کو بولان میں فورسز نے آپریشن کو مزید وسعت دی اورمختلف علاقوں محاصرہ کر کے درجنوں لوگوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا ، ان علاقوں میں لاکی، جنترو جمبرو اور کوہیگر شامل ہیں، یہاں آپریشن کے دوران کئی افراد کو اغواء کرکے انکے مکانات کو لوٹنے کے بعد جلایا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی گاڑیوں میں بھر کر سبی ہرنائی اور کوئٹہ پہنچایا گیا تاکہ لوگوں کا معاشی قتل ہوسکے، اس کے علاوہ اسی روز ہی بولان کے دوسرے علاقوں کمان ،گڑانگ، چیلڑی، تری تنگ اور انڈس میں بڑی تعداد میں پیدل فوج اور ہیلی کاپٹروں سے پیش قدمی شروع کردی گئی اور چاروں اطراف سے گھیراؤ کیا گیا۔

اس کے علاوہ جنوبی سمت کوئٹہ، مارواڑ اور پیر اسماعیل سے مشرقی سمت ہرنائی شاہرگ نسک اور سبی سانگان کے اطراف سے بڑی تعداد میں زمینی افواج کے ذریعے علاقے کو گھیرے میں لیکر بلوچ عوام کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا گیا ۔ جہاں گھروں کو جلانے اور مال مویشی لوٹنے کا سلسلہ بھی بدستور جاری رہا۔

25 اور 26 جنوری کو آپریشن کا یہ سلسلہ پورے شدت کے ساتھ جاری رہا، پورے علاقے کے ناکہ بندی اور مواصلاتی نظام نا ہونے کی وجہ سے بس کچھ ہی لوگوں کے نام معلوم ہوسکے جن کے گھر بار فورسز جلاکر انہیں جبری طور پر اغواء کرلیا۔

ان میں فورسز کے ہاتھوں انڈس چلھڑی کے علاقے سے لاپتہ ہونے والے حاجی عزیز سمالانی عمر چالیس سال پیشہ مالداری، جلمب ولد طور خان مزارانی،عمر 43 سال پیشہ مالداری۔ جمعہ خان محمد حسنی،عمر 75 سال پیشہ چرواہا، پیرو محمد حسنی 80 سال ، پیشہ زمینداری، ،اپوڑسی محمد حسنی، عمر 42 سال پیشہ زمینداری، غازو سمالانی، عمر 35 سال پیشہ مالداری، اکبر سمالانی، عمر 40 سال پیشہ مالداری،تیمور خان عمر 38 سال پیشہ زمینداری،-شیر خان ولد تیمور خان عمر 30 سال پیشہ مالداری، شامل ہیں۔

اس کے علاوہ بولان کے علاقے کمان، گڑانگ، بزگراورغربوک سے بڈھو مزارانی، شادی گل چھلگری، میشدار سمالانی، گل حسن سمالانی، لالو مزارانی اور گلاب خان مزارانی اپنے خاندان سمیت فورسز کے ہاتھوں اغواء ہوکر لاپتہ ہیں اور ان افراد کے گھروں کو لوٹنے کے بعد نذر آتش کردیاگیا اور مویشیوں کو بھی لوٹا گیا۔

27 جنوری کو بھی بولان کے مختلف علاقوں میں آپریشن شدت کے ساتھ جاری رہی اس دوران درجنوں لوگ گرفتاری کے بعد لاپتہ کیئے گئے جن میں سے محض 6 افراد کی شناخت ہوگئی جن کو فورسز نے گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا تھا ۔ فورسز کے ہاتھوں اغواء ہونے والے افراد میں حضل خان مزارانی، فضل خان مزارانی جو آپس میں بھائی ہیں، مراد علی لانگھانی اور اسکے بیٹے آپورسی لالو پیردادنی کے دو جوانسال بیٹے شامل ہیں، اسی دن خود فورسز نے بھی بولان کے مختلف علاقوں سے 20 افراد کی گرفتاری و نامعلوم مقامپہ منتقلی کی تصدیق کی تھی۔

28 جنوری کو آپریشن کا سلسلہ بدستور جاری رہا اور بولان کے علاقے غربوک تل میں پاکستانی فوج نے آپریشن کر کے گھروں کو جلاکر پانچ افراد کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ جن کی شناخت، حاجی امام بخش، مراد، پاضو، حاجی زرگ اور خالق داد کے ناموں سے ہوئی ہے۔

پنجگور:۔
اس دوران بلوچستان کا علاقہ پنجگور بھی ہمیشہ کی طرح فورسز کے نشانہ پر رہا ، جہاں ایک اور بلوچ نوجوان کو جبری طور پر اغواء کرکے لاپتہ کردیا گیا جس کی شناخت نور جان ولد دوست محمد کے نام سے ہوئی جو کہ پروم پنجگور کا رہائشی ہے۔

اسی طرح ایک اور واقعے میں پنجگور کے بازار سے فورسز نے مزید دو بلوچوں کو حراست میں لےکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، جن کی شناخت اسلام ولد رشید اور شکیل ولد نادل کے نام سے ہوئی۔

گوادر:۔
یوں تو گوادر کو میگاسٹی کہا جارہا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے سرمایہ کاروں کو یہاں آنے کی دعوتیں دی جارہی ہیں، لیکن بلوچوں کیلئے یہ سرمایہ نہیں بس لاشیں اگلنے والا ذمین ہی ثابت ہوا ہے۔ جو تواتر کے ساتھ بلوچ نسل کشی کا آماجگاہ رہا ہے اور جہاں فوجی آپریشنیں زندگی کا نیا معمول بن چکے ہیں، اسی ہفتے گوادر کے علاقے دشت اور آس پاس کے علاقوں میں فورسز نے ایک بار پھر ایک فوجی آپریشن کا آغاز کردیا۔

گوادر کو ایک مکمل فوجی زون بنانے کیلئے اب وہاں فوجی کیمپوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے، اسی ہفتے گوادر کے علاقے دڑامب کو فورسز نے محاصرہ کر کے 3 نئے کیمپ قائم کرنا شروع کردیا ہے۔.
.
کیمپوں کے قیام کی خاطر پورے علاقے کو محاصرے میں لیا گیا ہے، فورسز کے محاصرے کے باعث علاقے کے لوگ اپنے گهروں تک محصور ہوگئے ہیں اور انهیں کسی بھی قسم کی راشن اور دوائی لانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، یہ سلسلہ تادم تحریر اری ہے۔

ایک اور واقعے میں گوادر بازار جاوید کمپلیکس سے پاکستانی خفیہ اداروں و فورسز کے ہاتھوں ایک بلوچ جمیل ولد دین محمد اغواء کرکے لاپتہ کردیا گیا۔

کوہلو:
کوہلو تاریخی طور پر فوج کے بدترین بربریت کا شکار رہا ہے، اس ہفتے کوہلو میں فورسز کی بڑی تعداد میں نقل و حرکت کی اطلاعات آنا شروع ہوئی ہیں، جس سے ظاھر ہوتا ہے کہ کوہلو میں ایک بڑے پیمانے کا آپریشن شروع ہونے کی تیاریاں ہیں، کوہلو کے ان علاقوں میں برکم، نساو، جنت علی شامل ہیں۔

خضدار:
خضدار بلوچ آزادی پسند تحریک کے حوالے سے ایک اہم شہر ہے، اس لیئے خضدار کبھی بھی فوجی بربریت سے محفوظ دن و سال گذارنے میں کامیاب نہیں رہا ہے، اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے فورسز نے خضدار کے علاقے زیدی میں آپریشن کا آغاز کیا اور آپریشن کے دوران کئی گھروں کی تلاشی لی گئی توڑ پھوڑ کی گئی اور ایک شخص گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا۔ لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت لیاقت بلوچ ولد حاجی غلام مصطفٰی کے نام سے ہوئی۔

ایک اور واقعے میں خضدار کے علاقے پارکو میں فورسز نے چھاپہ مار کر دو افراد کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا۔

کیچ:
کیچ کے علاقے کولواہ میں اس ہفتے فورسز نے ایک بدترین آپریشن جاری رکھتے ہوئے متعدد گھروں کو آگ لگا دی آپریشن میں فورسز کو فضائی کمک بھی حاصل تھی، کولواہ کے علاقے پارگ، شاپکول اور تنزلہ کو فورسز کو گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی شروع کی ، اور متعدد گھروں کو آگ لگا دی۔ اس دوران کئی بلوچوں کو اغواء کرکے لاپتہ کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایک اور واقعے میں پاکستانی فورسز و ڈیتھ اسکواڈ کارندوں نے کیچ کے علاقے نودز سے شریف ولد یحیٰ نامی ایک شخص کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے جس کا تاحال کچھ پتہ نہیں چلا ہے۔

اسی طرح کیچ بلیدہ کے علاقے کور پشت میں چھاپہ مار کر مسلم ولد ابابکر نامی ایک شخص کو اس کے باغ سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے جس کا تاحال کوئی پتہ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کیچ کے علاقے سائیجی میں بھی فوجی آپریشن کی اطلاعات ہیں۔

مشکے:۔

حالیہ سالوں میں مشکے فوجی آپریشنوں سے بدترین متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں کثیر تعداد میں آبادی پہلے سے ہی نقل مکانی کرچکی ہے۔ فوجی آپریشنوں کے اسی سلسلے کو مشکے ، گجلی کے پہاڑی علاقوں میں اس ہفتے شدت کے ساتھ جاری رکھاگیا، دوران آپریشن کئی مویشیوں کے مالکان کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ انکی مال مویشیاں اغوا کر لیے گئے۔
دوران آپریشن آرمی اہلکاروں نے ایک گذشتہ آپریشن میں جانبحق ہونے والے غوث بخش ولد شکاری عرضو کے تمام گھر والوں کو حراست کے بعد جبری طور پر آرمی کیمپ منتقل کر دیا۔

واضح رہے کہ ایک دسمبر2017 کو آپریشن میں غوث بخش اور انکے 80 سالہ والدہ محترمہ کو فوج نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا اور دیگر تین بھائیوں، خدا رحم، عبدالنبی اور عبداللہ کو فورسز نے لاپتہ کیا جو تاحال فورسز کی حراست میں ہیں، جبکہ خاندان کے آخری سہارا حاجی رحیم بخش ولد شکاری کو فورسز نے خاندان کے خواتین و بچوں سمیت حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کر دیا ہے۔

اسی طرح فورسز نے مشکے کے علاقے سنیٹری ، رونجان ، نیوانی، گجلی، نلی، گھرہوک، کھلان، زنگ ، پتندرکو مکمل سیل کرکے ان علاقوں میں فوجی کاروائیوں کے دوران خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی افراد کو گرفتار کرکے آرمی کیمپ منتقل کردیا۔

کوئٹہ:
بلوچستان کا شال کوئٹہ حسبِ معمول اس ہفتے بھی ایک اور بلوچ کی لاش اگل کر اسکے وارثوں کا انتظار کرتی رہی، ملنے والی لاش کی شناخت محمد حفیظ کے نام سے ہوگئی ہے، مذکورہ شخص گذشتہ ایک ماہ سے لاپتہ تھا ۔

حب:
حب سے فورسز کے ہاتھوں اس ہفتے مزید دو افراد گرفتاری بعد لاپتہ کردیا گیا، گرفتار افراد کی شناخت چاکر ولد مراد اور گل داد و مراد بلوچ کے نام سے ہوئی جو سگے بھائی ہیں۔ جن کا بنیادی تعلق جمک گورکوپ سے ہے۔

ڈیرہ بگٹی:۔
2005 سے لیکر آج تک ایسا ایک بھی ہفتہ نہیں گذرہ ہے، جب ڈیرہ بگٹی سے کسی بلوچ کی لاش نہیں ملی ہو، اس ہفتے بھی ڈیرہ بگٹی سے ایک لاپتہ بلوچ فرزند کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ۔ مسخ شدہ لاش کی شناخت بوزو بگٹی ولد غلام محمد بگٹی کے نام سے ہوئی ۔ بوزو بگٹی کو پندرہ جنوری کو دو دیگر بلوچ فرزندوں ویساک ولد دھلک بگٹی اور حضوربخش بگٹی کے ہمراہ فورسز نے اغواء کیا تھا ۔ ان تین اغواء شدہ بلوچوں میں سے ایک کی لاش اس ہفتے برآمد ہوئی جبکہ دیگر دو تاحال لاپتہ ہیں۔

مذکورہ اعدادو شمار حالیہ فوجی آپریشنوں میں جانبحق و لاپتہ ہونے والوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد ہے، میڈیا پر بندش کی وجہ سے کبھی بھی مکمل اعدادو شمار منظر عام پر نہیں آتے جو کئی گنا زیادہ ہیں۔ لیکن ان اعدادو شمار سے کچھ عوامل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اول یہ کہ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کی شدت اور وسعت میں باقاعدہ اضافہ کیا گیا ہے، فوج کا منظور نظر وزیراعلیٰ کی نامزدگی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بلوچستان میں کشت خون کا یہ بازار مزید تیزی سے جاری رہے گا۔

دوئم یہ کہ اس شدت کی نسل کشی اور فوجی جارحیت اور ایک ہی ہفتے میں اتنی تعداد میں ہلاکتیں اور جبری گمشدگیاں اس امر کا کھلا اظہار ہیں کہ اب بلوچستان صرف دو قوموں کے بیچ قبضے و آزادی کت جنگ سے متاثر خطہ نہیں رہا ہے، بلکہ یہ ایک عالمی انسانی بحران کا شکار خطہ ہے۔ جو کسی طور شام، عراق، فلسطین، برما اور یمن سے کم شدت کا نہیں۔