کم اِل سنگ – انقلابی ورثہ سلسلہ

506

کم اِل سنگ : تقریر

(9اکتوبر1975)
کامریڈز!
ہماری پارٹی کی سابقہ 30سالہ تاریخ کے دوران‘ بین الاقوامی میدان میں ایک عظیم انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور دنیا کی شکل میں بنیادی تبدیلی آگئی ہے۔ بین الاقوامی کمیونسٹ اور محنت کش طبقہ کی تحریکوں اور قومی آزادی نیز جمہوری تحریکوں کو عظیم فتوحات حاصل ہوئی ہیں جب کہ سامراج کی رجعت پسندانہ قوتیں بہت کمزور اور زوال پذیر ہوگئی ہیں۔ سوشلزم نے ایک ملک کی سرحدوں سے نکل کر عالمگیر سطح پر ترقی کی ہے۔ سوشلزم ایشیا اور یورپ کے متعدد ملکوں میں فتح یاب ہوا ہے۔ لاطینی امریکہ کے ایک ملک بھی اسے فتح حاصل ہوئی ہے۔
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد انقلاب کے شدید طوفان نے سامراج اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اسے کروڑوں لوگوں نے جو صدیوں تک جبروتشدد کا شکار رہے تھے‘ قومی آزادی حاصل کرلی اور خود مختار ترقی کی راہ پر چل پڑے۔ تیسری دُنیا نے جو ہمارے زمانے کی عظیم سامراج دشمن انقلابی قوت ہے۔ تاریخ کے میدان میں داخل ہونے سے قبل جدوجہد آزادی کے خوفناک شعلوں سے جنم لیا تھا۔
تیسری دنیا اب سوشلسٹ قوتوں کی قابل اعتماد اتحادی ہے اور انسانی تاریخ کو آگے بڑھانے والی عظیم متحرک قوت ہے تیسری دنیا کے بہت سے عوام سوشلزم کی جانب رواں ہیں اور سوشلسٹ ملکوں کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ مقصد کی خاطر بہ سر پیکار ہیں۔ تیسری دنیا کے ملکوں اور سامراجیوں کے درمیان شروع سے شدید اختلافات موجود ہیں اور ان کے درمیان شدیدجدوجہد ہورہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ ماضی میں سامراجیوں نے تیسری دنیا کے ملکوں میں طویل عرصے تک جبر وتباہی کا عمل جاری رکھا بلکہ ان ملکوں کے قومی آزادی حاصل کرلینے کے بعد بھی وہ جدید نوآبادیاتی ذرائع سے ان پر جارحیت کرنے اور انہیں تخت وتاراج کرنے کے شرانگریز عمل ملوث ہیں۔ ان حالات میں جب کہ سامراجی جارحیت اور ان لکوں کی تباہی کا عمل جاری ہے۔ یہ ایک ناگزیر امر ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک سامراج کے خلاف نبردآزما ہوجائیں۔
تیسری دنیا آج ایسا محاذ جنگ بن گئی ہے جہاں سامراج کے خلاف جنگ بہت خوفناک ہوتی جاری ہے۔ اس میں بہت سے انقلابی ممالک ہیں اور سامراج کے خلاف تیسری دنیا کے ممالک کی جدوجہدسامراجیوں پر تباہ کن ضربیں لگارہی ہے۔
سرمایہ دار ملکوں میں سرمایہ کے جبر و استحصال کے خلاف اور اپنے وجود نیز سوشلزم کے حق کی خاطر محنت کش طبقہ اور محنت کش عوام کی انقلابیجدوجہد مین بھی وسعت اور قوت کے لحاظ سے اضافہ ہوا ہے۔
بین الاقوامی انقلابی قوتوں کی تیز ترقی کے برخلاف سامراجی قوتیں یقیناًکمزور پڑگئی ہیں خاص طور پر امریکی سامراجی دنیا کے انقلابی عوام کی شدید ضربوں سے بڑی تیزی سے زوال پذیر ہوئے ہیں۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکی سامراج نے مکاری سے دنیا پر تسلط جمانے کی کوشش کی ہے۔سوشلسٹ اور ترقی پسند ملکوں کے خلاف جارحانہ لڑائیاں اور تخریبی کاروائیاں جاری رکھتے ہوئے اور اپنی قوت کی پالیسی پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اس نے ڈالر کی کشش کے ذریعے اپنی جارحیت کے پنجے دنیا کے متعدد ملکوں تک پھیلادیئے تاہم امریکی سامراجیوں کے جارحانہ ہتھکنڈے ہر جگہ بے اثر کردیئے گئے اور انہیں مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج کل سامراجی ایسے سخت معاشی بحران سے دوچار ہیں جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سامراجی ملکوں کے اندرونی تضادات بہت سنگین ہوگئے ہیں اور سامراجی قوتوں کے درمیان تضازعات شدید ہوگئے ہیں۔ اندرونی و بیرونی لحاظ سامراجی سختیوں میں مبتلا ہیں اور عوام نے انہیں ردکرکے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ہمارا زمانہ آزادی کا زمانہ ہے۔ آج دنیا میں متعدد اقوام آزادی کی خواہاں ہیں اور ہر طرح کی محکومیت کے خلاف نبردآزما ہیں۔ کوئی قوم برداشت نہیں کرسکتی کہ دوسرے اس کی آزادی کو پامال کریں۔ سوشلسٹ اور تیسری دنیا کے ملکوں کے عوام کا تو ذکر ہی کیا۔ سرمایہ دار ملکوں تک کے عوام آزادی کے خواہاں ہیں یہ ہمارے زمانے کا بنیادی رجحان ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ دنیا کے لوگ آزدی چاہتے ہیں اور کئی ملک آزادی کی شاہراہ پر چل پڑے ہیں۔
کامریڈ! کوریا کی ورکرز پارٹی نے اپنے آغاز سے ایک آزاد خارجہ پالیسی کو اپنایا ہے ملک کے آزاد پُرامن ازسر نو اتحاد‘ قومی سطح پر کوریائی انقلاب کی فتح اور عالمی انقلاب کی اخری فتح کو قریب لانے کے خیال سے ہماری پارٹی نے ایک اہم انقلابی پروگرام پیش کیا کہ بین الاقوامی قوتوں کو مستحکم کیا جائے اور ان کے ساتھ باہمی اتفاق کو پائیدار بنایا جائے۔ ہماری پارٹی نے اس پروگرام پ ر مسلسل عملکی اہے۔ عہد ماضی میں ہماری پارٹی نے یہ کوششیں زوروشور سے کی ہیں کہ سوشلسٹ ملکوں کے قُربت اور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے اتحاد کو مضبوط بنیا جائے۔ سامراج کے خلاف مجبور عوام کی قومی آزادی کی تحریک اور تمام لوگں کی انقلابی تحریکوں کی حمایت کی جائے۔ تیسری دنیا کی قوموں سمیت ان تمام ملکوں سے دوستی اور تعاون بڑھایا جائے جو ہمارے ملک کے دوست ہیں۔ جارحیت اور جنگ کی سامراجی پالیسی کی مخالفت کی جائے اور عالمی امن نیز بنی نوع انسان کی ترقی حاصل کی جائے۔ بیرونی سرگرمیوں میں ہماری پارٹی نے آزادی کو پوری قوت سے برقرار رکھا ہے۔ اس نے دوسری پارٹیوں اور ملکوں سے اپنے تعلقات مکمل برابری اور باہمی عزت کے اصولوں پر استوار کئے ہیں۔ خارجہ امور کے شعبے میں اُٹھنے والے تمام مسائل اس نے کورریائی انقلاب کے مفادات سے آگے بڑھ کر اپنے ہی فیصلے کے مطابق آزادانہ حل کئے ہیں۔ ہماری پارٹی اازاد خارجہ پالیسی اور اس کی توانا خارجی سرگرمیوں کے طفیل ہماری پارٹی اور حکومتِ جمہوریہ کے غیر ملکی تعلقات نمایاں طور پر وسیع ہوئے ہیں اور ہمارے انقلاب کا بین الاقوامی استحکام مزید مضبوط ہوا ہے۔ آج تمام دنیا میں ہمارے عوام کے دوست اور ہمدرد بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ اس سے ہماری پارٹی کی اازاد خارجہ پالیسی کی صحت اور قوت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں برادر پارٹیوں‘ برادر سوشلسٹ ملکوں تیسری دنیا کی قوموں اور دنیا کے متعدد دیگر ملکوں کی حکومتوں اورعوام کا تہ دل سے شکر گزر ہوں جنہوں نے ماضی میں ہماری پارٹی اور ہمارے عوام کے انقلابی مقصد کی سرگرم حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔ ہماری پارٹی کی خارجہ پالیسی کا یہ اتل صول ہے کہ دنیا کے ان عوام کے ساتھ اتحاد و تعاون کو مضبوط بنایا جائے اور فروغ دیا جائے جو آزادی کے ہمنواہیں۔ دنیا کے ان عوام کا ساتھ دیناا ور ان کے ساتھ دوستی و تعاون بڑھانا جو آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارے انقلاب کے مطابق بین الاقوامی انقلابی قوتوں کی مدد کرنے کے لیے اور ہماری انقلاب کی فتح کو قریب تر لانے کے لیے اہم ضمانت ہے۔ ماضی کی طرح مسقبل میں بھی کوریائی ورکرز پارٹی بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک اور سوشلسٹ قوتوں کے اتحاد و اتصال کو مستحکم کرنے اور تمام سوشلسٹ ملکوں کے ساتھ دوستی اور تعاون بڑھانے کی کوشش کرتی رہے گی۔
دنیا بھر کے کمیونسٹوں اور ترقی پسند عوام کا یہ بین الاقوامی فریضہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اتحاد برھایا جائے جو سامراجی جارحیت کے خلاف اور قومی آزادی کے حق میں جنگ آزما ہیں اور ان کی برحق جدوجہد کی سرگرم حمایت اور حوصلہ افزائی کی جائے۔ کوریا کی ورکرز پارٹی ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام کی سامراج دشمن قومی آزادی کی تحریک کی حمایت اور حوصلہ افزائی پوری قوت کے ساتھ کرے گی اور ان کے ساتھ باہمی اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے گی۔ کوریا ورکرز پارٹی تیسری دنیاکے انقلابی ملکوں اور نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں والے ملکوں کے ساتھ اتحاد دوتعاون کو مزید مستحکم کرے گی اور ترقی دے گی اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ سامراجی و نوآبادیاتی جارحیت وغارت گری کے خلاف اور تمام دنیا کے ترقی پسند عوام کے مشترکہ مقصد کی کامیابی کے حق میں بہادری سے نبردآزما رہے گی۔ تیسری دنیاکے ملک نیز نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں والے ملک کبھی سامراج کی نوآبادیاں یا نیم نوآبادیاں تھے۔ ان ملکوں نے قومی آزادی حاصل کرلی ہے اور اب ایک نئے معاشرے کی تعمیر کا آغاز کر چکے ہیں ۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو اگر سامراجی جارحیت و غارت گری کو ختم کرنا ہے۔ قومی آزادی کو مستحکم کرنا ہے اور خوشحالی لانا ہے تو انہیں اپنی آزادی کو برقرار رکھناچاہیے۔ ایک ملک اور قوم کے لیے اازادی بہت اہم ہے۔ صرف آزادی برقرار رہنے ہی پر ملک وقوم کے وقار کا تحفظ اور ایک نئے خوشحال معاشرہ کے تعمیر ممکن ہے۔
معاشی لحاظ سے اپنے آپ پر انحصار رکھنا آزادی کی مادی اساس ہے، معاشی آزاددی نہ رہنے کی صورت میں دورے ممالک کی محکومیت اور نوآبادیاتی غلامی سے محفوظ رہنا ممکن ہے معاشی انحصار سیاسی محکومیت کی طرف لے جاتا ہے اور معاشی عدم مساوات سیاسی عدم مساوات کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو اگرا پنی آزادی کو قائم رکھنا ہے تو انہیں ہر قیمت پر ایک آزاد معیشت کی تعمیر کرنی ہوگی۔
تیسری دنیا کے عوام کے درمیان اتحاد و تعاون کے کئی اسباب ہیں۔ وہ سب ماضی میں سامراجیوں کے جبر واستحصال کا شکار رہے ہیں اور اب قومی آزادی کے حصولی اور نئے معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے سابقہ حالات اور موجودہ کوششوں کی یکسانیت کے سبب ان کا یک جان وقالب ہونا بہت ضروری ہے۔ دلبستانوں سیاسی نظریوں اور مذہبی عقیدوں کے لحاظ سے تیسری دنیا کے لوگوں کے اختلافات سامراج دشمنی اور آزادی کے پرچم تلے رہنے کے سبب تعاون کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہئیں۔ آزادی کے اُصول پر ان لوگں کو ایک دوسرے سے اچھی طرح متحد ہونا چائیے اگر وہ اس اصول پر مکمل اتحاد کے ساتھ جدوجہد کریں تو ہرسامراجی کو شکست دینے اور بین الاقوامی میدان میں تمام معاملات کو ترقی پسند عوام کے مفادات کے مطابق حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تیسری دنیا کے عوام کی
مشترکہ قوت اب عالمی سیاست پر بہت اثر دال رہی ہے۔ بین الاقوامی میدان میں اب متعدد مسائل کو تیسری دنیا کے عوام مشترکہ کوششوں سے صحیح طورپر حل کررہے ہیں۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو اب زیادہ یکجہتی کے ساتھ ایسی جدوجہد چلانی چائیے کہ بین الاقوامی میدان میں سامراجیوں کی یکطرفہ کاروائیوں کا خاتمہ کیا جاسکے اور بڑی طاقتوں کے جوڑ توڑ والے ناجائز بین الاقوامی اداروں کو دُنیا کے ترقی پسند عوام کے فلاحی اداروں کی صورت میں تبدیل کیا جاسکے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو محض سیاسی طورپر ہی متحد نہ ہونا چائیے بلکہ معاشی طور پر بھی آپس میں گہرا تعاون کرنا چائیے۔ ان میں معاشی تعاون کی بڑی صلاحیتیں ہیں ان کے پاس بہت زیادہ قدرتی وسائل ہیں اور وہ تجربوں اور تکنیک کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پوران کرنے کے اصول کے مطابق اگر یہ ممالک معاشی فنی تعاون کو مستحکم کریں تو وہ عظیم کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں اور بڑی طاقتوں پر انحصار ختم کرکے بھی تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو متحدہ کوششوں کے ذریعے سامراجیوں کے غرور کو توڑنا چائیے اور ایک ایسے نئے معاشرے کی تعمیر کرنی چائیے جو سامراجیت‘ نوآبادیت‘ غارت گری اور استحصال سے پاک ہو۔
مارکسزم، لینن ازم اور پرولتاری بین الاقوامی نیز سامراج دشمنی و آزادی کے انقلابی پرچم تلے کوریاکے ورکرز پارٹی اور کوریائی عوام دنیا کے ان عوام کے ساتھ مل کر جو آزادی کے علمبردار ہیں، سامراج اور نوآبادیات کی مخالفت کرتے رہیں گے اور امن، جمہوریت، قومی آزادی، سوشلزم اور کمیونزم کی خاطر پوری قوت سے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
***

کم اِل سنگ خط  (8جنوری1965

(واشنگٹن میں ادارہ برائے کوریائی امور کے صدر کے خط کا جواب)
آپ کا خط مجھے ملا۔ یہ معلوم ہوکر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ ملک کے ازسر نو اتحاد کے مسلے پر آپ فکر مند ہیں۔
آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہماری قوم کو علاقائی اور قومی تقسیم کا نشانہ بنے بیس سال گذرچکے ہیں۔ ملک کے ازسر نو اتحاد کا تو ذکر ہی کیا جو قوم کی بڑی پرانی تمنا ہے۔ شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان میل جول اور سفر تک کی سہولتیں فراہم نہیں کرسکی ہیں۔ حالانکہ اتنا طویل عرصہ گذرگیا ہے کہ ایک نئی نسل کی نشوونما ہوشکی ہے اور قومی تقسیم کی مصنوعی ہنوز قائم ہے۔ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ چمال و جنوب کے درمیان سیاسی، معاشی اور ثقافتی شعبوں میں اختلاف بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ قومی خصوصیات جوہمارے عوام میں مشترک ہیں نیز وہ قومی ہم جنسیت جس کے پس منظر میں تاریخ کا طویل زمانہ پھیلا ہوا ہے۔ سب میں رفتہ رفتہ فرق پیدا ہوتا جارہا ہے۔ قوم کے منقسم رہتے ہوئے مربوط عمل‘ قومی سرمائے اور عوامی قوت سے ملک کی ترقی کا کام لینا ممکن نہیں ہے۔ اس تقسیم سے کوریائی عوام پر ناقابل برداشت مصیبتوں کے پہاڑ توٹ پڑے ہیں۔ شمال وجنوب کی صورت میں کوریا کی تقسیم سے خصوصاً جنوبی کوریا کے لوگ ناقابل بیاں تکالیف اور بدبختی سے دوچار ہوگئے۔
جب تک ہمارے ملک کی تقسیم کو ختم نہیں کیا جاتا اور جب تک اسے ازسر نو متحد نہیں کردیا جاتا تمام قوم کی خوش حالی کی توقعات نہیں کی جاسکتیں اور جنوبی کوریا کے لوگوں کو ان کی موجودہ بدحالی سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔ اگر آج جنوبی کوریا میں عوام کی غالب اکثریت زوروشور سے کہہ رہی کہ ملک کے ازسرنو اتحاد کے بغیر ان کی زندگی مشکل ہے تو یہ ایک فطری بات ہے۔ قومی شعور کی حامل وہاں کی متعدد عوامی شخصیتیں اس لئے ملک کے ازسر نو اتحاد کے لیے بڑے حوصلے سے جدوجہد کر رہی ہیں ملک کا ازسر نو اتحاد فوری نوعیت کا ایک قومی مسئلہ ہے۔ جسے اب مزیر التواء میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب بغیر کسی امتیاز کے گوریا کے ان تمام لوگوں کے لیے ملک کے ازسر نو اتحاد کی خاطر اپنی ہر امکانی کوشش کرنے کا وقت آگیا ہے جو محب وطن ہیں اور جنہیں قوم کے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ ہماری حکومت نے تمام کوریائی عوام کی اجتماعی تمناو رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے ازسرنو اتحاد کے حصول کی کوششیں بڑی ثابت قدمی سے کی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی پارٹی‘ ٹولے یا امتیاز یافتہ طبقے کو اس کی اجازت نہ ہونی چائیے کہ وہ قومی مفادات کے بدلے ازسرنو اتحاد کے مسئلے کے حل میں رکاوٹ پیدا کرے۔ ازسرنو قومی اتحاد کو ہرصورت جمہوری انداز میں تمام کوریائی لوگوں کی رائے عامہ کے مطابق عمل پذیر ہونا چاہیے اور اس کی اجازت ہرگز نہہونی چائیے کہ ایک فریق اپنی رائے دوسرے پر ٹھونسنا شرع کردے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنا نہیں چاہتے۔ ہم نے تو ہمیشہ اسی خیال کا اظہار کیا ہے کہ شمالی و جنوبی کوریا کے حاکموں، سیاسی جماعتوں، معاشرتی اداروں اور عوامی شخصیات کو ملک بیٹھنا چائیے اور ازسرنو اتحاد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کھلے دل کے ساتھ پرخلوص انداز میں مذاکرات کرنے چائیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی قوتوں پر انحصار کرکے ملک کو ازسرنو متحد کرنے کی بات محض فریب ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ تمام کوریا کو سامراجی جارجین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ کوریا کے ازسرنو اتحاد کا مسئلہ کوریائی عوام کا داخلی معاملہ ہے۔ جس پر غیر ملکی قوتوں کی کسی مداخلت کی گنجائش نہیں ہے۔ کوریائی مسئلے کو تو خود کوریائی عوام کو حل کرنا چایئے۔ غیر ملکی اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ ہماری قوم کے اندرونی معاملات کو حل کریں۔ ہماری قوم باصلاحیت اور تہذیب یافتہ ہے اور اپنے قومی مسئلے کو حل کرنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔
ہمارے ملک کے ازسرنو اتحاد کی راہ میں اصل رُکاوت وہ امریکی سامراجی ہیں جو فوجی قوت کے بل بوتے پر جنوبی کوریا پر قبضہ کئے ہوئے ہیں، ہمارے گھریلو معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ ہماری قوم میں پھوٹ ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور تمام کوریا کے خلاف ایک جارحانہ پالیسی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔
امریکی سامراجیوں نے جنوبی کوریا کو تمام سیاسی، معاشی، فوجی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے نوآبادیاتی اقتدار کے زیرنگیں کر رکھا ہے اور اس کے لوگوں کی حالت تباہ و برباد کردی ہے۔
’’جب تک کسی سرزمین پر ایک غیر ملکی جارح فوج موجود ہو، تب تک اسے آزادی یا خودمختاری حاصل نہیں ہوسکتی‘‘۔
وہ تمام لوگ جو قومی شعور کی تھوڑی سی بھی روشنی رکھتے ہیں۔ انہیں چائیے کہ امریکی فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کریں اور ہمارے علاقہ سےنکال باہر کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ ہمیں چائیے کہ امریکی سامراج جارجین کے خلاف عوامی غیض وغضب کو بھڑکائیں اور جنوبی کوریا سے امریکی فوج کو نکال باہر کرنے کی مہم میں تمام محب وطن قوتوں کو فعال کردیں۔
اس وقت تک ہمارے وطن کے ازسر نو اتحاد کے حصول میں ناکامی کی ذمہ داری امریکی سامراجیوں پر عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے ہتھیاروں کے بل بوتے پر جنوبی کوریا پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ہماری قوم کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں اور یاک ژنگ ہی جیسے غداروں، رجعت پسند سرکاری افسروں، سیاسی عطائیوں اور قوم کے مفادات کا سودا کر رہے تھے۔
وہ اس امریکی جارح فوج کے تحفظ دیتے ہیں اور اس کے وہاں مستقل قیام پر مصر ہیں جس نے جنوبی کوریا پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ہمارے ملک کے ازسرنو اتحاد کو روکتی رہی ہے اور ہرقسم کی وحشیانہ ایذارسانی مثلاً لوٹ مار‘ جبر اور جنوبی کوریا کے لوگوں کا قتل عام اور تذلیل ک ارتکاب کرتی رہی ہے۔
یہ غداری ہماری اس پیش کش کو کہ ہم جنوبی کوریا کے لاکھوں بے روز گار افراد کو شمالی کوریا میں لینے اور نوکریاں دینے کو تیار ہیں مسترد کرکے ہمارے ان ہم وطنوں کویورپی اور امریکی ممالک فروخت کررہے ہیں جیسے وہ انسان نہیں کوئی مال ہیں۔
اگر کوئی شخص قوم کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے اور ملک کے ازسرنو اتحاد کا خواہش مند ہے تو ہم اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ اس کے سیاسی خیالات و نظریات کیا ہیں اور ماضی وہ کیا کرتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ تعاون کریں گے اور اس کے ساتھ ہر وقت جانے کو تیار وں گے:بغیر اتحاد اور جدوجہد کے نہ تو ہم امریکی جارح فوج کو نکال باہر کرسکتے ہیں اور نہ قومی ازسر نو اتحاد کرسکتے ہیں‘‘۔
***

کم اِل سنگ انٹرویو

(یہ انٹریو ‘ یوگو سلاویہ کے اخبار ’’وسرنجی نو سستی‘‘ کے چیف ایڈیٹر نے 22فروری 1974ء نے کیا تھا)
سوال: یوگو سلاویہ، عوامی جمہوریہ کوریا کی آزادی اور پُرامن ازسرنو اتحاد کے بارے میں مسلسل کوششوں سے اچھی طرح باخبر ہے اور ان کی حمایت کرتا ہے۔ کیا آپ وضاحت کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ ازسونواتحاد کے امکانات کیا ہیں؟
جواب: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہماری پارٹی اور حکومت جمہوریہ کی ملک کے آزادانہ اور پُرامن ازسرنو اتحاد کے لیے مسلسل کوششوں کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان بات چیت شروع ہوئی اور جولائی 1972میں شمال جنوب کا مشترکہ
اعلامیہ شائع ہوا۔ اس کے بنیادی نکتے تین اصول تھے یعنی آزادانہ‘ پرامن ازسرنو اتحاد اور عظیم قومی یکجہتی۔
شمال جنوب کے مشترکہ اعلامیہ کی اشاعت کے بعد ہماری حکومت جمہوریہ نے متعدد قطعی اور معقول تجاویز اس کو عملی شکل دینے کے لیے پیش کیں اور مذاکرات کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن مخلصانہ کوشش کی۔ تاہم اندرون ملک اور ملک کے باہر تفریق پسندوں کی سازشوں کے نتیجے میں، شمال اور جنوب کے مذاکرات میں تعطیل پیدا ہوگیا اور مادر وطن کے ازسرنو اتحاد کے راستے میں بڑی مشکلات اور
رکاوتیں پیدا کردی گئیں۔
شمال جنوب کے مشترکہ اعلامیہ کی اشاعت کے بعد بھی جنوبی کوریا کے ارباب اختیار نے امریکہ کی شہ پر جنگی تیاریوں اور فسطائی جبر کو شدید تر کردیا۔ اعلامیہ کے پیش کردہ اصولوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ بیرونی طاقتوں پرا نحصار کی اپنی پالیسی پر اور زیادہ ہٹ دھرمی کے ساتھ کار بند ہوگئے۔ اس میں انہوں نے دنیا کے سامنے قوم کی تقسیم کو برقرار رکھنے کی ایک ’’پالیسی‘‘ کا اعلان کیا۔ گذشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ اور جاپانی رجعت پرستوں اور جنوبی کوریا کے حکمرانوں نے ایک تجویز پیش کی کہ ’’دونوں کوریائیں‘‘ بیک وقت اقوام متحدہ کی رکن بنیں اور اس مقصد کے زبردستی حصول کے لئے جو طریقہ بھی سوچا جاسکتا ہے وہ انہوں نے اختیار کیا لیکن ان کی سازش، اشتراکی ممالک، غیر جانبدار ریاستوں اور بہت سے دوسرے ممالک کی منصفانہ کوششوں کی وجہ سے مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔یہ ملک آزادانہ اور پُرامن قومی ازسرنواتحاد کے لیے ان تینوں اصولوں کی مکمل حمایت کا اعلان کیا جو شمال جنوب کے مشترکہ اعلامیہ میں پیش کئے گئے ہیں، اس نے ’’کوریا میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے اتحادوآبادکاری‘‘ کو ختم کرنے کے لیے جو دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت اور جارحیت کے لیے امریکہ کا ایک آلہ کار ہے، ایک قرارداد بھی منظور کی۔ آزادانہ اور پُرامن ازسرنواتحاد کے لیے یہ ہماری پارٹی اور حکومت جمہوریہ کی پالیسی کی عظیم فتح ہے اور ان کی شکست فاش ہے جو کوریا کی مستقل تقسیم چاہتے ہیں۔
قوم کی تقسیم کو برقرار رکھنے کے لئے جنوبی کوریا کے حکام کی ان چالوں نے جو وہ سامراجی قوتوں کے اُکستانے پر کررہے ہیں، پوری کوریائی قوم کے دلوں میں ایک قومی تنفّر کو اُبھار دیا ہے۔ یہ لوگ مادر وطن کیے ازسرِ نو اتحاد کے شدید آرزو مند ہیں اور اب وہ لازماً مجبور ہوگئے ہیں کہ اندرون ملک اور ملک کے باہر تفریق پسندوں کے خلاف صف آرا ہوجائیں۔ آج جس قدر فسطائی جبر و ظلم شدید ہے، جنوبی کوریا کے نوجوان طالب علم اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، جنوبی کوریا کے معاشرہ کو جمہوری بنانے، ملک و قوم کی بقا اور مادر وطن کو ازسرِنو متحد کرنے کی خاطر ایک دلیرانہ جدوجہد میں اتنا ہی مصروف ہیں۔
سوال: ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوریائی عوام نے ملک کے اشتراکی تعمیر میں عظیم کامیابیاں حاصل کرکے اپنے ملک کو ایک طاقتور اشتراکی صنعتی ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ ازراہ کرم ہمیں بتائیے کہ ان کامیابیوں کا بنیادی عنصر اور محرک قوت کیا ہے؟
جواب: اشتراکی انقلاب اور اشتراکی تعمیر میں ہماری تمام کامیابیاں اور فتوحات کوریا کی ورکرز پارٹی کی صحیح قیادت، پارٹی اور عام لوگوں کے ناقابل شکست اتحاد اور ہمارے عوام کے بے اندازہ انقلابی جذبے اور تخلیق جدوجہد کی بدولت ممکن ہوسکی ہیں۔ ہم نے ایک ایسی پالیسی اور لائحہ عمل وضع کیا جو ہمارے خاص حالات سے مطابقت رکھتا ہو اور اپنے انقلاب کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے خود اپنی کوششوں کے ذریعہ دوسروں پر انحصار کئے بغیر کوشش کی۔ ہر بار انقلابی جدوجہد اور تعمیر کے کام کی راہ میں ہم مشکلات اور آزمائشوں سے دوچار ہوئے لیکن ہم نے عوام کے طبقات پر بھروسہ کیا۔ ان سے مشورہ کیا اور ان کی دانش اور قوت سے کام لیتے ہوئے درپیش مشکلات اور آزمائشوں سے باہر نکل آئے ۔ چونکہ ہم نے محنت طبقے میں سیاسی کام کو تقویت دی اور ان کو مضبوطی کے ساتھ انقلابی نظریہ سے مسلح کیا اس لئے انھوں نے دل وجان سے پارٹی کی پالسیوں میں دلچسپی لی اور ان کی تکمیل کے لیے جدوجہد میں اپنی تمام طاقت اور دانش صرف کی۔ آج ہمارے ملک کے تمام محنت کش لوگ، امداد باہمی کے اصول پر کھیتی باڈی کرنے والے کسان اور کارکن دانشور‘ ایک نظریہ اور ایک مقصد کے ساتھ پارٹی کے گرد مضبوطی سے اکھٹے ہیں۔ وہ انقلابی جذبے اور رجائیت سے بھر پور کام کررہے ہیں اور زندگی بسر کررہے ہیں۔ تمام لوگ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے پارتی کے گرد مضبوطی یہ متحد اور اکھٹے ہیں اور ایک انقلابی جوش و خروش کے ساتھ کام کررہے ہیں، ایسی مضبوطی سے متحد اور اکھٹے ہیں اور انقلابی جوش و خروش کے ساتھ کام کررہے ہیں، ایسی صورت حال میں ہمارے ناقابل تسخیر ہونے اور تمام کامیابیوں کی ٹھوس ضمانت کا راز پوشیدہ ہے۔ ہماری پارٹی اسی طرح اپنے گرد عام لوگوں کو مضبوطی سے اکٹھا کرکے اور ان کی تخلیقی قوتوں کو پوری طرح پروئے کار لاکر، انقلاب اور تعمیر کو بغیر دَم لئے تیز رفتاری کے ساتھ ااگے بڑھائے گی۔
***
حوالہ:
نام کتاب: کِم اِل سنگ (ملک کے آزاد‘ پُرامن ازسرنواتحاد کی خاطر)
صفحہ: 120تا131 اور 288تا293 اور 346تا 353
پبلشرز: کاظمی پبلکشنگ ہاؤس، (1978)