صحافی اور درباری میں فرق – شہید نثار صباء

633

صحافی اور درباری میں فرق
تحریر: شہید نثار صباء

جو دیکھتا ھوں وہی بولنے کا عادی ھوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ھوں

یہ شعر ایک صحافی یا لکھاری  کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ھے، کیونکہ صحافت ایک انتہاہی مقدس پیشہ ھے۔ ایک صحافی یا لکھاری اپنے سچ لکھنے اور بولنے سے معاشرے کو سنوار سکتا ہے۔ جو طاقت سچ بولنے میں ہے وہ دنیا کے کسی پہلوان یا کسی ایٹمی پاور ملک کے پاس نہیں ہوتی۔ جسطرح بھارتی اداکار عامر خان کا ایک پروگرام (ستے میں وجھتے یا سچاہی میں جیت ہے) جو 2011 اور 2012 میں سٹارپلس ٹی وی میں نشر ہوا کرتا تھا۔جس میں انڈین معاشرے میں ہونے والے بہت سے ناانصافیوں اور نچلے طبقوں سے روا مظالم کو سامنے لایا جاتا تھا۔

دلتوں، بچوں کے حقوق، گینگ ریپس، بزرگوں کے حقوق، ٹرانس جینڈر حقوق کو لےکر اس پروگرام کے توسط سے بہت سے  لوگوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی داستانیں سنائے۔ اس کے بعد ان مسائل کو لے کر بہت سے تحریکیں چلیں اور کئی بل انڈین پارلیمنٹ میں پاس کر لیے گئے۔

نوٹ:-(یہ پروگرام sattemevjehte یوٹوب پہ موجود ہے)

دنیا میں فرانز فینن اور پائولوفرائرے جیسے لکھاری بھی تھے جنہوں نے(افتادگان خاک اور تعلیم اور مظلوم عوام)جیسی کتابیں جو غلام قوموں کی نفسیات پر لکھے گئے ہیں اور اپنی قلم کی طاقت کو مظلوموں کے حق میں بروے کار لاکر آج بھی دنیا میں انسان دوست یاد کیئے جاتے ہیں۔

شہید قندیل پروفیسر صباہ دشتیاری، شہید الیاس نذر اور شہید سبین محمود  کو اسلیئے سینے پر دشمن کی گولی کھانی پڑی کیونکہ انہوں نے اپنی قلم اور زبان کا سودا نہیں کیا اور دشمن کے سامنے ڈٹ کر سچ لکھتے اور بولتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے صحافی اور لکھاری ہیں، جو صحافی ہونے کے بجائے حاکم_وقت کے غلام یا درباری ہوتے ہیں۔ ریاست پاکستان میں اسطرح کی  صحافی یا لکھاری بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔

اکثر ٹی وی نیوز چینلز، اخبار، سوشل میڈیا نیوز ورکرز بدنام زمانہ پاکستانی انٹیلیجنس اداروں سے اجازت اور انسٹرکشن لے کر ہی نیوز شایع کرتے ہیں جو کہ  ان ٹی وی چینلوں، اخباروں، سوشل میڈیا نیوز ورکرز کے لئے ایک انتہائی شرمناک بات ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا میں (پھلین خاران نیوز جو کہ انتہاہی غیر جانبدار نیوز نیٹورک ہےاور  غیر جانبداری کا مظائرہ کر رہا ہےمیں بانک شبانہ کبدانی (جو ایک بلوچ بہن ہے)  نےخاران کے درباری صحافیوں اور دوسرے معاملات کے اوپر کچھ تحریر کی تھی جو میرے نظروں سے گزرا۔ بانک شبانہ بلوچ نے جو باتیں لکھیں تھیں، ان باتوں کو نا صرف ہم نے بحیثیت پولیٹیکل ورکر شدت سے محسوس کی ہے، بلکہ بہت سے طالبعلموں، ٹیچروں، ڈاکٹروں حتیٰ کہ جتنے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں سے ہم ملیں ہیں سب اس معاملے سے آگاہی رکھتے ہیں۔ جو درباری صحافیوں کے آمد و رفت اور رابطوں کے بارے میں بھی اچھی طرح آگاہی رکھتے ھیں۔۔

شبانہ بہن کے آرٹیکلوں کے بعد بہت سے درباری صحافیوں کے فیس بک کمنٹس اور پوسٹس دیکھے جس میں وہ اپنے کئیے ہوئے جرائم کی معافی مانگتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی وہ اپنے غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ بھی کر رہے ھیں۔
2006 سے لے کر اب تک جب  سے ہوش سمبھالا ہے اور بحیثیت پولیٹیکل ورکر پہلے (بی ایس او آزاد)اور اب (بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم) کے پلیٹ فارم سے قومی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم نے ان صحافیوں کو کبھی غیر جانبدار نہیں پایا۔ نہ ہمارے جلسے، ریلیاں، بلوچ نوجوانوں کی اغواوگرفتاری، پارٹی پمفلیٹس، چاکنگ، پارٹی کے  کارنرمیٹنگز، یا ایسے بہت سے نوجوان جنہیں سیکیورٹی فورسز نے ان کے لوگوں کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کردیا ہے، جن میں اسلم شوہاز، آصف سہیل، اعجاز مینگل، عامر ولد غلام نبی، رحیم الدین، خالد تگاپی، محمد عارف، غلام فرید ولد محمود خان حسن ولد خان عبدالرحیم محمود شاہ ولد کشمیر شاہ، اسرار ولد عبدالودود،اسماعیل ولد عبدالرب شاہ جن کے لواحقین نے میڈیا کے سامنے اپنی اپنی فریادیں ریکارڈ بھی کیئے ہیں مگر خاران کے کسی بھی صحافی نے انہیں کوریج نہیں دی اور نہ ہی مسلح تنظیموں کے کسی کاروائی کو کوریج دے رہے ہیں، جبکہ دشمن کے کسی بھی پروگرام چاہے ایف سکول ہو یا جعلی سرنڈر ڈرامہ پروگرامز ہوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

بی این پی، نیشنل پارٹی۔ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق کے پروگرامز و پرچار ہوں تو وہاں صحافی باقاعدہ پہلے سے بک کر کے لائے جاتے ہیں۔ چاینا پاکستان اکنامک کوریڈورکا لنک روڑ جو ضلع چاغی یکمچ سے  نکل کر ڈسٹرک خاران سے ہوتا ہوا بیسیمہ واشک کے مقام پر سی پیک کی مرکزی روڈ سے ملتی ہے کو کیموفلاج کرنے اور اسے عام سڑک کا نام دینے میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

دشمن کے کسی بھی بلوچ دشمن پالیسی اور کالے کرتوں پر پردہ ڈالنے میں ہر ایک درباری صحافی اپنا وفاداری بخوبی نبھا رہے ہیں، اب چونکہ سوشل میڈیا پر یہ درباری اپنی غیر جانبداری کا واویلا کر رہے ہیں، تو بحیثیت ایک پولیٹکل ورکرمیرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ بلوچ ہیں اور ساتھ ہی وہ صحافی بھی ہیں، اپنے وطن بلوچستان کی اہمیت و حیثیت کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے انہیں انتہاہی غیرجانب دار ہوکر اپنی زمہ داریاں نبھانا پڑیں گی۔

انہیں دشمن کے جھوٹے پروگرامز اور نام نہاد سیاسی پارٹیوں اور ان کے سیاست کی تعریف کی بجائے لاپتہ افراد، بلوچ کسانوں بزگر، شوانوں، سٹوڈنٹس  کے مسئلوں، راسکوہ میں ایٹمی دھماکے کے اثرات جو آج کل مختلف بیماریوں کے شکل میں اثر انداز ہو رہے ہیں، جبکہ سی پیک کے بننے سے بلوچستان میں ڈیموگرافک تبدیلیاں آنے کو ہیں،  چائنیز، مہاجر، پنجابی سمیت دوسرے اقوام کو بلوچستان میں آباد کرنے اور بلوچوں کو اقلیت میں بدل کر ہمیں ہماری سرزمین سے ہمیشہ کے لیئے بے دخل کرنے جیسی ناپاک ریاستی عزائم کے بابت بلوچ عوام کو سرپدی دیں۔

اگر انہیں بلوچ مسلح تنظیموں سے  نقصان پہنچنے کا خوف ہے۔ تو بحیثیت پولیٹکل ورکر ہماری جانکاری کے مطابق بلوچ مسلح تنظیمیں انتہاہی باریک بینی سے ہر معاملے کو دیکھ کر، ہر معاملے کا ادراک رکھتے ہیں، وہ بلوچ قومی آزادی کےلئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ بھوک، پیاس، گرمی، سردی اس سے بڑھ کر دشمن کے تمام بے رحم کاروائیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں دوست اور دشمن کی پہچان رکھتے ہوئے ایسی بلوچ مخالیفین پر کڑی نطر رکھتے ہیں، جو بلوچ ہوتے ہوئے بلوچ تحریک کے
خلاف دشمن سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔

نوٹ: یہ آرٹیکل بی این ایم خاران زون کے عہدیدار نثار بلوچ کی لکھی تحریر ہے، جنہیں گذشتہ ماہ مستونگ کے مقام پر ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا۔ یہ آرٹیکل پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے، دی بلوچستان پوسٹ بعد از اجازت اس تحریر کو دوبارہ شائع کررہی ہے۔