بلوچ قومی سوال – برھان زہی

902

بلوچ قومی سوال

برھان زہی

وطن عزیز بلوچستان اس وقت قومی تحریک کی بدولت تاریخ کے اہم ترین مقام پر کھڑا ہے۔ گو کہ قومی تحریک کے گوناں گوں مسائل و عوامل ہیں۔ مگر کیفیتی اور کمیتی حوالے سے بہت سی چیزیں اثر پزیری سے بھی گزر رہی ہیں۔ سائنسی انداز معاشرتی کمیت، تجزیاتی نقطہ نگاہ حالات سے بہ خوبی واقفیت، تدبر و حکمت عملی، ہر تحریک اور خاص الخاص تبدیلی کی تحریکوں میں ازحد ضروری ہوتے ہیں۔ طے شدہ چیزیں بھی تغیر و تبدیلی سے گزرے بغیر شفاف نہیں ہوتی۔ جدلیاتی عوامل ہمیشہ ہر شے میں تز و یراتی سکٹر پن کو وسعت دیتے ہیں۔ ایسا کبھی بھی ہو نہیں سکتا کہ ہر چیز اپنی جگہ ساکت سالم ہو۔ امکاناتی کیفیت گو کہ ہر رنگ میں اپنے مضمرات لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ مگر وہ قطعی طور پر ہمیشہ کسی عنصر سے جڑے ہوئے نہیں ہوتے۔

معاشرہ کوئی بھی ہو پیچ در پیچ پہلو تنگ و تاریک معاشرتی عناصر جلمل کرتے ہوتے ہوئے انسانی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ نو آبادیاتی معاشرہ بہت زیادہ پیچیدہ بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تغیرات بھی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی معاشرتی نفسیات بے پناہ تنگ نظر اور کوتاہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں نفسیاتی کج روی بھیانک اور خوفناک صورت کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ چونکہ ہر معاشرے میں فرد کا کردار اولین شرائط میں سے ایک ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے معاشروں میں فرد کا کردار ڈگمگاتی چال چلتی ہے۔ موقع پرستی، سنگ دلی، دھوکہ دہی، مکاری، جھوٹ و فریب، بغض و جلن، نمود و نمائش، خودستائی، غرور و تکبر، بے حیائی، جنسی بے راہ روی، ناجائز جنسی تعلقات (جسے آزادانہ عشق و محبت کا نام دیا جاتا ہے جو سرمایہ داری نظام اور نیم جاگیردارانہ معاشروں کو طرہ امتیاز ہوتا ہے) مکرو دھونسی بڑائی، جہالت، تعصب، نسل پرستی، بے حسی، بے گانہ پن، وغیرہ تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

معاشرہ کوئی بھی ہو پیچ در پیچ پہلو تنگ و تاریک معاشرتی عناصر جلمل کرتے ہوتے ہوئے انسانی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ نو آبادیاتی معاشرہ بہت سی زیادہ پیچیدہ بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تغیرات بھی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی معاشرتی نفسیات بے پناہ تنگ نظر اور کوتاہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں نفسیاتی کج روی بھیانک اور خوفناک صورت کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ چونکہ ہر معاشرے میں فرد کا کردار اولین شرائط میں سے ایک ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے معاشروں میں فرد کا کردار ڈگمگاتی چال چلتی ہے۔ موقع پرستی، سنگ دلی، دھوکہ دہی، مکاری، جھوٹ و فریب، بغض و جلن، نمود و نمائش، خودستائی، غرور و تکبر، بے حیائی، جنسی بے راہ روی، ناجائز جنسی تعلقات (جسے آزادانہ عشق و محبت کا نام دیا جاتا ہے جو سرمایہ داری نظام اور نیم جاگیردارانہ معاشروں کو طرہ امتیاز ہوتا ہے) مکرو دھونسی بڑائی، جہالت، تعصب، نسل پرستی، بے حسی، بے گانہ پن، وغیرہ تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

’بلوچ معاشرہ‘

بلوچ معاشرہ اپنے پس منظر میں قبائلی اور کسی حد تک نیم جاگیردارانہ معاشرہ ہے اور شہروں میں میٹروپولیٹن بورژوازی کی تھوڑی جھلک بھی لئے ہوئے ہے۔ لیکن ہر جگہ بلوچ مزاج کچھ تبدیلیوں کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک قبائلی ہے۔ مگر یہ بات واضح ہے بلوچ معاشرتی زندگی یکساں نہیں ہے اسی لئے بلوچ مزاج مختلف جگہوں پر مختلف ہے اور بعض حالاتوں میں بالکل جدا بھی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچ آبادی مختلف ممالک مختلف معاشروں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ معاشرتی تبدیلی ان ہی معاشروں و ممالک کی مرہون و منت ہے جن ملکوں و معاشروں میں بلوچ آبادی نوآبادیاتی طرزِ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان معاشروں میں بلوچ کی اپنی کوئی مرضی و منشا نہیں ہوتی، جس طرح کی معاشرتی تبدیلی ان ملکوں و معاشروں میں ہوتی ہے بلوچ بھی باامر مجبوری اسی طرح ڈھل جاتے ہیں۔ ان ملکوں کا رویہ بلوچ کے ساتھ انتہائی توہین آمیز و جابرانہ ہیں۔ حتیٰ کہ ان ملکوں کی ایلیٹ بلوچ ایلیٹ کو بھی برداشت نہیں کرتی یہاں تک اپنی حکمرانی میں بھی حصہ نہیں دیتی بلکہ بلوچ ایلیٹ کو بلیک میل کر کے اپنے مقصد کیلئے استعمال کرتی ہے جو بہت ہی توہین آمیز ہے۔

چونکہ دنیا میں ہر جگہ ایلیٹ حکمراں طبقہ ہوتا ہے جو سرمایہ داروں جاگیرداروں فوجی اور سول بیوکریسی تاجروں وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ جن کا طبقاتی مفاد یکساں ہوتا ہے جو زیر دست اکثریتی آبادی مزدوروں، کسانوں، درمیانے طبقوں پر براہِ راست حکمرانی کرتی ہے۔ چونکہ بلوچستان میں نہ کوئی بڑی صنعتی ترقی ہوئی ہے اور نہ ہی پنجاب و سندھ کی طرح کوئی جاگیردارری نظام ہے۔ لہٰذا بلوچ ایلیٹ یا حکمراں طبقہ نوابوں، سرداروں، میروں، معتبروں، کہداﺅں اور کسی حد تک مذہبی پیشواﺅں جنہیں بلوچ معاشرے میں شے کہتے ہیں پر مشتمل ہے۔ بلوچ اکثریتی آبادی یعنی مظلوم طبقہ چرواہوں، ماہیگروں (مید) نقیب، مولد، لوڑی، کے ساتھ کھلے میدانوں میں گدانوں میں آباد ایک حد تک آزاد دیش بلوچوں پر مشتمل ہے۔ جن کا گزر بسر بارانی زمینوں کی پیداوار اور مال مویشی پالنے پر منحصر ہے۔ یہ طبقہ چونکہ آزاد بلوچوں پر مشتمل ہے اسی لئے یہ نقیب، درزادہ، لوڑی وغیرہ کی طرح پابند نہیں ہے۔ بلکہ اپنی ذاتی اراضی اور مال موویشیوں کے خود مختار و مالک ہیں ماضی میں مکران میں میر و کہدہ اسی طبقے سے لئے جاتے رہے ہیں۔ لہٰذا یہ طبقہ اپنی لڑائی جھگڑوں کے فیصلے اپنے اپنے علاقوں کے میروں اور کہداﺅں سے کرانے کے پابند رہے ہیں، مگر فی زمانہ جدید طرز زندگی کی بدولت کہداﺅں اور میروں کی وہ اہمیت اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

’بلوچ درمیانہ طبقہ‘

دوسری جانب گزشتہ چار دھائیوں سے بلوچ مڈل کلاس (درمیانہ طبقہ) بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ طبقہ بلوچ اکثریتی آبادی سے نکلا ہے۔ اسی طبقے میں تقریباً تمام بلوچ پرتوں کی نمائندگی موجود ہے۔ شروع میں بلوچ درمیانہ طبقہ آزاد و ینش بلوچوں سے برآمد ہوا۔ مگر حالات و وقت کے ساتھ ساتھ اس طبقے میں پسماندہ بلوچ طبقوں جیسا کہ نقیب، درزادا، لوڑی اور مید وغیرہ بھی درمیانہ طبقے کا حصہ بنے، جیسا کہ دنیا کے تمام معاشروں میں درمیانہ طبقہ بنیادی کردار کا حامل رہا ہے۔ یہی طبقہ سیاست، ادب دفن، ثقافت و تہذیب کے پروان چھڑانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ بلوچ معاشرے میں بھی اسی طبقے نے بلوچ سیاست، ادب و فن، زبان و ثقافت کی ترقی میں بے لوث و نہایت گراں قدر خدمات انجام دی ہے اور دے رہا ہے۔ بلوچ درمیانہ طبقے نے کمال محنت سے اور اپنے دستیاب وسائل سے اپنی مدد آپ کے تحت سیاست، زبان و ثقافت، ادب و فن کی آبیاری کی۔ اسی طبقے نے بلوچ قومی تحریک کو ترقی کی جانب گامزن کیا۔ آج بھی جاری قومی تحریک بہت حد تک بلوچ درمیانہ طبقے کی مرہون منت ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں درمیانہ طبقہ کو موقع پرست بھی شمار کرتے ہیں مگر حیرت انگیز طور پر بلوچ درمیانہ طبقے کا کردار اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔

’بلوچی پیٹی بورژوا طبقہ‘

بلوچ پیٹی بورژوا اپنے کردار کے حوالے سے سیاست وغیرہ سے بالکل بیگانہ ہے، مگر کسی حد تک کہیں کہیں سوشل نظر آتی ہے، چونکہ بلوچ پیٹی بورژوا ابھی شروع کے مراحل میں ہے۔ اس لئے اس کی اہمیت بھی بہت کم ہے۔ لیکن کسی حد تک بلوچ پیٹی بورژوا موجود ضرور ہے۔

’بلوچ بورژوا زی‘ (سرمایہ دار طبقہ)

بلوچستان میں صنعت اور صنعتی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچ سرمایہ طبقہ (بورژوازی) کی پیدائش نہیں ہونی یہ طبقہ بلوچستان میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بورژوازی معاشرتی و ملکی ترقی کے علاوہ جدید نظام زندگی کا اہم ترین طبقہ ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں نافذ جدید جمہوریت اسی طبقے کی پیداوار ہے۔ بورژوا طبقہ پوری معاشرتی زندگی نظام ہائے زندگی کا کایا پلٹ دیتی ہے۔ اس طبقے کی بدولت تمام دوسرے طبقات، پرانے روایات رسم و رواج، مزاج، فرسودہ سوچ و افکار، پرانی تہذیب و ثقافت فرسودہ قومی سوچ و فکر قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ سائنس، علم و حکمت، فن و ادب، آرٹ، کلچر کو بورژا طبقہ دوام دیتا ہے۔ ’بقول کارل مارکس بورژوا طبقہ وحشی سے وحشی قوموں کو جن کے دل میں دوسروں کی نفرت مارے نہیں مرتی اپنے سرمایہ کے ہتھیار سے مار مار کر تہذیب کے دھارے میں لاتی ہے‘ (کمیونیٹ مینی فسٹو اردو ترجمہ دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو)۔ غرض یہ کہ بورژوا طبقہ نے جدید دنیا تشکیل دی۔ بورژوا طبقے نے ایسے ایسے ہوش روبا ایجادات کئے کہ دنیا نے اس سے پہلے اس کا تصور ہی نہیں کیا تھا۔ مگر اس طبقے نے اس کے ساتھ ساتھ دوسرے عوامل بھی پیدا کئے۔ جیسا کہ پرو لتاریہ (جدید صنعتی مزدور طبقہ یا ورکنگ کلاس)۔

بلوچستان میں بورژوازی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ورکنگ کلاس بھی ناپید ہے۔ بلوچ معاشرے میں بلوچ بورژوازی کی جگہ بلوچ مالدار طبقہ (ایلیٹ) موجود ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ بلوچ ایلیٹ کی دلچسپیاں اپنے جاہ و جلال رعب و دبدبہ اپنے قوم کا بے رحمانہ استحصال نمود و نمائش سے زیادہ اور کچھ نہیں رہی ہیں۔ بلوچ ایلیٹ صاحب ثروت و مالدار ہونے کے باوجود خود اپنے مفاد کیلئے بھی کارو بار و صنعت کی جانب راغب نہیں ہوئی۔ بلکہ بہت حد تک کاروبار و صنعت کاری کو اپنے شان کے خلاف سمجھتا رہا ہے اور بڑی حد تک اس کو اپنی توہین سمجھا ہے بالکل مغل بادشاہوں و شہزادوں کی طرح جنہوں نے ہندوستان جیسے وسیع و عریض خطے پر حکمرانی ضرور کی، مگر صنعت و حرفت سے جیسے نفرت ہی کرتے رہے۔ اسی طرح بلوچ نوابوں، سرداروں اور میر و معتبروں نے بلوچستان جیسے عظیم سرزمین پر اپنی حاکمیت ضرور قائم کی۔ مگر کاروبار و صنعت کاری کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان پر پاکستان و ایران جیسی جابر ریاستوں کا قبضہ ہے، ان ممالک نے جان بوجھ کر بلوچ وطن میں کاروبار و صنعت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بلوچ اشرافیہ (سرداروں و نوابوں) کی اکثریت پہلے برطانوی استعمار کے ساتھ اور 1948ءسے پاکستانی ریاست کے ساتھ وابسطہ ہیں۔ حالانکہ ایوبی آمریت کے دور میں پاکستانی ریاست میں صنعت کاری کا اجرا ہوا۔ بنکوں اور مالیاتی اداروں کے ذریعے صنعت کاری کیلئے قرض جاری ہوئے۔ اس مقصد کیلئے PIDC اور IDBP جیسے ادارے قائم ہوئے جنہوں نے دل کھول کر صنعت کاری کے لئے کثیر قرض فراہم کئے۔ جس کی وجہ سے کراچی، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، پشاور گدون، ڈھاکہ اور سہلٹ میں صنعتی زون قائم ہوئے جس کی وجہ سے بنگال، سندھ، پنجاب اور پختونخواہ میں ورکنگ کلاس نمایاں ہوئی جس نے آگے چل کر 1968ءکی عظیم تحریک میں اہم رول ادا کیا اور اسی تحریک کی بدولت ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور ایوبی آمریت غرق یاب ہوئی جس نے بلوچ وطن میں جبر و ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ بلوچ اشرافیہ کی اکثریت پاکستانی ریاست کے ساتھ رہی اور بلوچستان میں اپنی نام نہاد حکومتیں بھی قائم کرتی رہی۔ اگر بلوچ اشرافیہ چاہتی تو بلوچستان میں یعنی صنعت کاری کر سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں ورکنگ کلاس ناپید ہے، یاد رہے 1968ءکی تحریک بین الاقوامی تھی جس کے اثرات یہاں بھی پڑے۔

’بلوچ لُمپن پرولتاریہ‘ طبقہ:

اس طبقے کی بلوچ معاشرے میں بڑی کثرت ہے، بیروزگاری کی فوج ظفر موج نے اس طبقے کو خوب پروان چھڑایا ہے۔ ایک تو ریاست کی پالیسیوں کی وجہ سے جان بوجھ کر بلوچوں کو روزگار کے ذرائع فراہم نہیں کئے، دوسری وجہ بلوچ معاشرے کا ڈھانچہ بھی ہے جو جوائنٹ فیملی سسٹم کی بدولت ہے۔ سارا خاندان مل جل کر رہتا ہے جس میں کمانے والے چند اور کھانے والے لاتعداد لُمپن پرولتاریہ وہ طبقہ ہے جس کا ذرائع پیداوار میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، یہ طبقہ غیر ذمہ دار طبقہ ہوتا ہے۔ بیروزگار، آوارہ گرد، چور اچکے، ڈاکو، اٹھائی گیر، بدمعاش، دادا گیر، اسمگلر وغیرہ اسی طبقہ پر مشتمل ہیں۔ اس طبقے کو کوئی بھی اپنے ناجائز مقاصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ طبقہ معاشرے کا فاضل پرزہ ہوتا ہے جسے کہیں بھی فٹ کیا جا سکتا ہے، اس لئے کسی نیک اور اچھے مقصد کیلئے یہ طبقہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔

’بلوچ پرولتاریہ یا ورکنگ کلاس طبقہ‘

پرولتاریہ یا ورکنگ کلاس طبقہ عظیم انقلابی طبقہ ہے بلکہ انقلاب کا ہرا ول ہے۔ دنیا بھر کے سارے ذرائع پیداور اسی عظیم طبقے کے مرہون منت ہیں۔ پرولتاریہ یا ورکنگ کلاس کا ظہور انگلستان میں صنعتی انقلاب یا بورژوا انقلاب کے ذریعے ہوا۔ ولائدمیر ایل ایچ لینن اور لیون ٹراٹسکی کی قیادت میں اکتوبر 1917ءکا روس میں عظیم سوشلسٹ انقلاب اسی طبقے نے برپا کیا۔ جس نے ساری دنیا کا کایا پلٹ دی اور سارے عالم کو متاثر کیا۔ اس عظیم طبقے کے بغیر کوئی بھی سماجی ملکی و قومی انقلاب تقریباً نامکمل ہوتا ہے۔

بلو چ معاشرے میں یہ عظیم انقلابی طبقہ اپنی واضح اور مکمل شکل میں موجود نہیں تو پھر ہم اسے کہاں ڈھونڈیں؟ چونکہ یہ عظیم انقلابی طبقہ جدید صنعتوں سے منسلک ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہیوی مکلینکل انڈسٹری، فولاد سازی کی صنعت، انجینئرنگ، ریلوے، جہاز سازی، کان کنی، ائرلائن انڈسٹری، موٹر سازی کی صنعت، بجلی گھر یا بجلی سازی کی صنعت، پٹرولیم انڈسٹری، اور دوسری چھوٹی بڑی صنعتیں، واضح ہو کہ سائنس کی عظیم الشان ترقی کے بدولت روایاتی صنعت کے برعکس دوسری بہت سی صنعتیں وجود میں آ گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے دماغی محنت کرنے والوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بھی وجود میں آ گئی ہے۔ جو سائنسی اور معاشی ماہرین سے لے کر ٹھنڈے دفتروں میں کمپیوٹروں کے سامنے بیٹھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے جنہیں وائٹ کالر لیبر کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی معاشی یا معاشرتی تبدیلی میں ان کا رول نہایت اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر کی اکثریت ان کی تعداد ایک تہائی سے اوپر پہنچ چکا ہے اور جوں جوں سائنس و حرفت میں ترقی ہو گی ان کی تعداد میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوتا جائے گا، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پرولتاریہ کا اس طبقے سے جڑجانا فطری امر بن چکا۔ کیونکہ دونوں محنت کش ہیں ایک جسمانی محنت کرتا ہے اور دوسرا دماغی، اس لئے اب دنیا بھر میں آنے والے انقلابات بے پناہ جدید اور کشادہ ہوں گے۔

پھر سوال کہ بلوچ پرولتاریہ کو کیسے تلاش کریں اور کیونکر اس کا انقلابی کردار کو بلوچ قومی تحریک سے منسلک کریں۔ اگر بلوچستان میں صنعتی ترقی ہوتی تو ظاہر ہے بلوچستان میں میٹروپولیٹن شہر وجود میں آتے اور بلوچ قومی آزادی کی شکل شہری ہوتی اور طریقہ کار ہندوستان کی طرح پر امن قومی آزادی کی تحریک ہوتا۔ لیکن چونکہ بلوچستان میں شہری پرتیں نہیں ہےں۔ اس لئے بلوچ قومی آزادی کی جنگ گوریلا طریقہ جنگ ہے جو بہت سی خون آشام ہوتا ہے اور صبر آزما بھی۔ بلوچ پرولتاریہ یا ورکنگ کلاس بلوچ محنت کش طبقہ ہے جو بلوچ معاشرے میں موجود ہے۔ بلوچ بزگر، چرواہا، ماہیگیر چھوٹی بڑی مزدوری کرنے والے افراد کسی حد تک بلوچ پرولتاریہ ہے، جو کہ مسلسل استحصال کا شکار ہے۔

بلوچ شہری آبادی کلاچی (کراچی) میں آباد ہے۔ کلاچی جو بلوچ گل زمین کا حصہ تھا جسے گل زمین سے جدا کر دیا گیا۔ یوں تو دریائے سندھ کا مغربی پاٹ سارے کا سارا اور پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان، چوٹی زریں،تونسہ شریف، لیہ وغیرہ بلوچ وطن کا بلا شرکت غیرے حصہ ہیں اور ان خطوں کا قومی تحریک سے جڑ جانا اب لازمی امر بن گیا ہے کیونکہ ان خطوں کے بغیر بلوچ وطن نامکمل ہوگا۔ کراچی کی شہری بلوچ آبادی تاریخی حوالے سے بلوچ قومی تحریک سے کسی نہ کسی ذریعے سے جدا نہیں ہےں، ہمارے عظیم قومی رہبر میر یوسف عزیز مگسی سے لے کر شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ تک نے کراچی کو ایک خاص حیثیت و مقام دی۔ گل زمین سے جتنی تحریکیں ابھری ان سب کا مرکز کراچی ہی رہا ہے اور آج بھی قومی تحریک سے وابسطہ کارکنوں اور ہمدردوں کا بھی اہم حصہ ہے۔ 1968ءکا ابھار جس میں کراچی کے مزدوروں نے ہراول رول ادا کیا۔ اس تحریک کا ہیرو مزور رہنما چاچا عثمان بلوچ تھے۔ نظریاتی حوالے سے نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچ قوم پرست دھڑے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس زمانے میں نیشنل عوامی پارٹی کو بلوچ قومی تحریک کا ہی حصہ مانا جاتا تھا۔ 1968ءکی ابھار چونکہ بین الاقوامی تھی۔ جس کے اثرات یہاں پر بھی رونما ہوئے تھے۔ لہٰذا امریکہ کے موخر ہفتہ وار جریرہ ’ٹائم میگزین‘ نے اس حوالے سے ایک خصوصی شمارہ شائع کیا جس میں اس تحریک کے حوالے سے مختلف صحافیوں و دانشوروں کے تبصرے و تجزیے شامل تھے، قابل غور بات یہ ہے کہ ’ٹائم میگزین‘ نے بھی چاچا عثمان بلوچ کو ہیرو قرار دیا اور اس خصوصی شمارے کے سر ورق پر چاچا عثمان بلوچ کی تصویر لگا دی تھی۔

چاچا عثمان بلوچ کو پزیرائی نہیں دی اور آج یہ عظیم رہنما ہمارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی ہم میں اتنی توفیق نہیں کہ عثمان بلوچ کے تجربات سے کوئی فائدہ اٹھائیں۔

بہرحال بلوچ پرولتاریہ یا ورکنگ کلاس کسی حد تک کراچی میں موجود ہے۔ کراچی کے بلوچ چونکہ شہری پرت سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے کراچی کے بلوچوں کا مزاج کافی حد تک شہری ہے، گو کہ قبائلی عنصر بھی ان میں شامل ضرور ہے لیکن کمزور بنیادوں پر، اس لئے یہاں کے بلوچ ہر چیز کو شہری نکات کے مطابق دیکھتے ہیں۔ کراچی کے بلوچ ہر حوالے سے قومی تحریک سے روحانی اور جزباتی لگاﺅ بھی رکھتے ہیں، ماضی سے لے کر اب تک کراچی بلوچ قومی سیاست کا مرکز رہا ہے۔ اسی لئے کراچی کے بلوچ قومی تحریک سے اب تک جڑے ہوئے ہیں اور ان کا کردار نہایت اہم ہے، کیونکہ کراچی مادرِ گل زمین کا اٹوٹ حصہ ہے۔