منزل آزادی کے لیئے قوم اگلے سال انتخابات کا بائیکاٹ کریں،ڈاکٹر اللہ نذر

465

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ایک اخباری بیان میں بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگلے سال بلوچستان میں ہونے والے انتخابات کا اسی طرح سے بائیکاٹ کریں جس طرح انہوں نے 2013 میں کیا تھا۔ انتخابات سے بائیکاٹ آزادی کیلئے ایک بہت بڑی جہد اور کوشش ہے۔ بلوچ عوام نے جس طرح سے پچھلے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا گویا وہ پاکستان سے نجات کیلئے ایک ریفرنڈم تھا۔

ان پانچ سالوں میں پاکستان نے جس تیزی سے بلوچستان میں آپریشن، اغوا، قتل، گھروں کو جلاکر لوگوں کو در بدر کرکے بربریت کی جو مثال قائم کی ہے، اس سے جلد چھٹکارا اور آزادی حاصل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ہم جتنی دیر غلام رہیں گے، اتنا ہی پسماندہ، پست ذہن، شناخت سے محروم اور بالخصوص من حیث القوم سرزمین سے مٹ جائیں گے۔ آزادی کا موجودہ جد وجہد اور اُبھار ہمیں یہ حوصلہ دے رہا ہے کہ ہم پاکستان کو شکست دینے کے قریب ہیں۔ ہم جتنے قریب پہنچتے جائیں گے، مشکلات اسی طرح بڑھتی جائیں گی لیکن ہم اس کی خاطر ہر قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان نفسیاتی شکست کھاکر حواس باختگی میں نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں کو اُٹھا کر ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دیکر اپنی شکست چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم نے انتخابات اور پارلیمنٹ کے بہت تجربے کیے ہیں مگر اس کے بدلے ہمیں ظلم و جبر اور بلوچ نسل کشی کاسامنا کرنا پڑا ہے اور اسمبلی ممبران محض تماش بین ہی بن سکتے ہیں۔ اسمبلی فلورز پر غیر قانونی مردم شماری کی مخالفت اور افغانی آبادکاروں کو بلوچستان کی شہریت دینے کے خلاف اسمبلی ممبران کی باتیں کھلی کتاب کی طرح عیاں ہیں کہ ان کی حیثیت و طاقت کیا ہے۔ ان کی قرار دادوں کو اسلام آباد ردی کی ٹوکری میں پھینک کر انہیں چپ کراتا ہے۔ ان اسمبلیوں میں آئی ایس آئی کے چہیتے لوگ منتخب ہوتے ہیں جو ہر عمل اور ہر قدم پر جی ایچ کیو سے ہدایات لیتے ہیں اسی لئے بلوچستان اسمبلی ہی سے بلوچ نسل کشی کے پروانوں پر دستخظ کروائے جاتے ہیں۔

آج نیشنل ایکشن پلان اور ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کے تحت خود سرکاری بیانیہ موجود ہے کہ سرفراز بگٹی نے اگست 2016 میں اعتراف کیا تھا کہ 2015 اور 2016 کے دوران 2,825 آپریشنوں میں 13,575 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل اکبر حسین درانی نے تصدیق کی تھی کہ نو ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیاہے، جو بائیس ہزار سے زائد ہیں۔ اس سے پہلے اور بعد کے مجموعے کو دیکھ کر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ پاکستان نے بلوچستان میں کس طرح کا ایک انسانی بحران پیدا کیا ہے جو خالصتاً بلوچ نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی تمام لوگ تاحال پاکستان کے خفیہ زندانوں اور عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ یہ چیزیں کسی بھی بلوچ کیلئے قابل قبول نہیں ہیں اور بلوچ قوم نے شعوری طور پر فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان سے آزادی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ نام نہاد قوم پرستوں کے دور حکومت میں توتک خضدار سے اجتماعی قبریں برامد ہوئیں اور وہ صرف تماشہ دیکھتے رہے کیونکہ انہیں آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کی طرف سے ہدایات ہوتی ہیں کہ بلوچ قومی مسائل اور بلوچ پر کیے جانے والے مظالم پر بات کرنے کی سزا کرسی سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے۔

پاکستان ایک دفعہ پھر بلوچستان میں اسی طرح کے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے۔ یقیناًیہ بلوچ نسل کشی اور مظالم میں اضافے کی ایک کڑی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستانی الیکشن کمیشن کے مطابق گزشتہ انتخابات میں بلوچستان میں ٹرن آؤٹ صرف پانچ فیصد رہا، جو درحقیقت اس سے بھی کم ہے مگر خانہ پوری کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت بناکر بلوچستان میں ایک خونی آپریشن کی منظوری لی گئی، جس کا نتیجہ ہزاروں خاندانوں کا بے گھر ہونا، ہزاروں افراد کا اغوا اور قتل کے طورپر ہمارے سامنے ہے۔ امید ہے کہ بلوچ عوام ماضی کی طرح ان انتخابات کا بھی بائیکاٹ کرکے بلوچ جہد آزادی کا ساتھ دیں گے۔