لندن میں موثر و کامیاب فری بلوچستان مہم : رپورٹ: لطیف بلوچ

502

رپورٹ : لطیف بلوچ

لندن: ٹیکسیوں اور بل بورڈز کے بعد بسوں پر بھی آزاد بلوچستان کی پوسٹرز لگ گئے،

تفصیلات کے مطابق ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن نے بلوچ تحریک آزادی کے متعلق لندن میں ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے مہم کا مقصد دنیا کی توجہ پاکستان کی بلوچ سرزمین پر جبری قبضہ اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی طرف مبذول کرانا ہے۔ اس مہم کا آغاز 3 نومبر کو لندن کے ٹیکسیوں پر آزاد بلوچستان کے پوسٹرز لگا کر کیا گیا اس کے بعد 6 نومبر کو شہر کے اہم مقامات پر بڑے بڑے بل بورڈز پر فری بلوچستان کی پوسٹرز آویزاں کئے گئے جبکہ اس مہم کے سلسلے میں 10 نومبر کو اندرون شہر میں چلنے والے بسوں پر بھی فری بلوچستان کے پوسٹرز لگ گئے ہیں اب تک تقریباً 100 بسوں پر فری بلوچستان کی پوسٹرز آویزاں کئے گئے ہیں جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ، لندن سفارت خانہ اور دیگر حکام ان پوسٹرز کو ہٹانے کے لئے سرگرم ہوچکے /

اس سلسلے میں گزشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے برطانوی حکام سے شدید احتجاج کیا گیا اور برطانیہ کو فری بلوچستان پوسٹرز مہم کو روکنے کے لئے ایک مراسلہ بھی لکھا گیا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم برطانوی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ اور آرمی چیف نے الگ الگ بُلاکر احتجاج ریکارڈ کروائے ۔ پاکستان کو اس مہم کو روکنے میں ہر سطح پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اُنہوں نے پاکستانی نژاد مئیر لندن کو استعمال کرکے ٹیکسیوں پر لگے پوسٹرز کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے لیکن بسوں اور بل بورڈز پر لگے پوسٹرز کو ہٹانے میں پاکستانی حکام کو ناکامی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، ٹیکسوں پر فری بلوچستان کے پوسٹرز کو ہٹانے پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور اراکین پارلیمنٹ نے شدید احتجاج کرکے اس عمل کو آزادی تحریر و تقریر پر قدغن اور آزادی اظہار رائے پر سنگین حملہ قراد دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے برطانوی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن پیٹر ٹیچل جو بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم ہیں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان لندن میں بھی بلوچ قوم کی آواز کو دبانا چاہتی ہے جیسے کہ وہ بلوچستان میں کر رہے ہیں وہاں صحافیوں ، انسانی حقوق کے اداروں اور امدادی اداروں کو جانے کی اجازت نہیں، مسٹر ٹیچل نے پاکستان کے احتجاج کو برطانوی سیاسی اقدار پر حملہ قرار دیا۔
لندن سے شائع ہونے والے معروف اخباروں نے فری بلوچستان مہم کو خصوصی کوریج کئے جبکہ سوشل میڈیا خصوصًا ٹوٹیٹر پر فری بلوچستان مہم بہت توجہ حاصل کرچکا ہے۔

برطانیہ، بھارت، کُردستان سمیت دیگر ممالک کے انسان دوست لوگ اس مہم میں شرکت کررہے ہیں اور وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر شدید تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔

جبکہ اس حوالے سے ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کے آرگنائزر میر جاوید مینگل نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کی پلیٹ فارم سے لندن میں فری بلوچستان مہم کا آغاز بلوچستان میں جاری پاکستان کی ظلم و ذیادتیوں، انسانی حقوق کی پامالیوں، بلوچ قوم کی نسل کشی اور بلوچ سرزمین پر قبضہ اور وسائل کی لوٹ مار سمیت پاکستان کی دیگر بلوچ کش پالیسیوں کو عالمی سطع پر اجاگر کرنے کے لئے شروع کیا ہے اور اس کمپین کے ذریعے دنیا کی توجہ بلوچستان کی جانب
مبذول کراسکے اور اُنھیں یہ بتانے کی کوشش کررہے ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے جو نہ صرف بلوچ قوم کے لئے خطرہ ہے بلکہ دنیا کی امن و استحکام اور ترقی کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج و خطرہ ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جینس ادارے بلوچ قوم کی آواز کو دبانے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہے ہیں ، سیاسی کارکنوں ، طلباء ، دانشوروں ، ڈاکٹروں ، ادیب و شاعروں ، وکلاء اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکنوں کو جبری لاپتہ کرکے ٹارچر سیلوں میں اُن پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں دوران تشدد نوجوانوں کو شہید کرکے اُنکی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں جبکہ میڈیا پر مکمل پابندی عائد ہے میڈیا بلوچستان میں جاری انسانیت سوز مظالم پر مکمل خاموشی اختیار کرچکی ہیں ۔

لہذا ہم نے سوچا کہ عالمی سطح پر کمپین چلا کر دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کریں ، پاکستان ہمارے اس پرامن مہم سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر اس پرامن مہم کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہا ہے لیکن چونکہ برطانیہ میں اظہار رائے کی آزادی ہے ہر کسی کو یہ حق حاصل ہیکہ وہ بلا خوف و خطر اپنے رائے کا اظہار کرے۔

میر جاوید مینگل نے کہا کہ ہمیں اُمید ہیکہ دنیا اور انسان دوست قوتیں بلوچستان میں جاری پاکستان فوج کی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو رُکنے میں ہماری مدد کریں گے۔